ایک دُور دراز کے براعظم میں رہتے ہوئے بھی‘ میں ان کی وفات سے ایک دن پہلے ان کے بارے میں کیوں سوچ رہی تھی؟اوہ، اب مجھے یاد آیا کہ ایسا کیوں تھا۔ اچانک میر ے ذہن میں لفظ ''پوشیدہ دشمنی ‘‘ آیاتھا اور اس سے مجھے خشونت سنگھ کا کالم "With Malice Towards One and All" یاد آیا۔ اس کالم کو بہت زیادہ پڑھا گیا اور بہت سے لوگوں نے اس کے حوالے دئیے۔
اگلے دن خبر آئی کہ سردار صاحب ننانوے سال کی عمر میں دہلی میں اپنے اپارٹمنٹ میں خالق ِ حقیقی سے جاملے ۔ یہ خبر سن کر مجھے وہ دن یاد آگیا جب میں اٹھارہ سال پہلے ایک شام انہیںملنے گئی ۔ جب میں نے اُنہیں بتایا کہ میں پاکستان سے آئی ہوں اور ان کا انٹرویو کرنا چاہتی ہوں تو اُنھوںنے انتہائی خوشی سے مجھے ڈنر کی دعوت دے دی، تاہم تاکید سے کہا کہ ٹھیک سات بجے آنا ورنہ ڈنر سے رہ جائو گی۔ اُنھوںنے کہا۔۔۔''میں بوڑھا شخص ہوں ، اس لیے میں کھانا جلدی کھاتا ہوں۔‘‘ میں تاخیر سے بچنے کے لیے جلدی آ گئی ۔ ابھی سات بجنے میںکچھ منٹ باقی تھے، اس لیے میں دروازے پر کھڑی ہوگئی اور ٹھیک وقت پر میں نے بیل دی۔
وہ اپنے مخصوص انداز میں کمبل لیے، ٹوپی پہنے کرسی پر بیٹھے تھے۔ اس وقت وہ 81برس کے تھے لیکن ان کی آنکھوں میں زندہ دلی اور ہونٹوں پر شرارتی تبسم رقصاں تھا۔ انہوں نے مجھے ان دنوںکے بارے میں بتایا جب وہ لاہور میں تھے اور ان کے بہت سے دوست تھے، تاہم تقسیم کے بعد وہ بہت سی یادیں لیے بھارت چلے آئے لیکن ان کے دوست وہیں رہ گئے۔ جب گفتگوکا رنگ گرم ہوا تو مخصوص ''پنجابی ‘‘ سٹائل بیدار ہونا شروع ہوا۔ ان کے لطیفوں میں ایک خاص رنگ نمایاں تھا اور وہ بے دھڑک ہوکر اپنی گفتگوکو ایسے لطیفوں کا ''تڑکا‘‘ لگارہے تھے۔ گاہے گاہے وہ میری طرف بھی دیکھتے کہ کہیں میرے چہرے کا رنگ متغیر تو نہیں ہو رہا یا میں پریشانی تو محسوس نہیں کر رہی۔ حقیقت یہ تھی کہ میں کچھ مضطرب تھی اور مجھے خود پر غصہ بھی آرہا تھا کہ کیا میں احمقانہ لطیفے سننے یہاں آئی ہوں، تاہم میں نے اس کیفیت کو ظاہر نہیںہونے دیا۔
یہ لطیفوں بھرا دور ببلز چرن جیت سنگھ (Bubbles Charanjit Singh) کی آمد پر اختتام پذیر ہوا۔ وہ لی میریڈن ہوٹل کی منیجنگ ڈائریکٹر اور نہایت پرکشش شخصیت کی حامل تھیں۔ ان کی نشیلی آنکھیں ویسی ہی تھیں جیسی آپ چغتائی کے فن پاروں میں دیکھتے ہیں۔ اُنھوںنے ریشم کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی اور پشمینہ کی شال اوڑھ رکھی تھی کیونکہ یہ دہلی کا موسم ِ سرما تھا۔ان کو دیکھ کر خشونت کی آنکھوں میں زندگی کی جولانیاں موجزن ہو گئیں۔ ایسا لگتا تھا کہ اُنھوںنے آب ِ حیات پی لیا ہو۔ ان کی گپ شپ کا موضوع ان کاحلقہ ٔ احباب تھا۔ وہ پنجابی بہت روانی سے بول رہی تھیں۔ خشونت سنگھ نے اپنی خوبصورت مہمان کو بتایا کہ انھوںنے بہت پہلے ان کے ہوٹل کے سیلون میں ، جہاں وہ بیوٹی ٹریٹمنٹ کرانے گئے تھے، ایک حسینہ ، جو ان کی ٹریٹمنٹ کررہی تھی، سے فلرٹ کیا تھا، تاہم پھر خود ہی لقمہ دیا کہ سب چلتا ہے۔
جس کمرے میںہم بیٹھے ہوئے تھے، اس کے پردے سفید تھے جبکہ ان پر کالے رنگ میں ''السلام علیکم ‘‘ لکھا تھا۔ اُنھوںنے بتایا کہ یہ پردے اُن کے دوست منظور قادر نے تحفے میں دیے تھے۔ اُنھوںنے کہا ۔۔۔'' لاہور میں لارنس روڈ پر منظور قادر کا گھر پاکستان میں میرادوسرا گھر ہے ‘‘پھر اُنھوںنے منظور اور اصغری کی مہمان نوازی اور ان سے وابستہ یادوں کو دہرایا۔ اُنھوںنے لاہور کے کچھ اور افراد کا بھی ذکر کیا لیکن منظور قادر، جو ایوب خان کی کابینہ میں وزیر ِ خارجہ تھے، کا ذکر خصوصی طور پر کیا۔ ٹھیک آٹھ بجے ڈنر شروع ہوا۔ اس میں سبزیاں شامل تھیں لیکن سب میں سے گوشت کا مزہ آ رہا تھا۔ اس شام، ہماری میزبان نے تمام چیزیں تیار کی تھیں۔ وہ بھی کھانے کی میزپر آگئیں لیکن اُنھوںنے گفتگو میں زیادہ حصہ نہیں لیا۔ دراصل خشونت سنگھ کے ہوتے ہوئے دوسروں کو زحمت ِ کلام کم کم ہی ہوتی تھی، اس شام بھی ایسا ہی ہوا اور ہم سب ان کی پرلطف باتیں سنتے رہے۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ میںنے مانیکا گاندھی کے گھر جاکر ان کا انٹرویو کیا تھا۔ اس پر خشونت سنگھ کی آنکھیں چمک اُٹھیں اور اُنھوںنے کہا۔۔۔''وہ میرے پیارے دوست جنرل سنگھ کی بیٹی ہے ‘‘۔
جب میں 1987ء میں بھارت گئی تو راجیوگاندھی وزیراعظم تھے۔ مانیکاگاندھی سنجے گاندھی (راجیوگاندھی کے بھائی) کی بیوہ تھی اور وہ راجیو اور ان کی اطالوی بیوی سونیا سے الگ رہتی تھیں۔ خشونت سنگھ اندرا گاندھی کے حامی تھے لیکن 1984ء میں بھارتی فوج کے گولڈن ٹمپل پرحملے کے بعد مسٹر سنگھ کے لیے ان کی حمایت جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ اب میری روانگی کا وقت ہو چلا تھا۔ ببلز نے مجھے لفٹ کی پیش کش کی۔ راستے میں ہم باتیںکرتے رہے۔ ایسالگتا تھا کہ وہ خشونت سنگھ کے بہت قریب رہی ہیں کیونکہ وہ ان کے بارے میں بہت کچھ جانتی تھیں۔ اب جب خشونت سنگھ کی آخری رسومات اداکی جا رہی تھیں تو اس موقع پر قریبی اہل ِ خانہ کے علاوہ ببلز سنگھ بھی موجود تھیں۔ یقینا ان کی دوستی موت تک جاری رہی۔ خشونت سنگھ کی دوستی گرشران کور (Gursharan Kaur) کے ساتھ بھی تھی اور وہ ان کی آخری کتاب کی رونمائی کی تقریب میںمہمان ِخصوصی تھیں ۔ وہ موجودہ وزیر ِ اعظم من موہن سنگھ کی بیوی ہیں۔ مسٹر سنگھ کا کہنا تھا۔۔۔ ''وہ میری آخری کتاب تھی، لیکن میں نے اپنی چھ کتابوں میںسے ہر ایک کی تقریب رونمائی کے موقع پر یہی کہا تھا۔ مجھے نہیں پتہ کہ میں کب تک لکھنا جاری رکھوںگا؟اب میں یہ سیکھنے کی کوشش میں ہوں کہ کام کیسے نہیںکرنا اور بے کار زندگی کیسے بسر کرنی ہے۔‘‘ خشونت سنگھ کی کتاب ''Sunset Club‘‘ ایک بہت ہی جاندار کہانی ہے۔ ایسالگتا ہے کہ اس کہانی میں مسٹر سنگھ نے دہلی کی زندگی ، ایودا کی کشش اور ویلنٹائن ڈے کی محبوبیت کو افسانوی رنگ دیا ہے۔ اس میں کچھ جھلک مصنف اور ان کے دوستوں کی زندگیوں کی بھی ملتی ہے۔ اس کی رونمائی کے موقع پر مہمان ِ خصوصی گرشران کور نے کہا ۔۔۔''خشونت سنگھ کا انداز بہت شوخ ہے۔ میں ان کی تحریر کو پسند کرتی ہوں کیونکہ ان میں تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ ‘‘وزیر ِ اعظم کی بیوی کی طرف سے خشونت سنگھ کی بہت ہی جامع تعریف کی گئی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ان کی تحریر میں جو چیز سب سے نمایا ں ہے ، وہ زندگی کے جذبات ہیں۔
ایک اور خاتون، جن سے خشونت سنگھ کی دوستی تھی وہ مصنفہ سعدیہ دہلوی تھیں۔ وہ خشونت سنگھ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔۔۔''خواتین ان میں خصوصی دلچسپی لیتی تھیں کیونکہ وہ ان سے اپنائیت سے باتیں کرلیتے تھے۔ تیس سال پہلے جب وہ مجھے ملے تو انھوں نے کہا کہ تم بہت سندر ہو۔ پھر کہا،' تم اتنی خوبصورت کیوں ہو؟‘میں اکثر ان کی محفلوں میں شریک ہوتی۔‘‘ خشونت سنگھ کیا تھے؟ شاید اس کا اندازہ ہمیں کچھ دیر بعد ہو ۔ یہ بھی ہو سکتاہے کہ وہ ویسے نہ ہوں ، جیسے ہم ان کے بارے میں سوچتے تھے۔ ایک بات طے ہے کہ وہ ایسے انسان تھے جو بھارت اور پاکستان ، دونوں سے محبت کرتے تھے ۔ ایسے لوگ اب اس دنیا میں کم ہوتے جارہے ہیں۔