ڈرون حملوں کا معمہ

گزشتہ اڑتالیس روز سے امریکیوںنے شمالی وزیرستان میں کوئی ڈرون حملہ نہیںکیا۔ لندن کے ''بیورو آف انوسٹی گیٹیو جرنلزم‘‘،جو ایک آزاد تنظیم ہے اور اس کا مقصد منافع کا حصول نہیں، کا کہنا ہے کہ آخری ڈرون حملہ 25 دسمبر 2013 ء کو کیا گیا تھا۔ اس تعطل کی وجہ اسلام آباد کی امریکہ سے درخواست ہے کہ جب تک طالبان کے ساتھ پرامن مذاکرات ہورہے ہیں، ڈرون حملہ نہ کیا جائے۔ ایک امریکی افسر کے مطابق۔۔۔''اُنھوںنے ہم سے یہ رعایت مانگی تھی اور ہم نے اُنہیں انکار نہیںکیا۔‘‘تاہم یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ یہ تعطل مستقل نہیں، کیونکہ اوباما انتظامیہ نہایت وضاحت سے کہہ چکی ہے کہ اگر امریکہ اور اس کے مفادات کو القاعدہ سے کوئی خطرہ ہواتو وہ ان کے اعلیٰ عہدیداران کے خلاف ڈرون حملے جاری رکھیں گے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ طالبان کی نواز شریف حکومت سے سب سے پہلی شرط یہ تھی کہ ڈرون حملے بند کرائے جائیں۔ 
وزیراعظم نواز شریف نے امریکیوں سے کہہ دیا ہے کہ ڈرون حملے بند کردیے جائیں اور فی الحال امریکہ نے ڈرون آپریشن روک دیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کب تک رہے گا۔ ایک اور بات، اُنہیں یہ بھی علم نہیں کہ کیا پاکستانی وزیر ِاعظم بظاہر ایسا کہہ رہے ہیں یا وہ واقعی چاہتے ہیں کہ ڈرون حملے بند کردیے جائیں۔ اس سے پہلے سابق وزیر ِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی بات آن ریکارڈ ہے جب اُنھوں نے سابق امریکی سفیر این پیٹرسن کو بتایا تھا کہ زرداری حکومت کو ڈرون حملوں پر کوئی اعتراض نہیں۔ اگست 2008 ء میں بھیجے گئے کیبل پیغام( وکی لیکس کے مطابق) میں این پیٹرسن نے وزیرِاعظم گیلانی کے حوالے سے کہا۔۔۔''اگر ڈرون حملوں میں درست افراد ، یعنی دہشت گرد، ہلاک ہورہے ہیں تو مجھے ان پر کوئی اعتراض نہیں۔ ہم اسمبلی میں ان پر احتجاج کرتے رہیں گے لیکن آپ نظر انداز کردیجئے گا۔ ‘‘اس کے بعد امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی گواہی بھی موجود ہے کہ حکومت کو ڈرون حملوں پر کوئی اعتراض نہیں ۔ جب نواز شریف وزارت ِ اعظمی کے منصب پر فائز ہوئے تو حسین حقانی نے واشنگٹن میںہنگامی پریس کانفرنس میں ، جس کا انعقاد ''نیویارک کونسل برائے خارجہ معاملات ‘‘ نے کیا، بتایا کہ پاکستان کے نئے بننے والے والے وزیر ِ اعظم کی دہشت گردی کے حوالے سے کمٹمنٹ مشکوک ہو گی۔ وہ پریس کانفرنس امریکہ اور بھارت کے لیے ایک وارننگ تھی کہ وہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کے حوالے سے مسٹر شریف پر زیادہ اعتماد نہ کریں۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق۔۔۔''مسٹر حقانی نے الزام لگایا کہ نواز شریف نے ہی ایک کالعدم تنظیم، جس پر بھارت کے خلاف کارروائیاں کرنے کا الزام رہا ہے، کو تخلیق کیا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ مغرب کی نظروں میں پاکستانی رہنما ناقابل ِ اعتماد ہوتے ہیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اوباما انتظامیہ کی ساکھ بھی مشکوک ہے۔ سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر کا استعفیٰ ایک راز ہے۔ مئی 2012 ء میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اعلان کیا کہ مسٹر منٹر ''ذاتی وجوہ‘‘ کی بنا پر عہدے سے دستبردار ہورہے ہیں، لیکن ''نیویارک ٹائمز ‘‘ نے کچھ اور ہی کہانی سنائی ۔ اس میں کیمرون منٹر کے ایک دوست، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ، کے حوالے سے کہا گیا۔۔۔''سفیر صاحب کو احساس تھا کہ ان کا اصل کام افراد کو قتل کرانا نہیں۔‘‘کیا اس سے یہ ظاہر نہیںہوتا کہ مسٹر منٹر کشمکش کا شکار تھے۔ وہ اس حق میں نہیں تھے کہ ڈرون حملوں میں بے گناہ افراد کو ہلاک کیا جائے۔ اُنھوںنے ایک انٹرویو میں کہا تھا ۔۔۔''اگر ڈرون حملوں میں بے گنا ہ ا فراد ہلاک ہوتے رہے تو آپ ان کے استعمال کا جواز کھو دیں گے۔‘‘تاہم اُنھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ''ڈرون حملوں نے مستقبل میں ہونے والی دہشت گردی کا تدارک کیا۔ ‘‘ تاہم سابق سفیر اس بات پر کنفیوز تھے کہ ان حملوں میں بے گناہ شہری بھی ہلاک ہوجاتے ہیں اور اس سے دہشت گردی میں کمی کی بجائے اضافہ ہوجاتا ہے۔ اُنھوںنے کہا۔۔۔'' لوگ ہمارے سامنے ان معصوم بچوں کی لاشیں لاتے ہیں جو ڈرون حملوں میں ہلاک ہوگئے۔ کیا وہ ڈرامہ کررہے تھے؟‘‘
کیمرون منٹر کے مطابق ڈرون طیاروں کے درست استعمال کے لیے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پاکستانی حکام کا تعاون ضروری تھا، تاہم اس میں دشواری یہ تھی کہ اس کا برملا اعتراف پاکستانی سیاسی قیادت کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا تھا۔ امریکہ کے سامنے معاملہ یہ تھا کہ ڈرون حملوںنے اس بات کا فیصلہ کرنا تھا کہ کیا اُس نے جنگ جیتنی ہے یا ہارنی ہے؟ سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر لیون پنیٹا کو مسٹر منٹر کی ''ڈرون پالیسی ‘‘ پر اعتراض تھا۔ پنیٹا نے دوٹوک انداز میں منٹر کو بتایا'' میں تمہارے لیے کام نہیںکرتا‘‘ منٹرنے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔۔۔'' میں بھی تمہارے لیے کام نہیںکرتا‘‘اور مارچ 2011 ء میں سی آئی اے نے شمالی وزیرستان میں انتہا پسندوں پر ڈرون حملے کا حکم دے دیا۔ منٹر نے اس حملے کو روکنے کی کوشش کی لیکن سی آئی اے حکام نے اپنے سفیر کے خدشات کو رد کر تے ہوئے حملہ کردیا۔ 
منٹرکے ایک قریبی ساتھی نے یہ بھی کہا کہ پنیٹا نے کچھ ڈرون حملے سی آئی اے کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس ، جس نے لاہور میں دو پاکستانیوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا، کی گرفتاری کے انتقام کے طور پر کیے تھے۔ اس سے یہ معاملہ مزید گہرا ہوجاتا ہے۔ اگرچہ جان کیری کی کوششوںسے ریمنڈ ڈیوس کو قید سے نکال کر پاکستان سے باہر بھجوا دیا گیالیکن اس کے بعد کیے جانے والے ڈرون حملے میں انیس افراد، جن میں دس انتہا پسند تھے، ہلاک ہوگئے تھے۔ اس وقت ریمنڈ ڈیوس کو پاکستانی میڈیا پر بہت کوریج مل رہی تھی۔ ہرپاکستانی کی زبان پر اس کا نام گونج رہا تھا، لیکن لوگ حیرت سے سکتے میں آگئے جب ایک دن پتہ چلا کہ اُسے ملک سے باہر بھجوا دیا گیا ۔ صدر اوباما نے مارچ 2011 ء میںاعلان کیا کہ پاکستانی سفیر ڈرون حملوںکے حوالے سے بااختیار ہوگا اور وہ چاہے تو اُنہیں روک بھی سکتا ہے ، لیکن پھر یہ بھی کہا گیا کہ اس معاملے میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر کا فیصلہ حتمی سمجھا جائے گا۔ یہ ایسی صورت ِ حال تھی جس میں مسٹر منٹر نے خود کو ''تنہائی کاشکار ‘‘ سمجھا اور قدم پیچھے ہٹا لیا۔ 
اس وقت بھی ڈرون حملوں کے حوالے سے کنفیوژن کی فضا پائی جاتی ہے۔ طالبان کا مطالبہ مانتے ہوئے نواز حکومت نے امریکہ سے حملے موخر کرادئیے ہیں اور طالبان یہ بات جانتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جب دوبارہ حملے شروع ہوں گے۔۔۔ اور امریکہ ہم سے پوچھے بغیر ایسا کرے گا ۔۔۔ تو طالبان یہی سمجھیں گے کہ ان کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ پھر ہم مزید مشکلات میں گھر جائیں گے۔ درحقیقت، نواز حکومت نے خود کو ایک مشکل صورت ِ حال میں لا کھڑا کیا ہے۔ طالبان کا مطالبہ شریعت کا نفاذ، اپنے قیدیوں کی رہائی اور فاٹا سے فوجی دستوں کی واپسی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بھاری زر ِتلافی کا بھی مطالبہ کررہے ہیں۔ پس چہ بائد کرد؟کیا اب حکومت خود امریکہ سے کہے گی کہ ڈرون حملے دوبارہ شروع کیے جائیں؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں