کل کیا ہو گا؟

میں نے مضمون کے لیے اس عنوان کا انتخاب بنیادی طور پر دو وجوہ کی بنا پرکیا ۔۔۔ پہلی وجہ یہ کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا کیونکہ ان کے مطالبات ایسے نہیں جن کو تسلیم کیا جا سکے۔ مولانا سمیع الحق کا یہ بیان سب کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے کہ طالبان ملک کو مغربی طاقتوںکے نرغے سے چھڑانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور ان کا مطالبہ ملک میں شریعت کا نفاذ اور تمام غیرملکیوںکا انخلا ہے۔ دوسری وجہ پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے مغربی تجزیہ کاروں کی طر ف سے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ اگرچہ وہ خبردار کرتے ہیں کہ ''کچھ ہونے والا ہے‘‘ لیکن وہ اس وقوعے کی نوعیت اور وقت بتانے سے گریزاں ہیں۔ 
آج کل انٹرنیٹ پر ڈاکٹر سٹیفن کوہن کا ایک پرانا انٹرویو بہت رش لے رہا ہے، وہ پاکستان کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور کئی بار پاکستان کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ اُنہوں نے پاکستان کے بہت سے سیاسی، دفاعی اور سرکاری حکام سے ملاقاتیں کیں۔ کوئی اڑھائی برس قبل اُنہوں نے پاکستان کے حوالے سے کتاب لکھی تھی۔۔۔The future of Pakistan۔ اس کتاب میں اُنہوں نے کچھ پیش گوئیاں کیں لیکن یہ زیادہ واضح نہ تھیں۔ انٹرویو میں جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق ہے تو مسٹر کوہن نے جواب دیا: ''نہیں، پاکستان کے وجود کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اس کی فوج ایک منظم اور طاقت ور ادارہ ہے اور وہ اس کی جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس ملک کو جغرافیائی طور پر توکوئی فوری خطرہ لاحق نہیں لیکن اگر اس کی معیشت زوال کا شکار رہی تو ایسا ہو سکتا ہے‘‘۔ مسٹرکوہن کے مطابق اس ملک کی سب سے بڑی دشمن اس کی خراب معیشت ہے۔ ان کی اس بات میں وزن ہے اور ہمیں اس کی صداقت جاننے کے لیے کسی نجومی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں کہ خراب معیشت کے ہوتے ہوئے ایک سو اسی ملین(اٹھارہ کروڑ) نفوس پر مشتمل آبادی کن مسائل کا شکار ہوسکتی ہے۔ہمیں اس الجھن میں بھی نہیں پڑنا چاہیے کہ یہ ملک کب تک اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے۔ ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ اس کی معیشت میں کتنی سکت باقی ہے،اس لیے اس ملک کا مستقبل کوئی نجومی نہیں بلکہ سادہ سا کیلکولیٹربھی بتاسکتا ہے،کچھ جمع تفریق سے ملک کے مستقبل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 
کوہن اس معاملے کو مزید کنفیوز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ملک اگلے پانچ یا سات سال تک کسی بڑی تبدیلی کے عمل سے نہیں گزرے گا؛ تاہم آگے چل کر وہ کہتے ہیں کہ ''پاکستان ایک تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے، یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تبدیلی کب آئے گی‘‘۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ نتیجے کی ذمہ داری ہم پر چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ یہ اس ملک کے معروضی حقائق ہیں اور ان حالات میں کن اقدامات کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ البتہ جو بات اُنہوں نے زور دے کر کہی وہ یہ تھی کہ انتہاپسند یا بلوچ عسکریت پسند اس ملک کو جغرافیائی طور پر نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں۔۔۔ ہماری سب سے بڑی دشمن خراب معیشت ہے۔ 
کوہن کی بات سن کر دل کو تسلی ہوتی ہے اور یقین ہونے لگتا ہے کہ طالبان اس ریاست پر کبھی قابض نہیں ہو سکیں گے کیونکہ ان کے قبضے کا مقصد ملک کے آئینی اور جغرافیائی ڈھانچے کی تباہی ہے؛ تاہم کوہن اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ اسلامی ریاست انتہاپسندانہ نظریات اور دہشت گردی کا مرکز ہے، بعض حلقے اسے القاعدہ کا ''غیرسرکاری ہیڈ کوارٹر‘‘ بھی قرار دیتے ہیں۔ اس ہفتے ایک اور امریکی تجزیہ کار بھی اس رائے سے اتفاق کرتا دکھائی دیا، اس کا کہنا ہے کہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کا ٹھکانہ پاکستان میں تھا۔ کوہن پاک فوج کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں: ''فوج ملک کو اچھے طریقے سے نہیں چلا سکتی اور اسے اس بات کا احساس ہے‘‘۔ یہ ایک کڑوی بات ہے لیکن ہمیں اس پر چیں بہ جبیں ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسے پاکستان کے حوالے سے ایک عالمگیر سچائی قرار دیا جا سکتا ہے۔ کوہن کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں جنرل مشرف کی مثال لے لیں ۔۔۔ ''مشرف نے خودکو اور اپنے ارد گرد موجود ہر کسی کو بے وقوف بنایا۔ ان میں بطور ایک فوجی جنرل سختی نہیں تھی بلکہ اُنہوں نے ہر کسی کو خوش کرنے کی پالیسی اپنائی؛ تاہم اپنے نظریات کے باوجود وہ پاکستان کو ایک لبرل ملک نہ بنا سکا۔ کچھ پاکستانیوں اورامریکیوں کا خیال ہے کہ مشرف پاکستان کے لیے امید کی آخری کرن تھے‘‘۔
اس وقت حکومت پاکستان ان افراد کے ساتھ افہام و تفہیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو جدیدیت کے خلاف ہیں اور جو ملک کو ماضی میں واپس دھکیلنا چاہتے ہیں۔ ان گروہوں کے تقویت پانے اور ریاست کے ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے سے گریز کے پیچھے ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ مختلف مقاصدکی خاطر بعض ریاستی ادارے خود ان گروہوں کی آبیاری کرتے رہے ہیں۔ کوہن سوال اٹھاتے ہیںکہ اس وقت پاکستان کو ماضی میں جانے سے کون روک سکتا ہے؟ اس پر کوہن خود ہی جواب دیتے ہیں کہ پاکستان کو اپنا سیاسی کلچر مضبوط بنانا ہو گا اور یہ بات ہمیشہ کے لیے ذہن سے نکالنی ہو گی کہ فوج ملک کوکنٹرول کر سکتی ہے۔ فوج کا جو مخصوص کام ہے وہ اسے کرنے دیا جائے لیکن حکومت اور نظم و نسق قائم کرنا سیاستدانوں کا ہی کام ہے۔ سول محکموں میں فوجی افسران مقرر کرنے کی پالیسی نے بھی ملک کو نقصان پہنچایا ہے کیونکہ فوج سے آئے ہوئے لوگ معیشت اور اس کے لوازمات سے بے خبر ہوتے ہیں۔ سیاست اور سپہ گری دو مختلف امور ہیں اور ان کے لیے مختلف تربیت ہی نہیں مختلف ذہنیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ فوج طاقت کے زور سے کام کرنے کے لیے بنائی جاتی ہے جبکہ سیاست دان کا کام عوام کو اپنے ساتھ ملا کر افہام و تفہم سے کام چلانا ہوتا ہے، عوام کے ساتھ طاقت اور ملک دشمن عناصر کے ساتھ افہام و تفہیم کی پالیسی معاملات کو خراب کر دیتی ہے۔ 
کوہن کی ایک اور پیش گوئی غلط ثابت ہو رہی ہے۔ اُنہوں نے اپنے ایک نٹرویو میں کہا تھا ( یہ انٹرویو پاکستان میں گزشتہ عام انتخابات سے پہلے لیا گیا تھا) کہ اُن کی خواہش ہے کہ ان انتخابات میں اسلامی جماعتوںکو حکومت قائم کرنے کا موقع ملنا چاہیے تاکہ عوام دیکھ لیں کہ وہ کس حد تک کامیاب یا ناکام ثابت ہوتی ہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ''میر ی خواہش ہے کہ عمران خان جیسے افراد کو کامیاب ہونا چاہیے تاکہ وہ ذمہ داری کا بوجھ پڑنے پر خود کو تبدیل کر سکیں‘‘۔ ڈاکٹر کوہن دیکھ سکتے ہیں کہ عمران خان نے عوام کو بہت مایوس کیا ہے۔ آج بھی عمران کو غلط فہمی ہے کہ وہ طالبان کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں؛ تاہم جب طالبان نے اُنہیں اپنی کمیٹی میں بیٹھنے کے لیے کہا تو عمران نے معذرت کر لی۔ میرا خیال ہے کہ اس سے عوام کی ایک اور غلط فہمی دور ہو چکی ہو گی اور عمران کو بھی سمجھ آ گئی ہو گی کہ بیان بازی کرنے اور حقائق کا سامنا کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ کل کیا ہو گا، یہ تو کوئی نہیں جانتا لیکن ان مذاکرات سے ایک بات اچھی طرح سامنے آرہی ہے کہ کچھ لوگ پہچانے جا رہے ہیں جو ایک بڑی کامیابی ہے مگر شرط یہ ہے کہ یہ پہچان برقرار رہے اور عوام کی یادداشت بھی کچھ عرصہ ساتھ دے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں