لاس ویگاس کے قاتل کمانڈرز

طویل عرصے تک اس بات کی تردید کی جاتی رہی کہ امریکی فورسز فاٹا میں انتہا پسندوں کے ٹھکانوں پر ڈرون حملوں کے لیے پاکستان کے ایئرپورٹس استعمال کرتی ہیں؛ تاہم 2011ء میں طوعاً و کرہاً تسلیم کر لیا گیا کہ شمسی ایئر بیس ایسی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ ڈرون اور اس کے اہداف اور نتائج پر تو ہم بات کرتے رہتے ہیں لیکن ہم میں سے بہت سے ان کے آپریشن کی ٹیکنیکل معروضات سے ناواقف ہیں۔ ہمیں ہیل فائر میزائل کی ہلاکت خیزی کا علم ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ اس بغیر پائلٹ کے اُڑنے والی مشین کو کون کنٹرول کر رہا ہوتا ہے۔ شاید ہم ڈرون حملوں کی تاریخ سے بھی ناواقف ہیں کہ جب یہ 2006ء میں منظر عام پر آئے تو ان کا مقصد کیا تھا اور انہیں کون اُڑاتا تھا؟ اسے میری خوش قسمتی ہی کہہ لیں کہ میری ملاقات امریکہ سے اسلام آباد آتے ہوئے ایک ایسے شخص سے ہوئی جو ہلاکت خیز ی کے اس باب کو بہت اچھی طرح سمجھتا تھا۔ 
اس کا کہنا تھا کہ یہ طیارے لاس ویگاس جسے ''Sin City‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا، کے مضافات سے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ لاس ویگاس کو ''Sin City‘‘ اس لیے نہیں کہا جاتا کہ یہاں چوبیس گھنٹے جوئے اور سیکس کی صنعت اپنے عروج پر رہتی ہے بلکہ اس لیے کہ یہاں بہت سی ایسی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں جو عام لوگوں کی نظروںسے اوجھل ہوتی ہیں۔ وہ گناہ جو سر عام ہوتے ہیں، اور جو عرصہ ٔ دراز سے ہو رہے ہیں، ان کی کوئی پروا نہیںکرتا، لیکن پردے کے پیچھے ہونے والی سرگرمیاں یقینا قابل اعتراض ہوتی ہیں۔ اگر ویگاس میں یہ طیارے موجود رہیں تو یہاںکے شہریوں کو ان سے کوئی سروکار نہیں، لیکن جب یہاں سے کنٹرول ہونے والے طیارے ساڑھے سات ہزار میل دور فاٹا میں میزائلوں کی بارش کرتے ہیں تو کم از کم یہاں موجود لوگوں کو علم تو ہونا چاہیے کہ وہ باقی دنیا کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ 
ایک اور اہم خبر‘ جس کا ہمیں علم ہونا چاہیے‘ یہ ہے کہ تین سال پہلے تک جو ڈرون طیارے موجود تھے، جنہیں ہمارے ٹی وی کے میزبان ''ڈران‘‘ کہا کرتے تھے، اب موجود نہیں، بلکہ ان کی جگہ جو طیارے فعال ہیں وہ MQ-9 Reapers کہلاتے ہیں۔ اُس صحافی نے بتایا کہ امریکی ان کو افغانستان لانے کے لیے اس قدر جلدی میں تھے کہ انہوں نے ان کی آزمائشی پروازوں کی زحمت بھی نہ کی، بلکہ ان کی پہلی آزمائش لائیوٹیسٹ ہی تھی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اُنہوں نے کئی مرتبہ افغانستان میں نیٹو افسران کی بریفنگ میں شرکت کی۔ وہاں انہیں پتہ چلا کہ ریپر طیارے کا سائز پری ڈیٹرز سے بڑا ہوتا ہے۔ اس کے پروں کا پھیلائو بوئنگ 737 کے پروں جیسا ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔۔۔ ''میں نے ان میں سے ایک کو قندھار سے پرواز کرتے دیکھا۔ جب یہ زمین سے پرواز کرتا ہے تو بہت شور مچاتا ہے لیکن پچاس ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ کر بالکل ایک بے آواز پرندے کی طرح اُڑتا ہے۔ یہ خلامیں پہنچ کر انسانی آنکھ سے اوجھل ہو جاتا ہے لیکن اس کی آنکھ سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہے جبکہ اس کے خطرناک میزائل ہلاکت خیزی کے لیے تیار ہوتے ہیں‘‘۔
میں طالبان اور ''گناہوں کے شہر‘‘ کے فاصلاتی تعلق پر بہت حیران ہوئی کہ کیسے Creech Air Force Base اور Nellis Air Force Base کے بند کمروں میں بیٹھے ہوئے افسران آٹھ ہزار میل دور سنگلاخ پہاڑی مقامات کے پیچ و خم میں چھپے انتہاپسندوں کو تاک تاک کر نشانہ بناتے ہیں۔ ان طیاروں کا آپریشن ایک انتہائی جدید اور پیچیدہ کارروائی ہوتی ہے۔ سب سے پہلے افغانستان یا پاکستان کے کسی مقام سے یہ طیارے پرواز کرتے ہیں۔ فضا میں بلند ہوتے ہی ان کا کنٹرول لاس ویگاس کے پاس چلا جاتا ہے۔ کنٹرول روم میں موجود پائلٹ آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ ہر پائلٹ دو گھنٹے کے بعد آرام کرنے چلا جاتا ہے کیونکہ یہ کوئی ویڈیو گیم نہیں بلکہ ایک انتہائی سنجیدہ کام ہے۔ اٹھ ہزار میل دور کسی زندہ انسان کو نشانہ بنانے کے لیے بہت چوکس آنکھ اور بیدار ذہن کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
کیا سی آئی اے، نیوی اور امریکی فوج ان طیاروں سے صرف مطلوبہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا کام ہی لے رہے ہیں؟ اُس صحافی کا کہنا تھا کہ ریپرز طیاروں میں جاسوسی کے آلات بھی نصب ہوتے ہیں اور نگرانی کرتے ہوئے معلومات لاس ویگاس میں افسران کو فراہم کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ نیٹو سپاہیوں کے ساتھ فیلڈ میں موجود تھے جب وہ ایک مکان کی تلاشی لینے پہنچے۔ اس مکان سے دو افغان باشندے نکلے اور انہوں نے کہا کہ ان کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ہتھیار ہیں؛ تاہم لاس ویگاس کے کنٹرول روم میں بیٹھے ہوئے افسران نے نیٹو سپاہیوں کے کان میں سرگوشی کی کہ پچاس گز دور اس مکان کے پچھواڑے میں کئی طالبان گڑھے کھود کر اپنے ہتھیار چھپا رہے ہیں۔ ہمارے وہاں سے روانہ ہونے کے پندرہ منٹ بعد آسمان سے برسنے والے میزائلوں نے اس جگہ کو جلا کر راکھ کر دیا۔ ان طیاروںکی ایک اور ہلاکت خیز خوبی یہ ہے کہ یہ انفراریڈ شعائوں سے انسانی جسم سے نکلنے والی حرارت کی لہروں کو محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ طیارہ بند کمروں میں بیٹھے انسانوں کو محسوس کر سکتا ہے اور ان کی تعداد بتا سکتا ہے؛ چنانچہ ویگاس میں بیٹھا ہوا کمانڈر جانتا ہے کہ اس میزائل حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کتنی ہے کیونکہ جب زندہ جسم حرارت خارج کرنا بند کرتے ہیں تو بھی ریپر طیارہ ان کو نوٹ کر لیتا ہے۔ 
مجھے افسوس ہے کہ اتوار کو، جب ہر کوئی چھٹی کے موڈ میں ہوتا ہے، میں آپ کو دہشت ناک تفصیل سے آگاہ کر رہی ہوں۔ بہرحال ایک بات طے ہے کہ ہم مذاکرات کریں یا کچھ بھی، امریکہ مطلوبہ دہشت گردوںکو نشانہ بنانے سے باز نہیں آئے گا۔ ریپر طیاروں میں موجود حساس آلات بلندیوں سے نہ صرف آواز سن سکتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ بولنے والا ملا عمر ہے یا کوئی اور۔
ہمارے ہاں خیال کیا جاتا ہے کہ جب امریکی افغانستا ن سے رخصت ہو جائیں گے تو یہ ریپر طیارے بھی چلے جائیں گے۔ مجھے شک ہے کہ ایسا ہو گا۔ امریکی اپنے اہم ترین ہتھیار کو اس خطے میں موجود رکھیںگے۔ اگر 2001ء میں امریکی حکام ڈرون کی افادیت سمجھ لیتے تو شاید وہ افغانستان پر فوجیں اتارنے کی غلطی نہ کرتے۔ ان طیاروں نے جنگی معروضات اور بہادری کے تصورات تبدیل کر دیے ہیں۔ جنگی ماہرین کا خیال ہے کہ بغیر پائلٹ کے اڑنے والے ان ''ہدفی قاتلوں‘‘ نے امریکہ کو ہاری ہوئی جنگ میں بھی اپنے اہداف حاصل کرنے کے قابل بنا دیا۔ کیا ہمارے ملک میں سماج دشمن عناصر نے ٹارگٹ کلنگ کو ایک اعلیٰ ترین فن کی شکل نہیں دے دی؟ کیا یہ بھی ڈرون ہی کی کوئی قسم ہیں؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ کیا ہم ان کو شکست دے سکتے ہیں؟ چالیس ہزار ہلاکتوںکے بعد آپ یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ میڈیا ہی ریٹنگ بڑھانے کے لیے سنسنی خیزی پھیلا رہا ہے، درحقیقت یہ ذرا بھٹکے ہوئے لوگ ہیں اور ملک کے چھے یا سات انتہائی معتبر افراد ان کو راہ راست پر لے آئیںگے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ان چلتے پھرتے ریپر قاتلوں کا لاس ویگاس کہاں ہے؟ اور کیا ان کے ''کنٹرول روم‘‘ تک پہنچے بغیر ہم ان کی فعالیت کو روک پائیں گے۔ ایک سابق صدر نے کہا تھا کہ ڈرون کوئی چیل نہیں کہ غلیل سے مار گرائیں۔ یہ جملہ آج بھی قابل غور ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں