پاکستان طاقتور ریاست ہے

دو سادہ سے الفاظ ہیں۔۔۔''مضبوط پاکستان ‘‘۔۔۔اور حالیہ دنوں، جبکہ پاکستان میں ایک بحران کی سی کیفیت ہے، ان الفاظ کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بحران میڈیا ہائوسز، دانشوروں اور رائے سازوں کو غور و فکر کرتے ہوئے کچھ سبق سیکھنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا بھارت یا امریکہ میں کبھی ایسی کوئی بحرانی کیفیت پیدا ہوئی؟ کم از کم ایسی کوئی مثال میرے علم میںتو نہیں۔ درحقیقت جب قومی سلامتی کا معاملہ ہو تو بھارتی اور امریکی میڈیا اپنے لب سی لیتا ہے۔ 
کئی سال پہلے نیویارک کی ایشیا سوسائٹی کے تحت ہونے والے ایک پروگرام میں عاصمہ جہانگیربطور مقرر مدعو تھیں۔وہ 2005ء کے زلزلہ متاثرین کے لیے چندہ اکٹھا کرنے آئی تھیں۔ ان کا خطاب ہمیشہ کی طرح بہت ہی پرلطف اور متاثر کن تھا۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انہوں نے پاکستان کے دفاعی ادارو ں کے بارے میں قدرے منفی خیالات کا اظہار کیا اور ہمیشہ کی طرح وہ یہاں بھی سیاسی اور معروضی طو ر پر غلط تھیں۔ میں دیکھ سکتی تھی کہ ہال میں بھارت سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد زیادہ تھی اور وہ ان کی باتیں سن کر بہت خو ش ہورہے تھے۔ خطاب کے بعد میں نے ان سے ایک سوال پوچھا اور وہ انہیں خاصا ناگوار گزرا، اس لیے انہوں نے قدرے سخت لہجے میں مجھے ٹوک دیا۔ ہال میں بہت سے لوگ اس بات پر کھل کھلا کر ہنس پڑے کہ میری ہم وطن خاتون سے ہی سبکی ہوگئی تھی، لیکن عزیز قارئین، آپ جانتے ہیں کہ بطور صحافی آپ نے اس تجربے سے گزرنا ہوتا ہے۔ میںنے ان سے کہا تھا کہ آپ اپنے ریاستی اداروںکے بارے میں غیر ممالک میں آکر منفی الفاظ کیوں استعمال کرتی ہیں۔ان پر تنقید کرنا آپ کا حق ہے لیکن اپنے وطن میں، دیار ِ غیر میں آپ ایک ریاست کی سفیر ہیں نہ کہ ناقد۔ مسائل ہر ریاست اور اس کے شہریوں کو درپیش ہوتے ہیں اور دفاعی اداروں کا رویہ کم و بیش پوری دنیا میں ایک سا ہوتا ہے، لیکن کوئی ان پر اس طرح رائے زنی نہیںکرتا۔ میںنے عاصمہ سے کہا کہ ہمارے ملک میں بہت سی حیرت انگیز چیزیں ہیں جو ریٹنگ کے شکار میڈیا کو دکھائی نہیں دیتیں‘ آپ ان کے بارے میں جانتی ہیں، آپ ان کی بات کیوں نہیں کرتیں ؟کیاہم یہ سوچتے ہیں کہ باقی دنیا کے لوگ پاکستانی اداروںسے اس قدرنفرت کرتے ہیں کہ جب تک ہم ان کی برائی نہیں کریںگے، وہ ہمیں پیسے نہیں دیں گے؟ ہم کب تک اس توہین آمیز ذہنی غلامی کا شکار رہیںگے؟میرے سوال پر محترمہ نے سخت لہجہ اس لیے اپنایا تھا کیونکہ ان کے پاس ان سوالات کو کوئی معقول جواب نہ تھا۔ 
اس تصویر کے دوسری طرف ڈاکٹر شاہدہ جعفری ہیں جو اپنے وطن سے دل وجان سے محبت کرتی ہیں۔ انہوں نے گزشتہ تین ماہ امریکہ میں اپنے بچوںکے ساتھ گزارے۔جب میںنے ان سے امریکہ میں قیام کے حوالے سے ان کا تبصرہ چاہا تو ان کا کہنا تھا۔۔۔''میں بہت کمی محسوس کرتی ہوں‘‘۔ شاہدہ جعفری کوئٹہ کی پہلی خواتین کی یونیورسٹی کی بانی اور پہلی وائس چانسلر ہیں۔ 2004ء میں قائم کی گئی اس یونیورسٹی کو انہوں نے سخت محنت اور لگن سے کام کرتے ہوئے پروان چڑھایا۔ گزشتہ دنوں جب وہ اسلام آباد میںہونے والے لوک ورثہ میلے میں شرکت کے لیے گئیں تو وہاں بھی انہوں نے یونیورسٹی کے بارے میں بہت جذباتی انداز میں باتیں کیں۔ لوک ورثہ میلے کے بارے میں ان کا کہنا تھا ۔۔۔''یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ بہت سے خاندان اور نوجوان لوگ بلوچستان سے بھی آئے تھے۔ ان سب کو اکٹھا دیکھنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔ میںنے وہاں سے کچھ دستکاریاں بھی خریدیں اور ان سے بھی زیادہ خوبصورت یادیں لے کر واپس آئی۔ میرا ملک اور اس کے سادہ لوگ بہت خوبصورت ہیں‘‘۔ ڈاکٹر شاہدہ نے فخر سے بتایا کہ ''حکومت کی طر ف سے مقامی دستکاروں کو انعامات دیے گئے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی کچھ خواتین دستکاروں کو ان کی کشیدہ کاری کی وجہ سے تمغہ ٔ امتیاز بھی دیا گیا۔ ان میںسے کچھ خواتین وہ بھی تھیں جن کو میں نے اس وقت پروموٹ کیا تھا جب میں بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کی سی ای او تھی۔ ‘‘
ڈاکٹر شاہدہ کا کہنا تھا کہ آج ملک میں بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے جہاں کشیدہ کاری کے نمونے اپنی اصلی حالت میں پائے جاتے ہیں۔بلوچستان کے ہر گائوں اور قصبے کی کشیدہ کاری خاص نمونے کی ہوتی ہے اور اس گائوںکے تمام مرد وخواتین اسے اپنی شناخت کے اظہار کے طو ر پر پہنتے ہیں۔ ایک والدہ اپنی بیٹی کی پیدائش کے وقت سے ہی اس کے جہیز کے لیے ملبوسات پر کشیدہ کاری شروع کردیتی ہے۔ گزرتے ہوئے ماہ و سال اس محبت بھری روایت کے امین رہتے ہیں اور ان ملبوسات کی مہک اوررنگ دھرتی اور اس سے وابستہ افراد کی زندگی کا ایک انمول باب بن کر نسل در نسل محبت کا ایک تعلق قائم رکھتے ہیں۔ 
درحقیقت روایا ت اور ثقافت کے حوالے سے ہم ایک امیر ملک ہیں۔ سوات، کشمیر، ٹیکسلا، وادی ِ مہران اور تھر کے صحرا میں جنم لینے والی روایات بہت گراں قدر ہیں۔ ہمیں ان پر فخر کیوںنہیں؟ڈاکٹر شاہدہ کا کہنا تھا۔۔۔''مجھے ہر وہ چیز اچھی لگتی ہے جس سے ہمارے عام شہریوں کی مہارت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ‘‘لوک ورثہ پاکستان بھر کے دستکاروںکے فن کو اجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اسّی کی دہائی میں، میں کراچی سے اسلام آباد تک کا سفر صرف اس میلے میں شرکت کرنے کے لیے کرتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ میں اس موقع پر اپنے اخبار کے لیے کچھ مواد بھی اکٹھا کرتی۔ میرے ایڈیٹر اس کام میں میری حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ دراصل ہمارے میڈیا پر جتنی سیاست اور جمہوریت کی بھرمار ہے ، اس سے اجتناب کیا جانا چاہیے تھا۔ اس شور وغل میں عوام اور ان کی زندگی دب کررہ گئی ہے۔ کسی زمانے میں صحافت عوام کی آواز کو کہا جاتا تھا، آج یہ عوام کے حکمرانوںکی آواز ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اسی اخبارکے ایک کالم میں ڈاکٹررسول بخش رئیس نے لکھا تھا۔۔۔ ''افسوس امرود یا آم کے نئی قسم کے پودے کی کاشت بریکنگ نیوز نہیں بنتی۔‘‘ یقینا جو مالی پھل دار پودے کی ایک نئی اور بہتر قسم اُگاتا ہے، وہ بھی قوم کا اتنا ہی بڑا محسن ہے جتنا کہ ڈاکٹر اے کیو خان، لیکن ہماری ترجیحات اس مٹی کی بجائے اتنی آفاقی ہوچکی ہیں کہ لگتا ہے کہ ہماری تخلیق کا مقصد پوری دنیا پر ٹوٹ پڑناہے تاکہ ہم اسے فتح کرسکیں۔ 
جب یورپی اور امریکی سٹوروں پر بھارت، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا کے دست کاروں کی بنی اشیاء دیکھتی ہوں تو دکھ ہوتا ہے کہ یہاں پاکستان کو بھی موجود ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے سفیر یہ دستکار ہوں ، نہ کہ ایسے لوگ جو بیرونِ ملک جاکر اپنے وطن کی برائی کریں۔ جاری صورتحال نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم ایک لمحے کے لیے ٹھہریں اور سوچیں کہ ہم کس طرف جارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دعا ہے کہ میر صاحب صحت یاب ہوں اور یہ معاملہ احسن طریقے سے نمٹ جائے۔ ہمیں اس وطن کو مضبوط اور طاقتور بنانا ہے، اس کی جڑیں کھوکھلی نہیں کرنی۔۔۔ ''بے درو دیوار ہے ، لیکن یہ گھر اپنا تو ہے۔‘‘ ویسے یہ اب اتنا بھی بے درودیوار نہیں رہا، اور ہمیں اس بات پر اعتماد ہونا چاہیے۔ ہماری سکت بہت سی ریاستوںسے بڑھ کے ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں