نجات کی تلاش

گزشتہ ہفتے میری ملاقات ہڈیوں کے امراض کے ماہرڈاکٹر فرمان رائو سے ہوئی۔انہیں پاکستان میں مختلف بیماریوں خاص طور پر ہڈیوں کے امراض کے بارے میں بہت تشویش ہے۔ عموماًدیکھا گیا ہے کہ جو لوگ دیارِ غیر میں رہتے ہیں، وہاں کے افراد کی صحت مند زندگی کامشاہدہ کرکے اپنے ہم وطنوں کی حالت پر دکھ محسوس کرتے ہیں ۔ڈاکٹر رائو نے بتایا کہ پاکستان میں ہڈیوں کے امراض میں ہوشربااضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ ناقص غذا، کثرتِ آبادی ، کزن میرج اور تنگ و تاریک ماحول ہے۔ اگرچہ پاکستان دودھ پیداکرنے والے دنیاکے پہلے دس ممالک میں شامل ہوتا ہے، لیکن ملک میں خالص دودھ کا ملنا محال ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اکثر بچے ہڈیوں کے امراض کا شکار ہیں ؛ تاہم اس میں ڈینگی جیسی ایمرجنسی پیدا نہیںہوتی اس لیے یہ ہماری اجتماعی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ 
ہم سب نجات کے متلاشی ہیں۔ مذہب، سیاست، معیشت اور معاشرت کے حوالے سے ہم نجات چاہتے ہیں۔سب کی زبان پر ہمہ وقت مغفرت کے کلمات ہوتے ہیں جو اچھی بات ہے کیونکہ ہمیں اپنے گناہوںپر خالقِ کائنات سے مغفرت طلب کرتے رہنا چاہیے اور یقین رکھنا چاہیے کہ وہ معاف کردے گا؛ تاہم ہمارا مغفرت کا تصور اس سے آگے کچھ نہیں، ہم اخروی زندگی میں نجات کے قائل ہیں لیکن اس دنیا میں قانون کو، جو ہمارے ہاں برائے نام موجود ہے، چکما دینے میںکوئی ہرج نہیں سمجھتے ۔ میںبہت سے نیک نام افراد کو جانتی ہوں جوگناہ و ثواب کے بارے میں بہت محتاط ہیں اور ہمہ وقت گناہوں کے خوف سے لرزتے رہتے ہیں ، لیکن جب اُن سے ریاست کے محصولات، واجبات یا ان کے فرائض کی انجام دہی کی بات کی جائے تووہ براسا منہ بنا کرایسا جواب دیتے ہیں کہ آپ کو وہاںسے کھسکتے ہی بنتی ہے ۔
ہمارے ہاں ایسا رویہ کیوں ہے؟ ہم ریاست کے قانون کو تسلیم کیوں نہیںکرتے ہیں؟ کیا پاکستان صرف کچھ عبادات کے لیے ہی بنایا گیا تھا؟اگر ایساہی ہے تو دنیا کا کوئی ملک بھی ہمیں عبادت کرنے سے نہیںروکتا۔ہم نے یہ خطہ اس لیے حاصل کیا تھا کہ ہم دنیا کو بتا سکیں کہ نوآبادیاتی اور اس سے پہلے بادشاہت کے دور میں برِ صغیر کے مسلمانوںکو دباکررکھا گیا تھا، ہم اس سر زمین پر ایک اچھی طرزِ معاشرت کے ساتھ دنیا کی ایک اچھی قوم کا نمونہ پیش کریں گے ۔ پاکستان کے قیام کے بعد معاملات بگاڑ کی طرف بڑھنا شروع ہوگئے۔ ہم نے اس کے قیام کی ''اصل وجہ ‘‘ دریافت کرلی اور افسوس کہ بہت بعد میںکی ۔ معاملہ یہ ہوا کہ پاکستان کا آئین جو دراصل افراد کی طرف سے مل جل کر رہنے کے قواعدوضوابط اور افراد کے ریاست کے ساتھ تعلق کے اصولوں پر مشتمل ہوتا ہے، ہمیں غیر اسلامی دکھائی دینا شروع ہوگیا۔کیا ہم آج ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے یا ٹیکس نہ دینے کو بھی گناہ سمجھتے ہیں یا اس پر کبھی نادم ہوئے ہیں؟ مثال کے طور پر ایک دودھ فروش پورا مہینہ ملاوٹ کرتا ہے لیکن چند مخصوص مواقع پرکچھ رسومات ادا کرکے وہ سمجھتا ہے کہ اس کے تمام گناہوںکا کفارہ اداہوگیا، اسے ریاست کے قانون کا نہ کوئی ڈر ہے اور نہ پروا۔ 
جہاں تک گناہ کا تعلق ہے،یہ معاملہ بندے اورخدا کے درمیان ہے، اس لیے اس پر بات نہیںکی جاسکتی، لیکن جہاں تک جرم کا تعلق ہے، یہ یقیناً انسانوںکا معاملہ ہے اور اس کی پوچھ گچھ کے پیمانے بھی انسانوںنے ہی طے کرنے ہیں۔اگر شیر فروش کو یقین ہو کہ کچھ رسومات کی انجام دہی اُسے سزا سے نہیں بچا سکتی اوروہ جتنا بھی نیک ہو، ریاستی قانون اُسے گرفت میںلے لے گا تووہ نیک ہونے کے ساتھ ساتھ اچھا شہری بھی بنے گا۔شیرفروش کی تو ایک مثال ہے، ورنہ زندگی کے ہر شعبے میں ہم ایسے مسائل کا شکار ہیں کہ گناہ اور جرم کے درمیان فرق کرتے ہوئے ہم گناہ سے بچ جاتے ہیں لیکن جرم کرنے میںکوئی ہرج محسوس نہیں کرتے ۔ 
ڈاکٹر فرمان کا کہنا ہے، والدین دیکھیں کہ ان کے بچے دن میں کتنا وقت سورج کے سامنے خودکو ایکسپوزکرتے ہیں؟ میراخیال ہے کہ شہروں میں بطور خاص ہفتوں تک اس کی نوبت نہیںآتی ۔ پاکستان ایک گرم ملک ہے اور ہم سورج سے بچنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام بھی بچوںکو نہایت کامیابی سے سورج کی دھوپ سے بچاکررکھتا ہے۔ ایک عام بچہ صبح سات بچے سکول جاتا ہے، وہ واپس آکر کہیں ٹیوشن پڑھنے چلاجاتا ہے ،باقی کچھ وقت ٹی وی یا کمپیوٹر کے سامنے بسرہوجاتا ہے۔ اس صورت حال میں اگر ہماری نئی نسل ذہنی طور پرکند اور چڑچڑی ہے تو اس میں ان کا قصور نہیں، انہیں وٹامن ڈی کی کمی نے ایسا بنا دیا ہے۔ ان کی ہڈیوںمیں کیلشیم کی کمی ان کے لیے خوفناک مسائل پیدا کررہی ہے۔ جب ان معروضات پر نظر جائے تو مذہب کا حکم واضح ہے کہ ''جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اشیائے خور ونوش بنانے اور فروخت کرنے والوں کے سامنے کوئی کڑا قانون ہونا چاہیے جس کی سزاکا ڈر اُنہیں قوم کو معذور بنانے سے روک سکے۔ 
کچھ عرصہ پہلے نامورکالم نویس اردشیر کائوس جی عوامی فلاح کے لیے مختص اراضی پر لینڈ مافیا کے قبضے کے خلاف جہادکیا کرتے تھے، لیکن ان کے انتقال کے بعد یہ باب بندہوگیا۔ آج ہمارا میڈیا،جس کا میں بھی حصہ ہوں، بچوںکے کھیل کود،پارک، تفریح گاہوں اور گرین بیلٹس کو قومی زندگی کا حصہ نہیں سمجھتا۔کچھ عرصہ پہلے تک کراچی اور سندھ میں زمین پر قبضوں کی بات کی جاتی تھی ۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے صحافیوں نے لاہور کی کینال روڈ سے درخت کاٹنے کے خلاف بہت سے کالم لکھے تھے۔لیکن ہمارا میڈیا آلودگی، ملاوٹ اور کثرتِ آبادی پر فوکس کیوں نہیںکرتا؟ سیاست سے اس کی جان کون چھڑائے گا؟ کچھ عرصہ پہلے تک کہا جاتا تھا کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا ہنوزکم عمر ہے ، عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ میچور ہوجائے گا،لیکن ابھی تک اس کے میچور ہونے کے آثار ''آن ائیر ‘‘ نہیں ہوئے ۔ 
ہمارے موضوعات ، وہ میڈیا میں زیربحث ہوں یا تعلیمی اداروں اور نجی زندگی میں، سیاست کاحصہ اتناہی ہونا چاہیے جتنا اس کی ضرورت ہے۔میرے گزشتہ کالم کے جواب میں کچھ قارئین نے میل بھیجیں کہ پاکستانی معاشرے کو انقلاب کا انتظار ہے اور یہ اس کے بغیر درست نہیںہوگا۔کچھ دوستوں نے کہا میں یہ جو کہتی ہوںکہ کتب بینی کا ذوق معاملات کو درست کرسکتا ہے، وہ درست علاج نہیں۔ عرض ہے کہ پاکستان انقلابی تبدیلیوںکے لیے نہیںبنا، یہاں بگاڑ آہستہ آہستہ نمودار ہوتا ہے، بہتری بھی آہستہ آہستہ آئے گی۔ ہمیں اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ تبدیلی ضرور آئے گی۔ چودھری اسلم، اعتزاز حسن اور ملالہ تبدیلی کی علامت ہیں جو پاکستانی معاشرہ میں مزاحمت کی استعداد کی نمائندگی کرتی ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں