رمضان اور صبر

زندگی کی مصروفیات میں کچھ توقف کیجئے، میرا مطلب ہے کہ عارضی طور پر۔ سال کے گیارہ ماہ اپنی اور اپنے ارد گرد دیگر افراد کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ایک ماہ روح کی بالیدگی کے لیے وقف کردیں۔ روزہ رکھنا آپ کا ذاتی فعل ہے اور اس کا تعلق خدا سے ہے، کسی کو اس سے کوئی تغرض نہیںہونا چاہیے لیکن اجتماعی روحانی سکون کا سامان بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کا تعلق افراد کی بجائے معاشرے سے ہے۔ کیا ایک معاشرے پر بھی رمضان کی آمد سے کچھ تغیر دکھائی دینا چاہیے یا نہیں؟
ایک ایسے ملک میں جہاںخوشی کا مطلب روپے اور تعیشات کا مطلب راحت ہو، وہاںزندگی کا روحانی پہلو عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ آئینی تحفظ، اظہاررائے، مذہب اور روابط کی آزادی اور میڈیا کی قوت کے ساتھ امریکی اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنے کے خواہشمند رہتے ہیں۔وہ اپنی خواہشات کے آگے کوئی قدغن نہیں لگاتے، تاوقتیکہ ملکی قانون اس راہ میں مزاحم نہ ہو۔ دوسری طرف پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں سیاست دانوں کی الزام تراشی اور بیان بازی کی مشق جاری رہتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگرا س مہینے میں میڈیا بھی ''روزہ ‘‘ رکھ لے۔ اس کا مطلب علما کو بلا کر پروگراموں کے دربار سجانا نہیں بلکہ کم از کم اس ایک ماہ میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش میںکوئی حرج نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ افاقہ ہوجائے اور پھر سارا سال یہ عادت راسخ ہوجائے۔ 
ماہ ِ رمضان میں ہمارا برتائو کیسا ہونا چاہیے؟ دولت مند افراد کو پرتعیش افطار پارٹیاں دینے کی بجائے محض خداکی خوشنودی ، نہ کہ دکھاوے، کی خاطر غریب اور حاجت مندوں کی ضروریات پوری کرنی چاہئیں۔ اُنہیں بل گیٹس اور وارن بوفے(Warren Buffet) جو دنیا کے امیر ترین افراد ہیں، سے سبق سیکھنا چاہیے کہ یہ افراد دکھاوا کرنے کی بجائے دنیا سے غربت اور بیماری ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اُن کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ایسے ہی کاموں میں صرف ہوتا ہے۔ میں اس ماہ میں رحم دلی اور رفاہ ِ عامہ پر زور دیتی ہوں کہ اس مہینے کے دوران ہمیں انسانی بھلائی کے زیادہ سے زیادہ امور سرانجام دینے چاہئیں اورپھر یہ کوئی مغربی اقدار نہیں، اسلام بھی ان کی تلقین کرتا ہے اور تقریباً تمام مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ غریب افراد کی مدد کرنی چاہیے۔یوں تو سارا سال ہی غریب افراد کا خیال رکھا جانا چاہیے لیکن اس کی شروعات کرنے اور باقی زندگی اس کوشش میں بسر کرنے کے وعدے کے لیے رمضان سے بڑھ کر کوئی مہینہ نہیں۔ 
اس دنیا کی لذتیں عارضی ہیں لیکن دوسری دنیا کی دائمی اور لامحدود۔ حضرت ابوذر غفاری ؓ سے بیان منقول ہے ۔۔۔''ایک شخص کی جائیداد کے تین حصہ دار ہیں۔۔۔ دنیا، اس کے ورثا اور وہ خود۔کچھ چیزیں وہ شخص اس دنیا میں ہی استعمال کرلیتا ہے، کچھ ورثا کے لیے باقی رہ جاتا ہے لیکن جو مال اس شخص نے خیرات کیا ہو، وہی آخرت میں کام آتا ہے۔‘‘میں پندرہ برس سے امریکہ میں مقیم ہوں۔ میرے گھر کے نزدیک ایک اسلامک سنٹر ہے۔ یہاں رمضان میں عام لوگوں سے لے کر متمول افراد تک نماز ادا کرنے آتے ہیں۔ خاص طور پر رمضان میں یہاں بہت زیادہ رش ہوجاتا ہے۔ ایک فرم میں کام کرنے والے سعید بٹ کا کہنا ہے۔۔۔'' دیار ِ غیر میں روزہ رکھنا بہت عمدہ تجربہ ہے۔ خدا کا کہنا ہے کہ 'روزہ میرے لیے ہے اور اس کا اجر بھی میں ہی دیتا ہوں‘۔ روزے کے دوران روحانی سکون کے علاوہ فنانس اور وقت کی مینجمنٹ کی بھی عادت پڑتی ہے۔ ہمیں یہ بھی احساس ہوتاہے کہ ہمیں اپنا کھانا اور وسائل دوسرے کے ساتھ بانٹنے چاہئیں‘‘۔ بٹ صاحب ذہین اور دولت مند شخص ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ خودنمائی نہیں کرتے۔ اُنھوںنے Ivy League سکول سے تعلیم حاصل کی اورامریکہ کے اہم ترین افراد کے ساتھ کام کرنے کا موقع پایا۔تاہم اب ان کا کہنا ہے کہ روحانی زندگی کی تشنگی کا احساس بڑھ رہا ہے۔ یہ احساس یقینا ایک مثبت خلش ہے اور دل کی زندگی کا ثبوت ہے۔ ورنہ مشینوں کی اس دنیا میں دل کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
بٹ صاحب کی قرآن ِحکیم پر بھی گہری نگاہ ہے۔ جب بھی ملاقات ہوتی ہے وہ آیات کے حوالے ضرور دیتے ہیں۔ گزشتہ ملاقات میں اُنھوںنے پنجابی صوفی شاعر بلھے شاہ کی ایک کافی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام میں زندگی کی ہر جستجو کا جواب مل جاتا ہے۔ 
زندگی میں لذت بھی ہے، سخت کوشی بھی اور پھر اس پر نگاہ رکھنے کے لیے مذہب۔ یہ ایک سادہ سی مساوات تھی لیکن ہم نے اپنے وطن میں یہ کتنی مشکل بنادی ہے۔ اگرصوفیا کے کلام کا مطالعہ کریں تو مذہب کی انسان دوست شکل نمودار ہوتی ہے ،لیکن اگر شدت پسندوں کے تشریح کردہ مذہب کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ یہ سماج دشمن ہے۔ آج ہمارا معاشرہ بہت سی غیر ضروری چیزوں میں الجھا ہو ا ہے۔ اس ماہ کے دوران ان سے اجتناب ہوجا ئے تو کیا ہی اچھاہو۔ پوری قوم کو یکسو ہو کر شمالی وزیرستان سے ہجرت کر کے آنے والے افراد کی مدد کرنی چاہیے۔
مشہور اخبار اکانومسٹ لکھتا ہے۔۔۔'' ہم ان چیزوں میں زیادہ وقت گزار دیتے ہیں جن کی زیادہ اہمیت نہیں تھی۔ اگر ہم اپنا وقت بچا سکیں تو ہم اپنی زندگیوں میں بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔‘‘ شاید یہ احساس ہمیں بہت دیر بعد ہوتا کہ زندگی کا روحانی پہلو نظر انداز نہیںکرنا چاہیے تھا۔ جسمانی سہولیات کے لیے اتنا وقت گزار دیتے ہیں کہ جب شام ہوتی ہے تو گھر جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ اگر ہم جاپانیوں کی زندگی کو دیکھیں تو اگرچہ وہ بہت دولت مند ہیں لیکن ان کی زندگی اسراف سے پاک ہے۔ لگتا ہے کہ اس قوم نے مجموعی طور پر دائمی روزہ رکھا ہوا ہے۔ تاہم ہمارے ہاں روزے میں سب سے پہلے جو چیز غائب ہوجاتی ہے وہ صبر اور برداشت ہے۔ افطاری سے کچھ دیر پہلے سڑک پر آنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ ہر شخص اتنی عجلت میںہوتا ہے کہ وہ کسی کی پروا نہیں کرتا ۔ ایسا لگتا ہے کہ زندگی کو برقی پر لگ گئے ہیں۔ ہر شخص جی بھر کے شاپنگ کرتا ہے۔ اس ایک ماہ میں تاجر طبقہ بھی دولت کو ثواب سمجھ کر سمیٹتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ کل سورج طلوع نہیںہونا۔ 
اب روزے کا مقصد تو برداشت اور استقامت سکھانا تھا لیکن اس مہینے میں ہم ایسا کچھ نہیں سیکھتے۔ سرکاری دفاتر میں تو رمضان بہت زیادہ طاری ہواہوتا ہے۔ آپ کسی دفتر چلے جائیں اورکرسی پر نیم دراز ، بلکہ نیم خواب شخص کو کچھ کہہ کر دیکھ لیں۔ اس کو جس کام کے عوض تنخواہ ملتی ہے، یقینا اُسے ٹالنے کے لیے روزے کا بہانہ نہیں کیا جاسکتا۔ سب سے آخر میں، رمضان میں رزقِ حلال پر گزارہ کرنا شاید سب سے بڑا امتحان ہے۔ کیا ہماری قوم اس مرتبہ انفرادی روزوںکے ساتھ ساتھ اجتماعی روزے بھی رکھے گی؟ کیا اس مرتبہ بازاروں، سڑکوں اور دفتروں میں دکھائی دے گا کہ یہ ماہ ِ رمضان ہے؟ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں