پاکستان کے اَن گنت نیلسن منڈیلا

جب بھی پاکستان میں کوئی خود کو نیلسن منڈیلا کے ہم پلہ قرار دیتا ہے تو اس کے اپنے لوگ اُس کی حماقت کا جواب طنزیہ ہنسی سے دیتے ہیں۔ چونکہ خود کو اُس عظیم افریقی رہنما کے مساوی قرار دینے والے اپنے کیے کا ''پھل‘‘ فوراً ہی پالیتے ہیں، اس لیے ان کا نام لکھ کر میں ان کو مزید شرمند ہ نہیںکرنا چاہتی۔ تاہم ہمارے ہاں نیلسن منڈیلا منظر ِ عام پر آنے سے باز نہیں آتے۔ پاکستان میں ہر دور میں، ہرسیاسی جماعت میںاور ہر حکومت میں ایسے فولاد صفت افراد واقعی موجود ہوتے ہیںجو مصائب کا سامناکرتے ہیں لیکن کیا اُنہیں نیلسن منڈیلا ہونے کا دعویٰ زیب دیتا ہے؟
اصل نیلسن منڈیلا اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن وہ اپنے پیچھے ایک ورثہ چھوڑ کر جا رہے ہیں کہ اس دنیا میں رہنے والے تمام انسان برابر ہیں۔ چنانچہ آج جب وہ عظیم انسان اس دنیا سے مساوات کا علم بلند کرتے ہوئے رخصت ہو چکا ہے اور دنیا بھر کے لوگ اسے خراج ِ عقیدت پیش کر رہے ہیں تو پاکستانی رہنمائوں کے پا س بھی ایک موقع ہے۔۔۔ وہ سچے دل سے عہد کر لیں کہ وہ آئندہ کبھی بھی خود کو پاکستانی نیلسن منڈیلا نہیں کہیں گے (خاص طور پر جب وہ بدعنوانی اور لوٹ مار کے الزام میں '' اندر‘‘ رہے ہوں)۔ درحقیقت اس وقت دنیا کا کوئی انسان بھی ان کا ہم پلہ نہیں ہے۔ اُنھوںنے طویل عرصہ جدوجہدکی، قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور انسانوںکو نسلی امتیاز کے جہنم سے آزاد کرایا۔ 
اپنی زندگی کو آزادی اور مساوات کی جدوجہد کے لیے وقف کرتے ہوئے منڈیلا اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ۔۔۔ ''تمام انسان آزاد پیدا کیے گئے ہیں اس لیے ان کا حق ہے کہ وہ نہ صرف غلامی کی زنجیروںسے آزاد ہوں بلکہ ایسی زندگی بسر کریں جس کی بنیاد دوسروں کے حقوق کے احترام پر ہو۔‘‘
ایک لمحے کے لیے ذرا سوچیں کہ کیا پاکستان کا کوئی رہنما، بابائے قوم کے سوا، اس قابل ہے کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے یہ دعویٰ کر سکے کہ اُس نے بھی پاکستان کے لوگوںکو بھوک، غربت اور خوف سے رہائی دلانے کے کچھ کیا ہے؟ یقیناً دُور دُور تک ایسا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ گیارہ سال پہلے میںنے ایک پاکستانی، عمر نعمان، جو یو این میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، کا انٹرویو کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر اُس وقت کے صدر ِ پاکستان ،جنرل مشرف، پاکستان کی معیشت کو درست سمت میں گامزن کر سکیں تو وہ بھی نوبل انعام کے حقدار ہوںگے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کراچی اور کشمیر کے مسئلے کا حل ضروری ہے۔ ان کے بغیر معاشی ترقی کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ عمر نعمان نے یہ دیکھنے کے لیے کہ عالمی سطح پر یہ بات کس طرح سمجھی یا سنی جاتی ہے، ہر فورم پر ان خیالات کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ اُنہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ امریکہ اور دیگر ممالک میں اُن کی بات کو توجہ سے سنا گیا ہے۔ پھر اُنھوں نے دنیا بھر کے سرکاری افسروں، قانون سازوں، این جی اوز کے نمائندوں اور بااثر اور سوچ سمجھ رکھنے والے افراد سے بات کی تو اُنہیں بہت مثبت رد عمل ملا۔ اُنھوںنے کہا۔۔۔'' آج جنر ل مشرف کے پاس اہم فیصلے کرنے اور ایسا کرتے ہوئے، تاریخ رقم کرنے کا وقت ہے۔ پرویز مشرف بھی اُسی طرح بھارت مخالف ہیں جس طرح صدر نکسن کمیونسٹ مخالف تھے لیکن اُنھوںنے روس کے ساتھ معاہدہ کیا، چنانچہ مشرف بھی بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا سکتے ہیں۔ اسی طرح مشرف ڈی کلرک(de Klerk) کی مثال بھی سامنے رکھ سکتے ہیں۔ وہ نسل پرستی کے پرزور حامی تھے لیکن آخر کار اُنھوں نے نیلسن منڈیلا کے ساتھ مل کر جنوبی افریقہ سے نسلی امتیاز کا خاتمہ کیا‘‘۔ صد افسوس، جنرل مشرف اپنے ہاتھ مضبوط بنانے کے بعد (یا بنانے کے لیے) پٹڑی سے اتر گئے۔ زیادہ سے زیادہ دیر تک اقتدار میں رہنا، نہ کہ عوام کے مسائل حل کرنا، ان کی پہلی اور آخری ترجیح بن گیا۔۔۔ یہاں تک کہ ان کا لہرایا گیا فولادی مکہ ملک کا سب سے بڑا لطیفہ بن گیا۔ وہ حقائق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ 
عمرنعمان کو امید تھی کہ جنرل مشرف کی رہنمائی میں پاکستان اکیسویں صدی میں ایک جدید اور ترقی یافتہ ملک بن سکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔۔۔'' مشرف ایک پرجوش اور عملی انسان ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ تصورات بھی رکھتے ہیں۔ جب نواز شریف کے دور میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان آئے تو اُس موقع پر ہونے والا احتجاج برائے نام تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے عام لوگ بھی بھارت کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں۔ اس عوامی موڈ کو سامنے رکھتے ہوئے مشرف کے پاس تاریخ ساز فیصلے کرنے کا موقع تھا۔‘‘یہ بات یادداشت کا حصہ ہے کہ جس شخص نے پاکستان میں روشن خیالی (Enlightened Moderation) کی بات کی وہ کوئی اور نہیں بلکہ جنرل مشرف ہی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگ مذہبی عقائد کے بارے میں میانہ روی اختیارکرتے ہوئے انتہائی نظریات سے اجتناب کریں۔ اُنھوںنے 2002ء میں ملائیشیا میں ہونے والے او آئی سی کے اجلاس میں کہا ۔۔۔'' تمام اسلامی دنیا کو انتہا پسندی اور جنگجو نظریات کو ترک کرتے ہوئے سماجی بہبود اور معاشرتی ترقی کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ مغربی دنیا اور امریکہ کو چاہیے کہ ان کاموں میں اسلامی دنیا کی معاونت کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے سیاسی تنازعات کا بھی حل نکلنا چاہیے۔‘‘
افسوس، یہ سب دکھاوا تھا اور اس کا مقصد امریکہ سے مزید حمایت اور رقم حاصل کرنا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ مشرف، جو روشن خیالی کا پرچم لہرانے چلے تھے، کے دور میں ہی انتہا پسندی، تنگ نظری اور دہشت گردی کا جن بوتل سے باہر آیا۔ اس سے پہلے ہم خود کش حملوں کے بارے میں نہیں جانتے تھے لیکن پھر پاکستان میں ان کا ''دور دورہ‘‘ ہوگیا اور بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہنے لگا۔ یہ مشرف دور ہی تھا جب لوڈشیڈنگ نے ایسی بھیانک شکل اختیار کر لی جس کے مہیب سائے ہنوز باقی ہیں۔ افسوس، آج مشرف عدالت کے کٹہرے میں ہیں اور پاکستان سے باہر نہیں جا سکتے۔ ان پر ہمیشہ مقدمات چلتے رہیں گے۔ 
اس کے بعد مزید پاکستانی نیلسن منڈیلا ۔۔۔ بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور نواز شریف۔۔۔کی تصویر آنکھوںکے سامنے ابھرتی ہے۔ کیا ان میںسے کوئی رہنما اتنا پر خلوص تھا ؟ یا ہے ؟ کہ وہ پاکستان کو دنیا کے عظیم ممالک کی صف میں دیکھنا چاہتا ہے؟ آصف زرداری کا خیال ہے کہ چونکہ اُنھوں نے طویل وقت جیل میں گزارا ہے اس لیے وہ بجا طور پر پاکستان کے نیلسن منڈیلا کہلانے کے حقدار ہیں۔ چنانچہ پاکستانیوں پر واجب ہے کہ پانچ سال تک، جب وہ صدر کے عہدے پر فائز رہے، ان کی طرف سے کی گئی ہر بدعنوانی اور بدانتظامی کو خندہ پیشانی سے برداشت کریں۔ ان کی طرف سے دنیا بھر میں خریدی گئی جائیداد پر کوئی پوچھ گچھ نہ کی جائے۔ دوسری طرف افریقی نیلسن منڈیلا اتنے چالاک نہ تھے۔ اُنھوںنے نہ تو کوئی محل خریدا، نہ دنیاکے مہنگے ترین شہروں میں ولاز بنائے، نہ اربوں روپے مالیت کے پولو گھوڑے خریدے (پتہ نہیں کیسے رہنما تھے کہ اُنہیں پولو اور گالف کا ذوق ہی نہ تھا؟)، نہ کبھی جنوبی افریقہ سے باہر کہیں رہنے کا سوچا اور نہ ہی اُنھوں نے جلاوطنی، جو ہمارے رہنمائوں کا محبوب مشغلہ ہے، کی لذت اٹھائی۔ شریف برادران سے پوچھیں کہ اُنھوں نے پاکستان کے لیے کیا قربانی دی ہے؟ بدقسمتی سے وہ پھر سے اقتدار میں ہیں اور وہی کچھ کر رہے ہیں جس فن میں انہیں مہارت حاصل ہے۔ آج بھی پاکستان میں اقربا پروری کا دور ہے۔ بہت جلد آپ ہائیڈ پارک اور مے فیئر جیسے بہت سے اعلیٰ درجے کے مقامات پر بنے ہوئے عالی شان مکانات دیکھیں گے۔ کون کہہ سکتا ہے یہ پاکستان ''بیرونی دنیا‘‘ میں ترقی نہیں کر رہا؟ جہاں تک نیلسن منڈیلا کا تعلق ہے تو وہ تمام تر عظمت کے باوجود اُن ''صفات‘‘ سے محروم تھے جو پاکستان رہنمائوں کو نصیب ہوتی ہیں۔۔۔ نصیب اپنا اپنا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں