پاکستانی برفانی چیتا امریکا میں

سات سال پہلے میں نے ایک چیتے کے بچے کے بارے میں لکھا تھا جسے پاکستان سے لا کر نیویارک کے برونکس(Bronx) چڑیا گھر میں رکھا گیا تھا۔ اس بچے کی آمدکی خبر نے امریکا میں ہلچل مچا دی تھی۔ اب ایک مرتبہ پھر وہ خبروں میں آیا جب وہ ایک اور ننھے چیتے کا ’’باپ‘‘ بنا ۔ اس پاکستانی چیتے کے ہاں ننھے چیتے کی پیدائش کی خبر کسی اور نے نہیں بلکہ شہرت یافتہ اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے ان پر مسرت الفاظ میں دی: ’’اس موسمِ بہار میں برونکس کے چڑیا گھر میں پیدا ہونے والے پانچ ماہ کے برفانی چیتے کے سترہ پونڈ وزنی بچے کو نمائش کے لیے پیش کر دیا گیا۔ یہ بچہ پاکستان سے لائے گئے ایک نر چیتے کا پہلا بچہ ہے۔‘‘اخبار مزید اطلاع دیتا ہے کہ ابھی اس بچے کا نام نہیں رکھا گیا۔ اس بارے میں مزید یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس چیتے کے بچے کی پیدائش اسلام آباد اور واشنگٹن کوایک پیج (Page) پر لے آئی ہے اور ناقدین اسے بھی کرکٹ سفارت کاری سے مشابہ قرار دے رہے ہیں؛ چنانچہ اسے اب ’’ٹائیگر سفارت کاری ‘‘ کا نام دینا غلط نہ ہوگا۔ پاکستان میں امریکا کے سفیر مسٹر رچرڈجی اولسن نے ایک بیان میں کہاہے: ’’ہرچند کہ یہ بچہ برونکس چڑیا گھر میں ہے، ہم امید کر سکتے ہیں کہ اس کی امریکی سرزمین پر موجودگی دونوں ممالک اور ان کے عوام کے درمیان دو طرفہ تعاون اور تعلقات کو بڑھانے میں معاون ثابت ہو گی۔‘‘واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کے افسر ڈاکٹر اسد محمد خان نے اپنے بیان میں کہا: ’’ہمیں یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ پاکستان سے لایا گیا برفانی نر چیتا ایک بچے کا ’’باپ‘‘ بن گیا ہے۔ امید ہے‘ یہ دونوں ممالک کے درمیان گہری دوستی اور خیر سگالی کے جذبے کی علامت قرار پائے گا۔ ‘‘(اگر ایسا ہی ہے تو پھر حکومت ِ پاکستان کو اُسے Do moreکی ہدایت کرنی چاہیے۔) چیتے کی کہانی صرف کہانی نہیں، اس میں کئی ایک موڑ ہیں۔ امریکی ماہرین کی ایک ٹیم نے2006ء میں پاکستان کی نالتار وادی کا دورہ کیا۔ اس چیتے کے بچے کی والدہ اور دوسرے بہن بھائی ہلاک ہو چکے تھے۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کے پریس افسر نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ہم نے یہ بچہ برونکس چڑیا گھر کو دینے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ پاکستان کے پاس ایک ’’یتیم ‘‘ ہوجانے والے چیتے کے ننھے بچے کو پالنے کی سہولت اور مہارت موجود نہ تھی۔ یہ چیتے کے اسی بچے سے لیا گیا ایک فرضی انٹرویو ہے۔ میں توقع نہیں کررہی تھی کہ اس سفید فر اور سیاہ دھبوں والے برفانی چیتے سے جو حیرت زدہ نظروںسے ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا، انٹرویو کرنے میں کامیاب ہوجائوں گی لیکن امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا مناسب نہیں تھا اور پھر چیتے کا بچہ ’’گرگ زادہ ‘‘ نہیںہوتا۔وہ اتوار کی ایک روشن سہ پہر تھی اور میں اس کی تلاش میں برونکس میں سرگرداں تھی۔ میں اُس سے بہت سی باتیں پوچھنا چاہتی تھی ۔ میں اُس سے مذہب،رنگ، نسل، امیگریشن کے معاملات اور کسی وطن اور اس کے پرچم سے وفاداری نبھانے کے موضوع پر باتیں کرنا چاہتی تھی ۔ مجھے اُس سے پوچھنا تھا کہ کیا وہ اب بھی پاکستانی ہے یا امریکی بن چکا ہے؟ وہ امریکی فوج کی کارروائیوں کی حمایت کرے گا یا پاکستانی فوج کی؟اُس کا صدر مشرف ہے یا بش؟ برونکس جیسے بڑے چڑیا گھر میں ایک چیتے کا بچہ تلاش کرنا دشوار تھا لیکن آخر کار میں نے اُسے پاہی لیا۔میں نے اپنا ٹیپ ریکارڈر اور نوٹ بک نکالی اور انٹرویو لینے کے لیے تیار ہو گئی ۔ اُسے ایک شیشے کے کیبن میں رکھا گیا تھا۔ میں نے اُسے غور سے دیکھنے کے لیے اپنا چہرہ شیشے کے ساتھ لگایا ۔ مجھے یادآیا کہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں ویزے کے حصول کے لیے جانے والوں کواسی طرح شیشے کی کھڑکی سے اپنی شناخت کرانا پڑتی ہے کہ وہ کوئی دہشت گرد نہیں۔ مجھے مہمان چیتا شیشے کے پیچھے سے ایک سائے کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔جب میں نے اس تک رسائی حاصل کی تو مجھے قدرے مایوسی ہوئی کہ وہ ان سوالات کا جواب دینے میں تامل سے کام لے رہا تھا۔ پھر سمجھ میں آیا کہ وہ برونکس کے افسران کے سامنے زبان نہیں کھولنا چاہتا مبادا اُسے ’’انتہا پسند ‘‘ سمجھ کر گوانتاناموبے میں پھینک دیا جائے۔ بہرحال ، اُس کے رویے سے ایک بات کا اندازہ ہوتا تھا کہ وہ یہاں آکر خوش ہے اور اس کا یہاںسے بھاگ جانے کا کوئی ارداہ نہیں۔ چونکہ وہ امریکا میں اجنبی تھا، اس لیے اُس نے میرے زیادہ تر سوالات کے جواب میں خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا۔ مجھے اس کے رکھوالے نے بتایا کہ ابھی یہ امریکی ماحول سے مانوس نہیں ہوا، اس لیے اسے ستمبر کے آخر سے پہلے باہر کی فضا سے آشنا نہیںکیا جائے گا۔ میںنے اُس امریکی گارڈ سے پوچھا کہ کیا اسے یہاں کی مختلف ثقافت اور رہن سہن دیکھ کر دھچکا لگے گا؟اُس نے ہنستے ہوئے کہا کہ آپ اسے جومرضی کہہ لیں۔ میںنے آہ بھرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس چھوٹے بچے پر ترس آرہا ہے۔ یہ اس ماحول میں بالکل اجنبی ہے ۔ یہ اُس ملک سے آیا ہے جس کے بارے میںکچھ امریکی سمجھتے ہیںکہ وہاںسے بمبار آئیں گے اور امریکا کو تباہ کردیںگے۔ سابق امریکی سفیر ریان کروکر نے جب پاکستان سے اسے رخصت کیا تھا تو ٹی وی کیمروں کے سامنے اس نے اعلان کیا تھا کہ یہ چیتا بہت جلد اپنے ’’آبائی وطن‘ ‘ پاکستان واپس آجائے گا۔ اس کے پاس امریکا کا نیلا پاسپورٹ نہیں تھا بلکہ پاکستانی سبز پاسپورٹ اس کی گردن کے گرد بندھا ہوا تھا۔ امریکا جانے والے جہاز میںکودنے سے پہلے، چیتے کی تصاویر امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی کو مل چکی تھیں۔ عام مسافروں کی طرح اس چیتے کو بھی تلاشی کے عمل سے گزرنا پڑا۔ ممکن ہے کہ ایف بی آئی نے اس کی فون کالز بھی ٹیپ کرنے کی کوشش کی ہومبادا اس کی کسی دھاڑ کی ارتعاش القاعدہ کے لیے کوئی پیغام ہو۔ مجھے اس کے پاسپورٹ کے مندرجات کے بارے میں تجسس تھا۔ اس کی سفید جلد تھی جس پر سیاہ دھبے تھے… تو پھر اس کے مذہب کے خانے میں کیا لکھا گیا ہوگا؟سب سے اہم بات یہ تھی کہ کیا اسے دوران ِ پرواز ’’حلال گوشت ‘‘ دیاگیا ہو گا یا نہیں؟اور پھر پینے کے لیے کیا دیا گیا ہوگا؟ بہت سے مسلمان مسافروں کی طرح اس چیتے کو بھی نیویارک کے جے ایف کینیڈی ائیرپورٹ پر روکا گیا ہو گا۔ ذرا ٹھہریں، اس نے اس قسم کے ’’ثانوی سوالات‘‘ جن میںبرتھ سرٹیفکیٹ ، بنک گارنٹی اور امریکا میںکسی سے رابطہ نمبر شامل ہوتے ہیں کا جواب کیسے دیا ہوگا؟جب میں نے یہ سب باتیں اس سے پوچھیں تو وہ پریشان دکھائی دیا۔ اُس نے اپنا سبز پاسپورٹ مجھے شیشے کی کھڑکی سے دکھاتے ہوئے بتانے کی کوشش کی کہ اُس کے پاس پانچ سال کا سیاحتی ویزہ ہے۔ میرا خیال ہے‘ وہ چاہتا ہو گا کہ اُس کی ماں اور بہن بھائی تو ہلاک ہو چکے ہیں‘ اس کے دوسرے ’’رشتے داروں‘‘ کو امریکی ویزہ دے دیا جائے۔ پاکستانی چیتا تھا اس لیے یہ سوچ اس کے دل میں ضرور آئی ہوگی کہ اب وہ واپس نہیں جائے گا۔ میرا اُس سے ملاقات کا وقت ختم ہو چکا تھا، اس لیے میں اپنی خالی نوٹ بک اور ٹیپ ریکارڈر جس میں ایک لفظ بھی ریکارڈ نہیںہوا تھا، لے کر واپس آگئی۔واپس آکر مجھے یاد آیا کہ میں ’’گفتگو‘‘ میں اتنی کھو گئی تھی کہ اپنا کیمرہ بھی استعمال نہ کرسکی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں