عقلمندوں کی دانائی

آج محنت کشوں کا دن ہے۔ یاد آتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹویہ دن بہت جوش و جذبے سے منایا کرتے تھے۔ یقیناً بھٹو صاحب نے مزدوروں اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقوںکے حق میں آواز بلند کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے عوامی منشورکی تخلیق کے پیچھے مزدور پیشہ افراد کے حقوق کی وکالت کرنے والے سوشلسٹ رہنما ڈاکٹر مبشر حسن کازرخیز ذہن کارفرما تھا۔اس موقع پر مناسب ہوگا کہ میں اپنے قارئین سے ڈاکٹر صاحب کی وہ باتیں شیئرکروں جو اُنہوںنے کچھ عرصہ پہلے میرے گوش گزارکی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کی وہ باتیں آج بھی اتنی ہی بر محل ہیں جتنی اُس وقت جب ملک پر پی پی پی کا راج تھا۔ 
دانشور اور مفکرین کسی بھی قوم کا ورثہ ہوتے ہیں۔ عظیم اقوام اپنے ذی فہم افراد کو بہت اہمیت دیتی ہیں کیونکہ ان افراد کی بصیرت اقوام کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں منزل کا پتہ دیتی ہے۔ دراصل اس وقت دنیا میں جن اقوام کی حکمرانی ہے، اُنہوںنے اپنے دانشوروں سے رہنمائی حاصل کی اوران کے افکارکو عملی سانچے میں ڈھالا۔حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں گفتارکے غازیوں اوراندھے مقلدین کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ نوبل انعام یافتہ مصنف گیبرل گریشیا مارکیزجن کا چند دن قبل انتقال ہوا،دانائی کی علامت ہیں۔ کولمبیا میں جنم لینے والے اس عظیم مصنف اور صحافی نے دنیا کی خوبصورتی اور ظلم کے بارے میں لکھا۔ اُن کی تحریر ہمیں بتاتی ہے کہ اس دنیا میں جہاں تلخ حقائق اور دلکش خوابوںکے درمیان لکیر غیر واضح ہوتی جارہی ہے، محبت نجات کا سامان بھی بنتی ہے اور غلامی کا بھی۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی فضا ایسی سوچ رکھنے والے افرادکے لیے سازگار نہ ہو اور ہم اپنے دیس کی ہوائوں میں ایسے مصنف کوکبھی سانس لیتانہ دیکھ سکیں، لیکن یہ دھرتی اتنی بھی بانجھ نہیں۔ یہاں صائب الرائے اور پختہ شعور رکھنے والوں کی کمی نہیں؛ تاہم میڈیا ایسے افرادکو درخوراعتنا نہیںگردانتا۔ دراصل ان کی تلاش بھی نہیں کی جاتی ۔چنانچہ میڈیا پر نیم پختہ خیالات اور محدود سوچ رکھنے والے'' ماہرین ‘‘ کا جمِ غفیر، موج در موج '' اِدھر ڈوبے، اُدھرنکلے‘‘ کے مصداق عوام کو ابہام میں مبتلا کرکے اپنی ''ریٹنگ ‘‘ بڑھانے میں مصرف رہتا ہے۔
انہی'نیم چڑھے‘ دانشوروں کی ہیجان خیزی نے پاکستانی میڈیا کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ اب بھی وقت ہے، اگر اس سنسنی خیزی سے جان چھڑاکر پاکستان کی مٹی سے پھوٹنے والی دانائی کو تلاش کیا جائے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہوں یا نہ ہوں، ہم کم ازکم ذہنی کرب سے نجات حاصل کرلیںگے۔ 
واپس ڈاکٹر مبشر حسن کی بات کرتے ہیں، آج کے دن کی مناسبت سے ان کی بات سنی جانی چاہیے۔ اُن کی میرے میل باکس میں محفوظ ایک ای میل کے مطابق میڈیا پاکستان میں تبدیلی نہیں لاسکتا ، وہ کہتے ہیں : '' میں آپ سے کہتا ہوں کہ اس بات پر غورکریںکہ انقلابی تبدیلیاں الفاظ سے نہیں، طاقت سے لائی جاتی ہیں‘‘۔ پیپلز پارٹی کے بانوے سالہ معمر بانی رہنمانے کہا : ''طاقت سے مراد اخلاقی طاقت نہیں بلکہ عوامی طاقت، ہتھیاروں کی طاقت، عوام کے جتھوں کی طاقت، ایسی طاقت جو نہنگوں کے نشیمن تہہ و بالا کردے‘‘۔ دراصل مبشر حسن گھماپھراکر بات کرنے کے بجائے دوٹوک الفاظ میں اپنے موقف کا اظہارکرتے ہیں اور اگرچہ ان کے نظریات سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے لیکن یہ ان کی بے ریا فطرت کی عکاسی کرتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب ایک دانا انسان ہیں، لیکن جب وہ ریاست کی طاقت یا عوامی طاقت استعمال کرتے ہوئے یک لخت انقلابی تبدیلی لانے کی بات کرتے ہیں توذہن میں یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ کیا اس طرح پاکستان ترقی کرسکتا ہے،اس حال میں کہ اس کے جمہوری اداروں اور ورکنگ باڈیزکو معطل کردیا جائے؟ اس پر ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے : '' مجھے یقین ہے کہ خون خرابے کے بغیر بھی پاکستان میں انقلابی تبدیلی ممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ حکمران جیسے سیاست دان، اعلیٰ سرکاری افسر، صنعت کار، تاجر، سرمایہ دار، جاگیردار اور ان سب کے غیر ملکی آقا آج بہت کمزور ہوچکے ہیں۔ ہماری ریاست کا ڈھانچہ انتشارکا شکارہوکرکمزور ہورہا ہے اور ریاست میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے استدلال کے مطابق موجودہ صورتِ حال غیر معمولی تبدیلیوں کے لیے ساز گار ہوچکی ہے ۔کیا حالیہ دنوں میں پیش آنے والے کچھ غیر معمولی واقعات اس طرف اشارہ تو نہیںکررہے؟ ایک مرتبہ ڈاکٹرمبشر حسن نے اپنے ایک کالم نگار دوست کو خط میں لکھا: ''آپ گزشتہ پچیس برس سے پر مغز مضامین لکھ رہے ہیں لیکن ان سے اقتدارکے ایوانوں میں بال برابر جنبش پیدا نہیںہوئی‘‘۔ میںنے ڈاکٹرصاحب سے پوچھا کہ کتنے ٹی وی چینل اوران کے اینکرز ہیجان خیزی پیدا کرنے کی بجائے مثبت رائے عامہ تشکیل دے رہے ہیں؟ تو اُنھوںنے اس کا جواب نفی میںدیا۔ 
عرب دنیا میں ابھرنے والی بیداری کی لہرکی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیاکا اثر تھا۔ پاکستان میں سوشل میڈیا بعض وجوہ کی بنا پراتنا موثر نہیں ہے، لیکن الیکٹرانک میڈیا بھی عوام کو متحرک کرنے میں ناکام رہا ہے۔ بہت کم میڈیا ہائوس ایسے ہیں جنہوں نے عوام تک کوئی مثبت پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ایک بات یہ بھی کی جاتی ہے کہ ہم انقلاب کے لیے موزوں معاشرہ نہیں ہیں ۔کچھ دانشوروںکواس میں بھی شک ہے کہ ہم ایک معاشرہ ہیں۔ ایک سوچ یہ ہے کہ جو ملک کسی انقلاب کی وجہ سے وجود میں آئے ہوں، وہ کسی اورانقلاب کے متحمل نہیںہوسکتے ،ان میں بتدریج تبدیلی آسکتی ہے اور یہ تبدیلی بہتر بھی ہوسکتی ہے۔ اس پر ڈاکٹرمبشر کا کہنا یہ تھا کہ '' پاکستانی عوام کو کیسے تحریک دی جائے؟ میں گزشتہ تیس برسوںسے اس مقصد میں کامیاب نہیںہوا اور نہ ہی ملک میں ایسے دھڑے دکھائی دیتے ہیں جو حقیقی تبدیلی کے لیے کام کررہے ہوں‘‘۔ وہ پاکستان کے تعلیم یافتہ طبقے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں جن میں عدلیہ، صنعت کار، سرکاری افسر، سیاست دان، دفاعی اداروں کے افسران اور نام نہاد لبرل طبقے شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت این آر او کے مرہون ِمنت تھی اوراس کا مقصد صرف مل بانٹ کر کھانا تھا ، اس کی وجہ سے ملک کمزور ہوا۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے این آر او کے خلاف عدالت میں پٹیشن بھی دائرکی تھی اوراس کا جو حشر ہوا وہ سب جانتے ہیں۔ 
آج مزدوروں کے دن کے موقع پر ڈاکٹر صاحب کی یاد آنا فطری تھا۔ ایک وقت تھا جب پی پی پی کی صفوں سے انقلاب کی آواز آتی تھی۔ مزدور، دہقان ، ہاری اوردوسرے ملازم پیشہ افرادکو بھٹوکی صورت میں ایک مسیحا نصیب ہواتھا ۔ ہماری تاریخ کے وہ لمحات بہت قیمتی تھے اور ایسا لگتا تھا کہ عام آدمی کی زندگی بدلنے والی ہے، لیکن وا حسرتا ! مقبولیت حاصل کرنے کے بعد پی پی پی نے اپنے لیے جو منزل تراشی، وہ ہماری تاریخ کاافسوس ناک باب ہے۔آج بھی مزدوروں اوردہقانوں کو بھٹو صاحب کی یاد آتی ہے، وہ کچھ سوچتے ہیں اور سرجھٹک کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور پھر ساحرکی قلمی جادوگری کے کیا کہنے۔۔۔۔'' ہم نے ہردور میں محنت کے ستم جھیلے ہیں، ہم نے ہر دور کے ہاتھوںکو حنا بخشی ہے‘‘۔ آئیے ، اپنے شہداء کے ساتھ ساتھ اپنے مزدوروں کوبھی سلام پیش کریں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں