کامیابی اس فارمولے کا نام ہے۔۔۔ غربت سے آغاز کرو اور ہر رکاوٹ کو راستے سے ہٹاتے جائو۔ اس جملے کو لفظی معنوں کے اعتبار سے نہ دیکھیں۔۔۔ پاکستان میں اس بات کو شاید نہ سمجھا جا سکے۔ یہاں پر آپ ہر قسم کے رہنمائوںکے منہ سے احمقانہ نوعیت کے بیانات سنیں گے۔ ہر بیان ’’انشااﷲ‘‘ سے شروع ہوگا۔۔۔ جس کا مطلب ہو تا ہے کہ اب آسمانی طاقتیں جانیں اور اُن کا کام جانے، عمل ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ چنانچہ اپنے ہاں طالبان کے خطر ے سے نمٹنے کے لیے یہی ’’تیر بہدف‘‘ فارمولہ مستعمل ہے۔ ان کے لیے یہ دو الفاظ ایسے ہی زود اثر ہیں جیسے ہیری پوٹر کی جادوئی چھڑی۔ ’’اسلام کے قلعے‘‘ ، کچھ عرصہ پہلے جنرل کیانی صاحب نے بھی پاکستان کے لیے یہ اصطلاح استعمال کی تھی، کو شدید خطرہ لاحق ہو چکا ہے اور لارڈ ولڈی مورٹس (ہیری پوٹر میں ایک شیطانی کردار)۔۔۔ طالبان۔۔۔ اس قلعے کو تباہ کر سکتے ہیں۔ ایک خونریز جنگ، جس میں شیطانی طاقتیں ہزاروں افراد کا خون بہاتے ہوئے اس قلعے پر قابض ہو جائیں گی اور پھر اس رزمیہ داستان کی اگلی قسط میں طالبان امریکہ کو تباہ کرنے پر کمر بستہ ہوںگے۔ تخیلاتی کہانی ؟ ہیری پوٹر کی دنیا میں ایسا ہو سکتا ہے۔ یہ ہیر ی پوٹر کی مصنفہ جے کے رولنگ کے اگلے ناول کا پلاٹ ہو سکتا ہے اور کہانی اربوں ڈالر کما سکتی ہے۔ ہو سکتاہے کہ کوئی اور مصنف اسے لکھنا چاہے اور ممکن ہے کہ اسے لکھنے کے لیے کاغذ اور قلم کی ضرورت نہ پڑے۔ جے کے رولنگ نے تو بہت محنت سے کہانی لکھی تھی۔ جب وہ ایک نوجوان لڑکی تھی تو روزانہ مانچسٹر سے لندن جاتے ہوئے ٹرین میں کہانی کی آئوٹ لائن بنانے لگتی۔ اکثر اُسے کسی سے قلم مانگ کر ٹائلٹ پیپر پر لکھنا پڑتا۔ اُس کا کہنا ہے کہ جب کہانی کا تخیل اُس کے ذہن میں ابھرنے لگتا تو ’’مجھے فوراً واقعات کو لکھنا ہوتا تھا تاکہ کہیں ایسا نہ ہو‘ میں وقت ضائع کرکے اُن کا گلا گھونٹ دوں‘‘۔ اُس کے سامنے تصورات اتنے واضح تھے کہ وہ اس حقیقی دنیا میں رونما ہوتے دکھائی دیتے تھے۔ اُس نے بتایا۔۔۔ ’’ہیری پوٹر پوری جیتی جاگتی شخصیت کے ساتھ میرے سامنے موجود تھا‘‘۔ جے کے رولنگ ارب پتی نہیں تھی۔ وہ لند ن کے ایک فلاحی گھر میں ایک بچے کے ساتھ رہتی تھی۔ اُسے پبلک ٹوائلٹ استعمال کرنا پڑتا تھا۔ وہ اپنے بچے کے لیے پیمپر وغیرہ بھی نہیں خرید سکتی تھی۔ جب بچہ سو جاتا تو پھر وہ لکھنے لگتی۔ جب اس کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو لگتا ہے کہ ارب پتی بننے کا لوازمہ غربت ہے۔ ڈزنی لینڈ، جسے ہر سال لاکھوں افراد دیکھتے ہیں، کے خالق والٹ ڈزنی کا کہنا تھا۔۔۔’’ میںنے زندگی میں جو غربت، جو مشکلات، جو تکلیفیں برداشت کیں، اُنھوںنے مجھے کام کرنے کا حوصلہ دیا ۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ آپ اس بات کا احساس نہ کر سکیں جب آپ اس عمل میں سے گزر رہے ہوں، لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ ہمت نہ ہاریں اور ہر مشکل کو راستے سے ہٹاتے جائیں‘‘۔ عظیم لوگوںکے لیے کامیابی کا یہی فارمولہ ہے۔ چنانچہ آپ بھی ہمت کریں اور شٹل کاک برقعہ ،جو مکمل ائیر ٹائٹ ہوتا ہے، پہنیں اور اگر مرد ہیں (لغوی معنوں میں ) تو جتنی داڑھی بڑھا سکتے ہیںبڑھا لیں اور کندھے پر جائے نماز اور ہاتھ میں لوٹا لے کر وزیرستان کے لیے عازم ِ سفر ہو جائیں۔ جغرافیائی طور پروہ علاقہ آپ سے دور نہیں لیکن شہریت کی جن راہوں پر آپ چلتے ہیں وہ وہاں نہیں جاتی ہیں۔ راستے میں آپ کو ملٹری چیک پوسٹ بھی نظر آئیںگی اور ان پر تعینات جوانوں کے دھڑکتے دلوںمیں یہ خطرہ جاگزیں ہو گا کہ کسی طرف سے بھی طالبان کی گولی آکر ان کی جان لے سکتی ہے۔ یہ گولی آپ کی بھی منتظر ہو سکتی ہے اور ایک گولے برساتے ہوئے ٹینک کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہونے کے مقابلے میں یہ خدشہ کہیں مہیب ہوتا ہے۔ آپ کمزور دل ہیں اور سرخ خون آپ کا رنگ زرد کردیتا ہے؟ارے فکر کی کوئی بات نہیں، آپ اُس راہ پر چل رہے ہیں جو عظیم انسانوں کا جادہ ہے اور اس کی منزل پر اربوں ڈالر آپ کے منتظر ہوں گے۔ بہرحال اس کے لیے آپ کو یہ مشکلات تو برداشت کرنی ہی ہیں۔ یہاںآپ کو وہ لوگ بھی مل جائیں گے جو ان پتھروں پر ٹھوکریں کھا کھا کر سنبھلے ہیں اور اب ان کے اکائونٹس میں بے اندازہ دولت ہے۔ یہ کام زیادہ مشکل نہیںہے۔ وہ اقتدار تک پہنچ جاتے ہیں اور پھر ان کے پنجے قومی دولت کو نوچنے لگتے ہیں۔ وہ قوم کی رگ ِ جاں سے لہو نچوڑ نچوڑ کر کسی مغربی ملک کے بنکوںمیں جمع کراتے رہتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا ہیری پوٹر کی جادوئی چھڑی سے بہتر نہیںہے؟ا س وقت سوئس بنکوں کے لاکر انڈونیشیا کے سہارتو، بھارت کے مرحوم راجیو گاندھی، مصر کے حسنی مبارک ، تیونس کے بن علی، لیبیا کے قذافی اور یمن کے عبداﷲ صالح کی دولت سے بھرے ہوئے ہیں۔ عالمی بنک کے اندازے کے مطابق بدعنوان حکمران قومی دولت میںسے تقریباً بیس سے چالیس بلین ڈالر سالانہ چرالیتے ہیں۔ ایک طرف یہ مہان جادوگر ہیں تودوسری طرف جے کے رولنگ کی زندگی مشکلات سے عبارت ہے۔ اس کی زندگی ناکامی سے دوچار تھی۔۔۔ ناکام شادی، بے روزگاری اور ایک بچے کی دیکھ بھال ۔ پھر جیسا کہ رولنگ نے ہارورڈ میں گریجوایٹ کلاس کو لیکچر دیتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ ’’ناکامی کا مطلب ہے غیر ضروری چیزوں(جیسا کہ انا) سے جان چھڑانا۔ میںنے دکھاوا کرنا چھوڑ دیا۔ غربت نے مجھے احساس دلایا کہ میں کیا ہوں۔ خود شناسی کے اس احساس کے بعد میںنے تمام تر توانائی اس کام میںصرف کرنا شروع کردی جس کے لیے میں بنی تھی۔ میرا خیال ہے کہ میں کسی اور میدان میں کامیاب ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ میں کسی بھی خوف سے نجات پا چکی تھی کیونکہ جیسی زندگی میں گزار رہی تھی، اس کے بعد ناکامی کی کوئی منزل نہیںہوتی۔ اب میرے پاس کامیابی کے لیے تمام تر’’اثاثے ‘‘ موجود تھے۔۔۔ ایک پرانا ٹائپ رائٹر اور میرے تخیلات۔زندگی کو جتنی نچلی بنیاد سے شروع کیا جائے، کامیابی کی عمارت اتنی ہی مضبوط بنتی ہے۔‘‘ ہیری پوٹر کے علاوہ رولنگ کی دو اور کتابیں بھی نیویارک ٹائمز کی بیسٹ سیلرلسٹ پر آئیں۔ گزشتہ اکتوبر، سینڈی نامی طوفان نے ایک ہفتہ تک نیوجرسی، جہاں میں رہتی ہوں، کو تاریک کیے رکھا تھا۔ ان سرد اور تاریک دنوںمیں ، میں نے جے کے رولنگ کا پہلا ناول ’’The Casual Vacancy‘‘ پڑھا۔اگرچہ اس میں زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بیان کیا گیا لیکن یہ بہت ہی دلچسپ ناول ہے۔ میں نے خراب اور تکلیف دہ موسم کے باوجود اسے پورا پڑھا۔ اس کی تازہ ترین کتاب ’’The Cuckoo\'s Calling‘‘ایک فرضی نام رابرٹ گلبریتھ کے نام سے لکھی گئی تھی؛ تاہم رولنگ کی شناخت اس طرح ظاہر ہو گئی کہ اس کے وکیل نے اپنی بیوی کی دوست کو بتادیا اور اس نے ’’دی سنڈے ٹائمز ‘‘ کو (خواتین اور اخفائے راز؟، حیرت ہے وکیل صاحب کی عقل پر)بتادیا۔ اس طرح سب کو علم ہو گیا کہ یہ کتاب بھی جے کے رولنگ نے ہی لکھی ہے۔ رولنگ نے اس پر عدالت میں مقدمہ بھی دائر کر دیا او ر جیت گئیں کیونکہ اُس کا کہنا ہے کہ وہ ایک نئے نام سے کتاب لکھنے اور اس کی مارکیٹنگ کرنے کا تجربہ کرنا چاہتی تھی۔ یہ ایک پُرلطف کام تھا لیکن افشائے راز نے سارا کام خراب کردیا۔ ایک نوجوان انگریز خاتون کی گوانتاناموبے کے قیدیوں کے بارے میںلکھی گئی کتاب کی بھی ستر ملین کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے ہاں بھی ایک ہنگامہ خیز ناول کا میٹریل تیار ہے؛ تاہم طالبا ن کی مسلسل پیش قدمی کے بعد کوئی بچ گیا تو شاید لکھ لے لیکن کیا اس وقت چشمِ تخیل آنے والے حقائق کو نہیں دیکھ سکتی؟