اگر اس شعری جملے کے علاوہ کالم کا کوئی موضوع ہو تو اسے انسان اور سائبر کلچر کے درمیان ایک تعلق قرار دیا جاسکتا ہے۔ سائبر سپیس میں انٹر نیٹ اور دیگر نیٹ ورکس باہم مدغم ہو کر ایک کلچر تشکیل دیتے ہیں۔ معلومات کا یہ بہتا ہوا دھارا اپنے دامن میںبہت سی حیران کن تبدیلیوں کو لیے ہوئے ہے۔ ایسی ہی ایک عقل کو دنگ کردینے والی پیش رفت روس کے اُس ارب پتی کی طرف سے سامنے آئی ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ کمپیوٹر کی مدد سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔ نیویارک سٹی میں ہونے والی ’’گلوبل فیوچر 2045 انٹر نیشنل کانگرس ‘‘ جس میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی، بتیس سالہ ڈمتری اتسکوف (Dmitry Itskov) نے بتایا کہ کس طرح کمپیوٹر سے چلنے والا روبوٹ انسان کو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھ سکتا ہے۔ کیا موت ایک راز نہیںہے؟ گزشتہ ہفتے روبوٹس اور زندہ دل لوگوںکی کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ نیویارک ایک ایسا شہر ہے جو کبھی نہیں سوتا اور یہ ایک ایسا شہر بن چکا ہے جو کبھی نہیں مرے گا۔اس روسی ارب پتی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی دولت سے کمپیوٹر ز کی مدد سے چلنے والے ایسے روبوٹ بنائے گا جو قریب المرگ بیمار انسان کے جسم کی جگہ لے کر ’’اُسے ‘‘ مصنوعی جسم او ر دماغ کے سہارے ہمیشہ زندہ رکھیںگے۔2045ء تک ایک ٹیکنالوجی نروانہ (nirvana) مصنوعی دماغ کی مدد سے جسم کے غیر مرئی احساسات کو کنٹرول کر سکے گی۔ اتسکوف کے تصور کو حقیقت کا روپ دینے میں معاون جاپان کا روبوٹس بنانے کا ماہر ہیروشی اشگرو(Hiroshi Ishiguro) بھی کانفرنس میں موجود تھا۔ وہ اپنے ساتھ اپنا ہم شکل روبوٹ بھی لایا تھا۔ اُس کے تاثرات، حرکات و سکنات بالکل اپنے ’’خالق ‘‘ جیسی تھیں۔ اتسکوف نے کہا: ’’اب وہ وقت دور نہیں جب ٹیکنالوجی بھی انسانی ارتقا میں شامل ہو جائے گی۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم مستقبل کا ادراک کرتے ہوئے اسے عوامی بحث کا حصہ بنا دیں۔ اس سے ہم ایک ایسا منظر نامہ تشکیل دے سکیں گے جس میںانسانیت ہمیشہ زندہ رہے گی۔‘‘ جس دوران دنیا ذہنی اور فکری ارتقا کی نئی رفعتوں کو چھو رہی ہے،ہم پاکستانی ایک حمام ِ گرد باد میں اسیر ہیں۔ اس سے باہر نکل کر باقی دنیا کاہم قدم ہونااس وقت ناممکنات میںسے ہے۔ ’’ ایشیا سوسائٹی ‘‘‘ کے پراجیکٹ ڈائرکٹر حسن عباس کا کہنا ہے: ’’پاکستان کو آنے والے سالوں میں بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔‘‘ سب سے بڑا چیلنج فکری ارتقا کا ہے۔ تاہم کیا ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کوئی پروگرام بنایا گیا ہے؟ کیا ارباب ِ اختیار میں سے کوئی اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ ہم قوم کو ذہنی اور فکری طور پر کہاں لے آئے ہیں؟ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال بھی تصوراتی سوچ رکھنے والوں میںسے ہیں۔ وہ پاکستان کا بہتر مستقبل تشکیل دینے کے لیے کئی عشروںسے محنت کر رہے ہیں؛ تاہم اب جب کہ وہ وفاقی وزیر ہیں، اب بھی پلاننگ کر رہے ہیں۔ گویا عملی اقدامات کا ہنوز وقت نہیں آیا۔ اس کام میں ان کی ساتھی انوشہ رحمان خاں نے جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزیر ہیں، وعدہ کیا تھاکہ وہ یوٹیوب پر لگائی گئی احمقانہ پابندی ہٹا دیںگی، لیکن اب اطلاع آئی ہے کہ گوگل نے متنازعہ مواد ہٹانے سے متعلق پاکستان کی درخواست رد کر دی ہے؛ چنانچہ پاکستان گوگل پر بھی پابندی لگانے کا سوچ رہا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ بات کہا ں جا کر رکے گی۔ باقی دنیا تو گوگل کو ایک ناگزیر سرچ انجن قرار دیتی ہے، معلوم نہیں ہم اس کے بغیر کیا کریںگے؟ اُدھر ’’نیشنل سیکورٹی ایجنسی‘‘ کی طرف سے راز چرانے کی خبر افشا ہونے پر امریکی عوام اور ری پبلکن پارٹی حکومت کی خوب خبر لے رہے ہیں۔ عوامی دبائو کی وجہ سے نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جیمز کلاپر PRISM کے متعلق بات کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ حکومت کے زیر ِ استعمال کمپیوٹر کو استعمال کرتے ہوئے عدالتی احکامات کی روشنی میں غیر ملکی انٹیلی جنس معلومات حاصل کی گئیں۔‘‘اس وضاحت کے باوجود ری پبلکن پارٹی اُن کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کررہی ہے۔اس وقت کلاپر یقینا اُس صاحب کو کوس رہے ہوں گے جنہوںنے واشنگٹن پوسٹ اور گارڈین کے سامنے راز فاش کیا۔ امریکی تو اپنے معاملات کا جائزہ لے رہے ہیں لیکن کیا ہم نے بھی ایسا کیا؟ ٹائمز میگزین میں مائیکل سیکرر (Michael Scherer) کی لکھی ہوئی پوری رپورٹ موجود ہے۔ اسے پڑھیے اور بغیر کسی جھکائو یا تعصب کے فیصلہ کیجیے کہ دس اکتوبر 2011ء کو فنانشل ٹائمز میں منصور اعجاز نے کیاکہا؟ منصور اعجاز کہتے ہیںکہ: ’’اُنہیں ایک ’سینئر سفارت کار ‘نے میمو دیا جو صدر ِ پاکستان کی ہدایت پر لکھا گیا تھا اور اُس میں امریکہ سے مدد لینے کی بات کی گئی تھی۔‘‘ یہ کہانی درست تھی یا غلط، اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اس معاملے کی تحقیق کن سائنسی خطوط پر کی؟کیا ہم نے یہ سوچا کہ منصور اعجاز مسٹر حقانی اور اُن کے باس صدر زرداری کے خلاف اس لیے زبان کھول رہے ہیں کیونکہ اُن کو پاکستان کی خود مختاری کی پامالی پر دکھ ہوا ہے؟وہ ایک امریکی بزنس مین ہیں اور اُن کی کہی گئی بات مشکوک ہو سکتی ہے۔ پھر بھی ہم نے تحقیق کیے بغیر ایک عام سے شہری کی بات پر اتنا ہنگامہ کھڑا کر لیا کہ پاکستان کا سیاسی نظام برہم ہوتا نظر آیا۔ اب بیس ماہ بعد پاکستان کی عدالت ِ عالیہ نے پھر حسین حقانی کو ایک ماہ کے اندر عدالت کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔ یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اُس وقت یہ نواز شریف اور ان کی جماعت تھی جنہوںنے غالباً نومبر 2011ء میں عدالت میں یہ پٹیشن دائر کی تھی۔ اُس وقت خواجہ آصف نے سپریم کورٹ میں استدعا کی تھی کہ سابق سفیر کو ملک کے خلاف سازش کرنے کی پاداش میں بھگوڑا قرار دے دیا جائے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سپریم کورٹ منصور اعجاز کو بھی طلب کرے گی؟یہ معاملہ بھی پیچیدہ لگتا ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ بات بات پر اخبارات میں مضامین لکھنے والا اور ٹی وی چینلز کو انٹرویوز دینے والا منصور اعجاز صفحہ ِ ہستی سے غائب ہوچکا ہے۔ بہرحال اس وقت امریکہ کی ڈیفنس اکیڈیمی سائبر سپیس پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ کہیں انٹر نیٹ ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال نہ ہونا شروع ہوجائے۔ شواہد بتاتے ہیں اب ملکوں کے درمیان میدان ِ کارزار سائبر سپیس ہی ہوگی۔ ان بدلتے ہوئے حالات میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم صرف گڑے مردے ہی اکھاڑیںگے یا مستقبل کی طرف پیش قدمی کریں گے؟ برطانوی حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ اس کے ’’مضر اثرات ‘‘ سے بچنے کے لیے انٹر نیٹ پر سختی سے نظر رکھے۔ دنیا بھر کی حکومتوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ کوئی بھی وائرس خفیہ راز چراتے ہوئے خوف کی فضا پیدا کر سکتا ہے۔ انٹر نیٹ کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا بھی خطرہ موجود ہے۔ اس میں مقامی گروہوں کے علاوہ حکومتیں بھی شامل ہو سکتی ہیں۔ فی الحال فرح ناز اصفہانی کی بات سن لیں۔ اُنھوںنے ’’مدر جونز میگزین ‘‘ کو بتایا ہے کہ پاکستان میں اگرچہ ہم جنس پرستی کو انتہائی سنگین گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن درپردہ اس کا ارتکاب کرنے والوںکی تعدادبہت زیادہ ہے۔ انہو ںنے اس ضمن میں خیبر پختونخوا کے ایک بڑے شہر کا بھی نام لیا ہے۔ کیا وہ وقت اب قریب نہیں آگیا جب روبوٹ انسا ن کو زندہ رکھ سکتے ہیںتو وہ بہت سی باتیں جو ہم کرنے کی ہمت نہیں کرتے، سننے کا وقت بھی آگیا ہے۔ کیا ٹیکنالوجی منافقت کا پردہ چاک کرنے جارہی ہے؟