عقل اور سیاست

پاکستانی عام انسانوں کو ہیرو بنانے کا فن جانتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ امید رکھتے ہیں کہ ان کے ٹکسال کردہ ہیرو ہی ان کی نجات کا ذریعہ بنیں گے؛ تاہم ہوتا ہے کہ جیسے ہی ہیرو صاحب اقتدار کی سیڑھی چڑھتے ہیں، عزت اور عقل سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ قیاس اغلب ہے کہ اس بلندی پر یہ چیزیں کچھ بوجھ محسوس ہوتی ہوں گی‘ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے سوا۔۔۔ ''اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا‘‘ قائدین کی ہمیں کبھی قلت نہیں رہی اور اُن کی طرف نعروں اور وعدوں سے بھی ہمارا دامن کبھی تہی نہ رہا؛ تاہم کچھ دیر بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانی کچھ اور بھی مایوس ہو جاتے ہیں۔ دراصل سیاسی معروضات کو جذبات، نہ کہ عقل، کے ترازو پر تولنے کا یہی انجام ہوتا ہے۔
نومبر 2011ء میں عمران خان ایک ابھرتے ہوئے ستارے تھے۔ تمام لوگ اُنہیں تبدیلی کی علامت کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ لاہور کا جلسہ دیکھ کر دیگر کالم نگاروں کی طرح محترم ایاز امیر بھی ''ڈول‘‘ گئے تھے اور ہر کوئی خان صاحب کی صورت میں ایک نیا پاکستان تعمیر ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا؛ تاہم میں محتاط نظروںسے ٹی وی سکرین پر وطن میں جاری ولولہ انگیز تبدیلی کے اشارے دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کیا واقعی؟ اس دوران میں نے کچھ قارئین سے پوچھا کہ کیا ان کے خیال میں عمران خان کھرے افراد کی شناخت کر سکتے ہیں اور کیا وہ کھوٹے سکوں کو اپنے پاس بھی نہیں پھٹکنے دیںگے اور یہ کہ آیا اُن کے سونامی کو ''الیکٹ ایبل‘‘ افراد کی حاجت نہیں؟۔ یہ مانا کہ عمران کا دامن ان سیکنڈلز سے پاک تھا جو ہمارے روایتی سیاست دانوں کا خاصا ہیں‘ (مراد مالی بدعنوانی) لیکن یہ سوچ بھی دل میں جاگزیں تھی کہ وہ ریاستی معاملات اور امور جہاں بانی سے ہنوز نابلد ہیں۔ اگر وہ واقعی کوئی مسیحا ہیں تو بھی ہمیں کچھ انتظار تو کرنا ہی پڑے گا کیونکہ انقلابی قوتیں بھی بہرحال جادوگر نہیں ہوتیں۔ ابھی تو یہ دیکھنا بھی باقی تھا کہ ان کو بے داغ افراد کی ٹیم کہاں سے ملے گی؟ کون سے پاک دامن سیاست کے خارزاروں میں قدم رکھتے ہوئے اُنہیں وزارت عظمیٰ تک پہنچائیں گے؟
درحقیقت زندہ کرداروں کو حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ نہ زندگی ایک فکشن ہے اور نہ سیاست کوئی الف لیلیٰ ہے۔ اس میں تلخ حقائق سے مفر ممکن نہیں۔ میرا موقف تھا کہ اگر مثالی سچے کردار کے پیمانے پر انسانوں کی پرکھ کی جائے تو شاید کوئی بھی پورا نہیں اترے گا۔ ہمارے پاس ماضی قریب کی بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب عمران نے مشرف کے ساتھ وفاداری جتائی تھی۔ اس وقت ایسا لگتا تھا کہ تمام جمہوریت پسند سیاست دان جنرل صاحب کی کشتی میں سوار ہونا چاہتے ہیں۔ اگر عمران خان بعد میں آنے والے حالات کا ادراک کرنے کے قابل ہوتے تو ان کے لیے اس کشتی میں سوار ہونے کی بجائے ڈوب جانا بہتر تھا۔ 
پاکستانی سیاست کا جائزہ لینے سے پہلے ایک بات فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ سیاسی رہنمائوں میں ندامت نامی کوئی چیز نہیں۔ صرف یہی نہیں، ان کی یادداشت اور عقل زیادہ دور تک ساتھ نہیں دیتی۔۔۔ خیر اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ گجرات کے چوہدری صاحبان کی جماعت کو زرداری صاحب نے ''قاتل لیگ‘‘ قرار دیا اور پھر چھوٹے صاحب کو نائب وزیر اعظم بھی بنا دیا۔ زردای صاحب کی بات اور تھی، چوہدری صاحب نے بھی اس میںکوئی قباحت محسوس نہیں کی۔ ایپل کمپیوٹر کے موجد سٹیو جوبز، جو اب شاید دنیا سے بہت بہتر جگہ پر ہوں گے، کا کہنا ہے۔۔۔ ''اگر کسی کام نے بگڑنا ہے تو وہ بگڑ کر رہے گا، آپ کچھ نہیں کر سکتے‘‘۔ یہ بات ہمارے ایک سیاست دان پر صادر آتی ہے۔ اگر کسی معاملے کے دو پہلو ہوں، ایک میں فائدہ ہو اور دوسرے میں نقصان تو وہ نہایت سوچ بچار (اکیلے) کے بعد دوسری راہ اپنائیں گے۔ یہی نہیں، اس پر ڈٹے بھی رہیں گے۔ انہوں نے اپنے اردگرد جو افراد جمع کر رکھے ہیں، وہ بھی انہیں یہی مشورہ دیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ سب لوگ ایک اچھے انسان کو گرتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور کچھ دل ہی دل میں خوش بھی ہو رہے ہیں۔ جب مسعود شریف خٹک نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تو میں نے انہیں ای میلز کے ذریعے پوچھا تھا کہ کیا عمران خان کے ساتھ بدعنوان لوگ شامل نہیں ہو رہے تو اُنہوں نے واشگاف الفاظ میں جواب دیا کہ ایسے افراد کی پی ٹی آئی میں کوئی جگہ نہیں؛ تاہم پھر وہ خاموشی سے پی ٹی آئی سے نکل گئے۔
کیا ہماری سیاست کا ماحول ہی ایسا ہے کہ یہاں جو بھی آئے گا، اسی رنگ میں رنگ جائے گا؟ جمہوریت آگے بڑھنے کا نام ہے اور اگر ہم ہر تبدیلی کے نام پر اسی حمام گرد باد کے اسیر رہتے ہیں تو پھر کیا انتخابات اور کیا انتقال اقتدار۔ دیگر ممالک میں جمہوری عمل بھی مکمل طور پر شفاف نہیں۔ ڈاکٹر سنگھ کی کابینہ میں بہت بڑے سکینڈلز نے جنم لیا۔ کچھ کے حجم نے تو بھارت کو ہلا کر رکھ دیا؛ تاہم گزشتہ انتخابات میں بھارتی عوام نے احتساب کر دیا۔ اب مودی سرکار کے پاس موقع ہے کہ وہ کچھ کرے۔ اگر نہیں تو پانچ سال کا عرصہ زیادہ نہیں ہوتا اور راہول گاندھی ابھی صرف چالیس کے لگ بھگ ہیں۔ یہ سیاست میں کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہوتا۔ ایک بات طے ہے کہ ہمارے ہمسائے میں جمہوری عمل آگے بڑھ رہا ہے اور اسی پر ملکی ترقی اور استحکام کی بنیاد ہے۔ 
ہمیں ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان انقلابی تبدیلیوں کے لیے نہیں بنا۔ لندن میں ہونے والے ''اجتماع‘‘ کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں کوئی ہنگامہ خیز تبدیلی پرپا نہیں ہو گی بلکہ جمہوری عمل کے ذریعے ہی بہتری کی کوئی نہ کوئی صورت نکل آئے گی۔ کچھ شور مچانے کو جی چاہتا رہے تو بسم اﷲ، آجائیں۔ موجودہ حکومت بھارت کے ساتھ معاملات کو اچھی طرح آگے بڑھا رہی ہے؛ تاہم کچھ افراد اس پر بھی سیاست کر رہے ہیں۔ ان کہنا ہے کہ جب تک کشمیر سمیت تمام معاملات ہماری مرضی کے مطابق طے نہیں پا جاتے، ہمیں بھارت کے ساتھ تجارت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمارے مذہبی اور سیاسی حلقے ابھی تک یہ امید لگائے ہوئے ہیں کہ ہم بھارت سے بزور بازو کوئی بھی بات منوا سکتے ہیں؟
ہم یہ توقع نہیں کر سکتے کہ ہمارے سیاسی حلقوں میں نابغہ ٔ روزگار شخصیات اپنی جگہ بنا لیں اور ہم بھی چرچل اور ہنری کسنجر جیسے ذی فہم افراد کو اپنے ایوانوں میں دیکھیں‘ لیکن بات یہ ہے کہ حماقت کا کچھ ''معیار‘‘ کم ہو جائے تو کیا حرج ہے؟ آخر عقل میںکیا قباحت ہے یا اس نے اب تک ہمارا کون سا قومی نقصان کر دیا ہے جو ہم اس پر سیاست کے دروازے بند کیے ہوئے ہیں۔ خدا بہت رحیم ہے، ہمیں بھی رحم کرنا چاہیے اور عقل بے چاری کا گناہ معاف کر دینا چاہیے۔ میکاولی نے کہا تھا۔۔۔ ''سیاست کو اخلاقیات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا‘‘۔ تاہم یہ بات اُس ذہین شخص نے عقل کے بارے میں نہیں کہی تھی۔ چلیں کچھ اخلاقی خامیوںکو ذاتی قرار دے کر اغماض کیا جا سکتا ہے کہ یہ فرشتوں کی دنیا نہیں لیکن دنیا کے جس خطے میں ہم رہ رہے ہیں۔۔۔ جس میں ایک طرف مودی، دوسری طرف عبداﷲ عبداﷲ جبکہ طالبان کی طرف سے بھی حملوں میں شدت آ چکی۔۔۔ کج فہمی کی عیاشی کے امکانات سمٹتے جا رہے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں