امریکہ میں تارکین وطن کی ترقی

جس دوران پاکستان قدیم اور دقیانوسی سوچ رکھنے والے طالبان، جو 9/11 سے حالت جنگ میں ہیں، سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے، آئیے دیکھیں کہ باقی دنیا، خاص طور پر امریکہ، میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ اگر نظر امریکی میڈیا پر ہے تو آپ کو احساس ہو گا کہ اس ملک کا معاشرہ تیزی سے پرانی اقدار سے جان چھڑا کر نئی اور آزاد دنیا میں قدم رکھ رہا ہے۔ آج کل امریکی میڈیا کا فوکس ہم جنس پرستوں کی شادی پر ہے اور اس موضوع پر بات کرنے میں وہ ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ بہت سی ریاستیں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے پر غور کر رہی ہیں۔ یہ اندازہ بھی لگایا جا رہا ہے کہ یہ رجحان امریکی معاشرے کو کہاں تک لے جائے گا؟ اور تو اور، پوپ فرانسس نے بھی اس موضوع پر کہ دیا۔۔۔''میں کسی کی جانچ کرنے والا کون ہوتا ہوں؟‘‘ ذرا تصور کریں کہ دنیا کے عظیم ترین مذاہب میں سے ایک کا رہنما کہہ رہا ہے کہ ہم جنس پرست شادی کر سکتے ہیں اور اُنہیں اس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں۔ اس سے یہ بات بڑے آرام سے سمجھی جا سکتی ہے مغربی دنیا کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھائے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے جرمنی میں ایک ایوارڈ کی تقریب کے آغاز میں ہونے والا ایک مشہور جوڑے کا بھڑکیلا ڈانس بھی دیکھا ہو گا۔ یقیناً مغربی معاشرے کی بہت سے باتیں ہم ایشیائی باشندے ہضم نہیں کر سکتے ہیں، اس لیے اس موضو ع کو رہنے دیں۔
اگر ہم امریکی معاشرے کے مثبت پہلو پر نظر ڈالیں تو احساس ہو گا کہ اس کی سب سے قابل تعریف بات اس میں رہنے والی مختلف قوموں کا ایک معاشرتی دھارے میں یکجا و یک جان ہونا ہے۔ درحقیقت اس میں آباد مختلف اقوام کا ادغام اس معاشرے کی قوت کا باعث ہے۔ آج کے امریکی معاشرے میں بھارتی، چینی، لبنانی اور ایرانی خاصا پیسہ کما رہے ہیں‘ لیکن پاکستانی نژاد اس صف میں دکھائی نہیں دیتے۔ اگر امریکہ میں رہنے والا ایک پاکستانی خاندان سالانہ پچاس ہزار ڈالر کماتا ہے تو بھارتی خاندان نوے ہزار تک کما لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ میں مقیم بھارتیوں کی اوسط سالانہ آمدنی اپنے ''پاکستانی ہم منصبوں‘‘ سے کم و بیش دگنی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی اس معاشرے میں رہتے ہوئے بھی اس سے نظریاتی اختلاف رکھتے ہیں۔ دراصل وہ گریز کا پہلو تلاش کرتے ہیں؛ چنانچہ اسی کشمکش میں ان کی توانائی ختم ہو جاتی ہے۔ 
بھارت اور چین سے امریکہ میں آنے والے تارکین وطن روزگار فراہم کرنے والے ذرائع سے آتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تمام لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ ان میں سے بہت سے غریب اور کم تعلیم یافتہ افراد بھی ہوتے ہیں، لیکن اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ چینیوں، کوریائی اور ویت نامی تارکین وطن میں آگے بڑھنے کی صلاحیتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک حالیہ کالم کے مطابق امریکہ میں کامیاب ہونے والے تارکین وطن تین خوابیوں کے حامل ہوتے ہیں: ''پہلی خوبی احساس برتری ہے۔ اس کا مطلب منفی رویہ نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہے۔ دوسری صلاحیت، اس پہلی صلاحیت کے برعکس، عدم تحفظ کا احساس ہے کہ جو کچھ آپ نے کمایا یا حاصل کیا، وہ کافی نہیں۔ تیسری صفت آگے بڑھنے کا جذبہ اور خواہشات پر کنٹرول ہے‘‘۔
احساس برتری سے کیا مراد ہے؟ امریکہ میں مقیم تارکین وطن کا ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ اس کی حالت اپنے آبائواجداد سے بہتر ہے۔ یہی احساس انہیں زیادہ محنتی‘ منظم اور حوصلہ مند بناتے ہوئے ان میں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ بظاہر بیان کی گئی دوسری خوبی پہلی خوبی سے متضاد دکھائی دیتی ہے لیکن یہ کم مائیگی کا احساس بھی ضروری ہے کیونکہ اپنے حالات سے مطمئن ہو جائیں تو آپ پیش قدمی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ امریکہ میں مقیم ہونے والے غیرملکی افراد اور ان کی اولادوں کو احساس ہے کہ وہ ایک ڈھلوان پر ہیں۔ جہاں یہ اوپر جانے کا موقع مہیا کرتی ہے، وہیں پھسلنے کے خدشات بھی موجود ہیں۔ دراصل وہاں مسابقت کی دوڑ اتنی زیادہ ہے کوئی بھی خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا۔ کامیابی کے تیسری شرط شاید سب سے زیادہ اہم ہے۔ خواہشات کو کنٹرول کیے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اُس مذکورہ کالم کے مطابق آپ حال کی خواہشات کا گلا گھونٹے بغیر مستقبل کی تعمیر نہیں کر سکتے۔ 
امریکی معاشرے میں ایک اور دلچسپ حقیقت نائیجیریا کے باشندے ہیں جو اس معاشرے کی سیاہ فام آبادی کا بمشکل ایک فیصد ہیں، لیکن 2013ء میں ھارورڈ بزنس سکول میں تعلیم حاصل کرنے والے سیاہ فام طلبہ میں سے ایک چوتھائی نائیجیریا نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ امریکہ میں مقیم نائیجیریا کے باشندوں میں سے ایک چوتھائی گریجوایٹس ہیں یا کسی پیشہ ور ڈگری کے حامل ہیں۔ اسی طرح کیوبا سے تعلق رکھنے والے باشندوں، جن کی تعداد بہت کم ہے اور وہ زیادہ تر میامی میں رہتے ہیں، نے بے حد غربت اور تکلیف دہ حالات کا سامنا کیا ہے۔ اب کیوبا سے تعلق رکھنے والے بہت سے تارکین وطن کی اولاد کی آمدنی سفید فام باشندوں سے زیادہ ہے۔ کوئی تعجب نہیں اگر کیوبا سے تعلق رکھنے والا کوئی امریکی کسی دن وائٹ ہائوس کا مقیم بن جائے۔ 
یہ صرف امریکہ ہی ہے جہاں غریب پس منظر رکھنے والے افراد بھی ترقی کر سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُنہیں نسلی امتیاز کا سامنا نہیںکرنا پڑتا اور ایسے حالات میسر آتے ہیں‘ جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق محنت کرتے ہوئے مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ پاکستان میں کسی غریب ملازم کا بیٹا کسی دن وزیر اعظم یا صدر بن جائے؟ سیاسی عہدے تو ایک طرف، اعلیٰ ملازمتیں بھی استحقاق یافتہ طبقے کو ہی ملتی ہیں کیونکہ بڑا عہدہ حاصل کرنے کے لیے بینک میں بڑا اکائونٹ ہونا ضروری ہے۔ یہاں ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں عام طور پر دولت مند افراد کے بچے سست، کاہل، غبی اور نالائق ہوتے ہیں لیکن اعلیٰ عہدوںکے حق دار یہی لوگ قرار پاتے ہیں۔ اس لیے ہمارے اعلیٰ عہدوں پر نالائق سے نالائق تر افراد فائز ہونے کی روایت جاری رہتی ہے‘ چاہے ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت، اس کی بہتری یا تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ 
اگر دولت مند افراد اپنے بچوں، جن کے ہاتھ میں اس ملک کی باگ ڈور آنی ہے، کو محنت، دیانت داری‘ راست بازی اور سماجی اقدار کی تعلیم دیں تو اس ملک میں بہتری کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں مطلق العنان بادشاہ بھی اپنے بیٹوں، جنہوں نے ان کے بعد بادشاہت سنبھالنی ہوتی تھی، کو اخلاقیات کی تدریس کے لیے کسی استاد کے پاس بھیجتے تھے۔ آج کل کے ''بادشاہ‘‘ بھی ایسا کر لیں تو کیا ہی اچھا ہو!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں