میں صاحب ِ ایمان ہوں!

وہ لوگ جنہوںنے تحریک ِ طالبان پاکستان کے ترجمان کو سناہے‘ وہ جانتے ہیں کہ طالبان مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ وہ جمہوریت اور عام رسمی تعلیم کو اسلام کے خلاف سمجھتے ہیں ، چنانچہ ان کے نزدیک ہر وہ شخص جو جمہوری نظام کے لیے کوشاں ہے، واجب القتل ہے۔ شاہد اﷲ شاہد کا کہنا ہے ۔۔۔'' شریعت کے سوا کوئی نظام قابل ِ قبول نہیںہے۔‘‘ ایک مقامی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں اُنھوںنے سخت لہجہ اختیارکرتے ہوئے ہر اُس شخص کو دھمکی دی جو تحریک ِ طالبان کے ایجنڈے کی مخالفت کرتاہے۔ 
ہم سب اپنے دل،دماغ اور روح کی مرضی کے مطابق سوچنے کا حق رکھتے ہیں۔اپنی مرضی کا اسلام اٹھارہ کروڑ افراد پر مسلط کرنا اب ممکن نہیں۔ پاکستانیوں کی اکثریت مسلمان ہے، چنانچہ اُنہیں کسی کی طرف سے کسی سند کی ضرورت نہیں ہے ۔ درحقیقت پاکستان میں کبھی بھی عقیدہ ایک مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہاں افراد کو امن، تحفظ اور اشیائے ضروریات درکار ہیں۔ تحریک ِ طالبان کے ترجمان نے ملالہ کے بارے میں اپنی تحریک کے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔''وہ اسلامی عقائد پر تنقید کرتی ہے ۔ اگر ہمیں ایک موقع اور مل گیا تو ہم اسے ہلاک کردیں گے اور ہمیں اس فعل پر فخر ہوگا۔ اسلام عورتوںکو ہلاک کرنے سے منع کرتا ہے لیکن جو عورتیں ہمارے عقیدے کے خلاف جنگ میں کافروں کی مدد کرتی ہیں ، واجب القتل ہیں۔ ‘‘
جس دور میں کچھ پاکستانی ذہنی اعتبار سے قرون ِ وسطیٰ میں رہتے ہیں، مغر ب ترقی کی شاہراہ پر گامز ن ہے ۔ اُنھوںنے وہ ذرات دریافت کرلیے ہیں جو God Particle کہلاتے ہیں۔ درحقیقت ان ذرات کو گزشتہ سال دریافت کر لیا گیا تھا۔ ان کی اہمیت یہ ہے کہ ان ذرات کو ''تخلیق ‘‘ کے عمل کو سائنسی انداز میں سمجھنے کے لیے ایک گمشدہ کڑی قرار دیا گیا تھا لیکن اب یہ کڑی ملتی دکھائی دیتی ہے۔ ان کو دریافت کرنے کے لیے سات ہزار سائنسدانوںنے دوسال تک کام کیا اور اس پر دس بلین ڈالراخراجات ہوئے ۔ یہ تجربات فرانس اور سوئٹزرلینڈ کے سرحدی علاقے میں زیر ِ زمین مقام پر کئے گئے۔ آخر کار سائنسدان اس توانائی کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے جو کائنات میں ہر جگہ موجود ہے۔ توانائی کا اس طرح کا ثبوت اس سے پہلے کبھی نہیں ملا تھا۔ ان کے بارے میں تفصیل کسی اور کالم میں بیان کروں گی۔ 
جن ذرات کو God Particles کانام دیا گیا ہے، وہ دراصل Higgs Boson ہیں۔ ان کا نام دو سائنسدانوں کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ان میں سے ایک ایڈن برگ یونیورسٹی کے Peter Higgs اور دوسرے ایک بھارتی ریاضی دان ستندرا ناتھ بوس ہیں۔ ان دونوں نے 1964ء میں ان پراسرار ذرات کی تلاش شروع کی۔ ذرا ٹھہریں، شاید آپ کو ہمارے سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام بھول چکے ہیں۔ Sebastian Abbot of Associated Press کے مطابق ۔۔۔'' پاکستان کے واحد نوبل انعام یافتہ سائنسدان، ڈاکٹر عبدالسلام کے اہم کام کی وجہ سے God Particles کی دریافت ممکن ہوسکی۔ تاہم اس عظیم سائنسدان کو ان کے اپنے وطن میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ نصابی کتب سے ان کا نام مٹا دیا گیا ہے۔ ‘‘ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے ''اے پی‘‘ کو بتایا۔۔۔''جس طریقے سے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ پاکستان میں سلوک کیا گیا ، وہ انتہائی افسوس ناک امر ہے۔ انہیں پاکستان میں قدم رکھنے کی اجازت بھی نہ دی گئی۔ اگر وہ آتے تو شاید کوئی اُنہیں قتل کردیتا۔‘‘کیا ہم اب بھی سائنس کو عقائد سے الگ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ؟
چلیں ماضی کو بھول جائیں اور حال کو یاد رکھیں۔ اب یہ جاننے کا وقت آگیا ہے کہ جس شخص نے God Particles کی دریافت میں اہم کردار ادا کیا، اُس کا تعلق ہمارے ملک سے ہے۔ وہ نوبل انعام یافتہ پاکستانی ہے۔ ہمارے ارباب ِ اختیار کو سینہ تان کر دنیا کو بتانا چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب ان کے ہم وطن پاکستانی تھے۔ تاہم ہمارے رہنمائوں کو سائنس اور اس میں ہونے والی پیش رفت سے کوئی سروکار نہیں۔ اُنہیں یورپ یا امریکہ میں جائیداد خریدنے یا سوئس بنکوں میں بھاری بھرکم اکائونٹس جمع کرنے میں تو دلچسپی ہو سکتی ہے لیکن ڈاکٹر عبدالسلام اور ان کے کام کو یاد کرنا ان کی ترجیح نہیںہے ۔ ہو سکتا ہے ان میں سے بہت سوںنے ڈاکٹر صاحب کا نام بھی نہ سنا ہو۔ جب ہم ملک میں پھیلی ہوئی تنگ نظری اور انتہاپسندی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس پر مطلق حیر ت نہیںہوتی کہ ہمارے سیاست دانوں کی ترجیح سائنسی ترقی کیوں نہیں ہے یا یہاں ڈاکٹر صاحب کا نام کیوں نہیں لیا جا سکتا؟
God Particles نامی ذرات توانائی خارج کرتے ہیں۔ زندگی کو وجود میں آنے اور اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور زندگی یہ توانائی الہامی ذرائع سے حاصل کرتی ہے۔ اسے بے کار کاموں میں ضائع کردینا گناہ کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے۔ جب ہماری نگاہ الہامی دنیا کے تقاضوں پر جاتی ہے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ انسانوںسے ایک دوسرے سے محبت، ہمدردی، ایمانداری اور انسانیت کے سلوک کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے منافقت اور دکھاوے سے اجتناب کرنا ہوتا ہے۔ 
مذہب کا بنیادی مقصد انسانوں کو اس دنیا میں بہتر زندگی گزارنے کے قابل بنانا ہوتا ہے۔ اسے سوچنے سمجھنے کی دعوت دی جاتی ہے تاکہ وہ کائنات اور اس کی حقیقتوں پر غور کرے۔ کائنات کے حقائق سے لا تعلق ہوکر مذہب کاحق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک طالبان کا تعلق ہے تو وہ ہر سائنسی حقیقت کو ''مغربی ‘‘ قرار دے کر رد کردیتے ہیں ۔ اُن کا خیال ہے کہ کچھ عقائد کا زبان سے اقرار ہی مکمل ایمان ہے، لیکن جب ہم حقائق کی دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ اتنے عجائب سے بھری ہوئی ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ مذہب اُسے اس سے لاتعلق رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔ 
جہاں تک ڈاکٹر صاحب کی دریافت کا تعلق ہے تو ہم اُنہیں اپنائیں یا نہیں، آئندہ سائنسی، خا ص طور فزکس کے میدان میں ، ہونے والی پیش رفت اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ایجادات دنیا کو تبدیل کرنے والی ہیں۔ کیا ہم ا س وقت کے لیے تیار ہیں جب God Particle کی دریافت کی وجہ سے دقیانوسی نظریات تبدیل ہونے والے ہیں؟ کیا حقائق سے آنکھیں چرانے سے ہم محفوظ ہوجائیں گے؟ کیاگزشتہ کئی صدیوںسے ہمارا رویہ یہ نہیں رہا کہ ہم ہر نئی دریافت اور ایجاد کو رد کردیتے ہیں ۔۔۔ جیسے بجلی، ٹی وی، ریلوے، بناسپتی گھی، چھاپہ خانہ، وغیرہ... اور ایسا کرتے ہوئے ہم بیرونی دنیا کو موقع دیتے ہیں کہ وہ ہمارے عقائد کا مذاق اُڑائے لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہم نہ صرف ان ایجادات سے استفادہ کرنے لگتے ہیں بلکہ اُنہیں ''اپنوں ‘‘ کی تحقیق کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ افسوس، دنیا کی یادداشت اتنی کچی نہیں‘ جتنی ہم سمجھتے ہیں۔ اس وقت ہمارے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم عقائد کا اخلاقی پہلو اجاگر کریں اور سائنسی علوم کو اس سے منسلک کرنے کی کوشش نہ کریں۔ سائنسی حقائق تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی بنیاد مشاہدے ، تجربات اور مفروضوںپر ہوتی ہے جبکہ مذہب اٹل عقائد کا حامل ہوتا ہے۔ یہ دونوں دھارے متوازی خطو ط پر بہہ سکتے ہیں لیکن انہیں گڈمڈ کرنے کی کوشش درست عمل نہیںہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں