زندہ انسانوں کا نوحہ

جب پرویز مشرف کی جگہ آصف زرداری ملک کے صدر بنے تو ایک سو اسی ملین پاکستانیوں نے اپنے بارے میں سوچا ہو گا کیونکہ ان دونوں صدر صاحبان نے ملک کا اس حد تک نقصان کر دیا ہے کہ اب دہشت گردی، بدعنوانی اور لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل زندگی کا حصہ محسوس ہوتے ہیں۔ جب احساسِ زیاں ہی جاتا رہے تو دیوانے اُس راہ پر بے دھڑک چل پڑتے ہیں جہاں فرشتے بھی سوچ سمجھ کر قدم رکھیں۔ بدقسمتی سے ہماری قوت فیصلہ سے محروم اسٹیبلشمنٹ ان چودہ سالوں کے مسائل کو کندھوں سے اتار پھینکنے سے قاصر ہے۔ جب ہر چیز ہی ناکامی سے دوچار ہو تو پھر بچائو کا کیا سامان ہو سکتا ہے؟ ہمارے ادارے ان جرائم پیشہ افراد، طالبان، جو انتہائی زیرک، شاطر اور مکار ہیں، کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ بے شک دماغ ہی سب سے طاقتور ہتھیار ہے۔ یہ ہمیں موت اور تباہی سے بچاتا ہے؛ تاہم طالبان کے حوالے سے یہ بات الٹ ہو جاتی ہے کیونکہ ان کا دماغ اُنہیں دوسری طرف لے جاتا ہے یعنی موت اور تباہی کی طرف۔ بہرحال عام انسانی دماغ کو جسمانی صحت، توانائی، تندرستی اور محرکات کی ضرورت ہوتی ہے؛ تاہم اگر آپ اپنے سیاسی رہنمائوں پر نظر ڈالیں تو کیا کوئی آ پ کو ذہین نظر آئے گا؟ یہ سیدھا سادا سوال نہیں ہے۔ اگر جواب نہ دینا چاہیں تو پھر چھوڑ دیں اور آج کے موضوع کی طرف آ جائیں جو ’’دہشت گردی‘‘ ہے۔ ایک ماہرِ نفسیات کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں کو، جب وہ نیو جرسی میں ایک گھر میں عید کی تقریبات کے لیے جمع تھے، Vyvanse، جو دماغی صلاحتیں بڑھانے والی دوا ہے، کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان میں بہت سے افراد اور اداروں کو اس دوا کی اشد ضرورت ہے۔ جب اُس فاضل ڈاکٹر نے انہیں عید پر اپنے وطن کے لیے دعائیں کرتے دیکھا تو اُس نے کہا کہ اب محض دعائوں کی ضرورت نہیں کیونکہ انھوں نے اتنی حماقتیں برادشت کی ہیں کہ ان کی سوچ بیمار ہو چکی ہے۔ اب انہیں دماغی استعداد بڑھانے کے لیے کسی بہت قوی نسخے کی ضرورت ہے۔ جن ڈاکٹر صاحب کا میں نے ذکر کیا ہے، اُن کا مخصوص شعبہ ADHD ہے۔ یہ بیماری منتشر خیالی یا کسی چیز پر توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کا فقدان کہلاتی ہے۔ Vyvanse وہ دوا ہے جو اس بیماری کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یکایک اس کمرے، جو ان افراد کی خوشگوار باتوں سے گھونج رہا تھا، میں سناٹا چھا گیا۔ اس خاموشی کی وجہ ایک تصویر تھی جس میں دو خون میں نہائے ہوئے لڑکے نظر آ رہے تھے۔ ایک غالباً دم توڑ رہا تھا جبکہ دوسرا بے بسی سے اُس کے قریب بیٹھا ہوا تھا۔ یہ تصویر نیویارک ٹائمز میں چھپی تھی اور اس وقت کافی ٹیبل پر پڑی تھی۔ اس تصویر پر وہاں جمع تمام مہمانوں کی نظر پڑی۔ ان سب نے بیک زبان ہو کر کہا ۔۔۔’’ پاکستان میں بے گناہ، معصوم اور عام افراد کا خون بہہ رہا ہے اور اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اگر کوئی اور ملک ہوتا تو اب تک اس کے حکمران اور مختلف اداروں کے سربراہان شہریوں کے تحفظ کی اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکامی پر مستعفی ہو چکے ہوتے۔ ان سربراہوں نے مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھایا تھا کہ وہ اپنے شہریوں کی زندگی، اُن کے عقائد اور مال کا تحفظ کریںگے۔ اتنی خونریزی کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، کسی کی نیند کا ایک پل حرام نہیںہوتا، کسی کی ایک وقت کی بھوک نہیں مرتی۔ اس ملک میں صرف غریب آدمی کا لہو ہی ارزاں اور بے وقعت ہے، باقی سب اتنے اعلیٰ ہیں کہ ایک لفظ بھی ان کے لیے قابل برداشت نہیں ہوتا۔ پوچھو ان رہنمائوں سے کہ یہ اپنے لیے اور اپنی آل اولاد کے لیے کیا کرتے ہیں، ان کے لیے کس کس اکائونٹ میں کتنا مال بھرا ہوا ہے اور عوام کا ان کو کتنا درد ہے؟ حکمرانوں اور افسروں کو چیک کر کے دیکھیں کہ یہ کیا ہیں اور جب ان کی حقیقت آپ پر آشکار ہو جائے تو جی بھر کے وہ مذکورہ دوائی کھالیں تاکہ آئندہ مغالطہ نہ ہو۔ اس کمرے میں سب کے جذبات بہت زیادہ مشتعل تھے لیکن وہ بے بسی، مایوسی اور غصے کے مارے بیٹھ گئے اور صاف نیلے آسمان تلے کھیلنے والے معصوم بچوں کی طرف دیکھنے لگے۔ ایک عورت نے کہا۔۔۔’’ان پیارے معصوم بچوںکی طرف دیکھو اور اس تصویر میں خون میں لتھڑے ہوئے بچوں کی کربناک حالت کو دیکھو۔ ان کے رہنمائوںکو رات کو نیند کیسے آتی ہے؟ کیا ان کے سینے میں دل نامی کوئی چیز ہے؟‘‘ تاہم، ہم جانتے ہیں کہ ان کے ضمیر کا بہترین اظہار مذمت کے چند رٹے رٹائے جملوںکے سوا کچھ نہیں ہوتا اور پھر ایک اور دن طلوع ہو جاتا ہے۔ اچانک وہاں موجود ڈاکٹر صاحب نے چلا کر کہا کہ جب لوگ ADHD کے مرض میں مبتلا ہوں تو ان کے دل سے احساسِ جرم جاتا رہتا ہے کیونکہ اس کے لیے گہری توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اس مرض میں مبتلا افراد کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے۔ پھر اُنھوں نے کہا۔۔۔’’آپ ان سے ان قاتلوں اور انتہا پسندوں، جنہیں آپ طالبان کہتے ہیں، کے خلاف لڑنے کی توقع کیسے کر سکتے ہیں جب ان کی قوت فیصلہ، ان کی توجہ، ان کی سوچ، ان کے احساسات کسی ایک نقطے پر مرکوز ہی نہ ہوتے ہوں؟ کسی بھی کام کے لیے توجہ کا ارتکاز درکار ہوتا ہے، ورنہ سب زیرو‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کی بات درست تھی۔ جب آپ ان رہنمائوںکے عمدہ لباسوں، سجی ہوئی کرسیوں، ان کے کمروں میں لگے ہوئے بیش قیمت فانوسوں پر نظر ڈالیں تو پھر ان کی منتشر خیالی کی وجہ بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔ عام حالات میں ان ڈاکٹر صاحب کی مشورہ فیس بہت زیادہ ہوتی ہے اور ان کا وقت بھی بہت قیمتی ہوتا ہے لیکن اس دن چونکہ ایک پارٹی میں موجود تھے اس لیے اس موقع پر سب کچھ فری تھا؛ چنانچہ اُنھوں نے ہمیں اس مرض کی علامات بتانا شروع کر دیں۔۔۔’’اس میں مبتلا افراد ایک کام پر توجہ نہیں دے سکتے ہیں۔ وہ کام کے دوران خوش یا طمانیت محسوس کرنے کی بجائے اکتا جاتے ہیں اور اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ کوئی نئی چیز نہیں سیکھ سکتے ہیں۔ جب ان سے بات کی جائے تو آسانی سے سن نہیں سکتے ہیں۔ جب ان کو معلومات فراہم کی جائیں تو ان کا تجزیہ کرتے ہوئے نتائج نکالنا ان کے بس میں نہیں ہوتا ہے‘‘۔ میں سوچ رہی تھی کہ ہمارے ملک کے اربابِ اختیار تو اس مرض میں بہت دیر سے مبتلا ہیں، ان کا علاج کرنے کے لیے کتنی دوا درکار ہو گی؟ گزشتہ پانچ سال میں زرداری صاحب نے اپنے حلیفوں کے کہنے پر ایک صوبے کا نام تبدیل کیا تھا۔ اب اس صوبے کی جیلیں ٹوٹ رہی ہیں اور اس کے حکمران اسے کرکٹ کی اصطلاحوں میں بیان کر رہے ہیں جیسے یہ کوئی موج میلہ ہو۔ چنانچہ عزیز قارئین، اپنے حکمرانوںکے لیے یہ اصطلاح یاد رکھیں۔۔۔ ADHD لیڈرز۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں