اقتدار اور موسم کی تبدیلی

بارہ مئی 2013ء کو دارالحکومت اسلام آباد میں آسمان مہربان تھا۔ موسلادھار بارش ہوئی، سڑکیں دھل گئیں، سبزہ نکھر گیا، ذرا سی دھوپ نکلی تو بارش کے قطرے در ِ ناسفتہ (مولانا ظفر علی خان کی ترکیب ہے)کی طرح برگ و بار پر گہرتاباں ہوئے ۔ مارگلہ کی پہاڑیاں نوخیز دوشیزائوں کی طرح سرشار جبکہ پوٹھوہار کی مہک میں بسی پنجاب کے میدانوںسے آنے والی ہوائیں لہراتی شاخوں سے سُر تال پیدا کرنے لگیں۔ فطرت کی مشاطہ اعلان کررہی تھی کہ یہ ایک نیا پاکستان ہے۔ 
اُس نئے پاکستان کے سیاسی اوراق پر لکھی جانے والی داستان میں نئے کرداروں کا اضافہ ہوچکا تھا، اس لیے نئی کہانی کی شروعات عین ِ فطرت تھی۔ وہ شخص جس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لالچ میں این آر او کی گنگا میں انصاف کو بہا دیا تھا، اب اپنے وسیع و عریض فارم، جسے سب جیل قرار دیا گیا تھا، میں پابند ہو چکا تھا جبکہ تیسری مدت کے لیے وزارت عظمیٰ پر سرفراز ہونے والے کے استقبا ل کی تیاریاں مکمل تھیں۔ اس منظر سے پہلے پرویز مشرف نے متعدد مرتبہ قوم کو یقین دلایا تھا کہ اب وہ '' بدعنوان‘‘ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو واپس سیاست میں کبھی نہیں آنے دیں گے اور بقول گجرات کے چوہدری صاحب، درجنوں مرتبہ وردی میں منتخب کر لیا جائے گا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ پنجاب کے سابق وزیر ِ اعلیٰ کو مشورہ بھی دیا گیا کہ وہ ابھی صبر کریں۔۔۔''آپ کو شوکت عزیز کے بعد موقع دیا جائے گا‘‘۔ تاہم 2013 ء میں نواز شریف بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار کے سٹیج پر موجود تھے۔ اس سے پہلے پی پی پی حکومت پانچ سال پورے کرچکی تھی۔
قسمت کا قلم اپنی کہانی لکھتا رہتا ہے۔ اس کی تحریر آپ کی عقل یا پر ہیزگاری سے متاثر نہیں ہوتی ، اس کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں ۔ آپ کے تمام تر دعوے یا آنسو اس کا ایک لفظ بھی بدل نہیں سکتے۔ تاہم سیاست میں ایک اور ہلچل بھی ہویدا تھی۔ گزشتہ انتخابات میں بہت سے نوجوان، جو سیاسی عمل سے لاتعلق رہتے تھے، نواز شریف کی بجائے عمران خان کے لیے گھر سے باہر نکلے تھے۔ اُنھوںنے پولنگ بوتھ کا رخ کیا اور اپنا حق ِ رائے دہی استعمال کیا تھا اور ان کی آنکھوںمیں بھی ویسی بھی چمک تھی جو اسلام آباد میں بارش کے بعد سبزہ ِ نورستہ میں دکھائی دے رہی تھی۔ ان کے لبوں پر بھی ''نیا پاکستان‘‘ کا نعرہ تھا، ان کے دلوں کی دھڑکن بھی برہم ہوتی جارہی تھی اور سیاسی ہوش پرجوش کا غلبہ تھا۔ کیا ان کی شکستگی گوارا ہے؟کیا یہ لوگ مایوسی کی دھند میں کھو جائیں؟ تاہم اب انہیں پھر لانگ مارچ کی کال دی جارہی ہے؟ اس مرتبہ ان کا رد ِ عمل کیا ہوگا؟
تاہم جب رت بدلنے لگی اور موسم اپنی سختی دکھانے پر آمادہ ہوا ، تین سو سے زائد دن چشم زدن میں بیت گئے اور نواز شریف نے اپنی کابینہ کوویسے ہی افراد سے بھر لیا جن سے کسی معقول مشورے کی توقع عبث تھی۔ اسے ہماری روایتی سیاست میں کچن کیبنٹ کہا جاتا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ ایک کمرے میں چار مست ہاتھی گھس آئے ہیںاور مسٹر شریف نے ان سب کو رام کرنا تھا۔ یہ چار ہاتھی توانائی کا بحران، معیشت، بے روزگاری اور دہشت گردی تھے جبکہ حکومت ان سب کو پیار سے پچکارتے ہوئے سمجھا بجھا کر آرام سے بیٹھنے کی التجا کررہی تھی۔ ہاتھی کی زبان کسی کو بھی نہیں آتی تھی، لیکن وقت گزارنے کے لیے کچھ کہنے میں کیا ہرج ہے؟
کہا گیا کہ پاکستان کو تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے نواز شریف نے خود کو بدلنا تھا اور سب جانتے ہیں کہ تبدیلی کا سفر خود شناسی کا تقاضا کرتا ہے۔ خود شناسی کے لیے خوشامدیوںسے دوری درکار تھی لیکن کیا کیا جائے، اس کے بغیر ''بھری دنیا میں جی نہیں لگتا‘‘۔ اب نواز شریف خود بھی ایک رئیس صنعت کار ہیں۔ ان کا شمار دنیا کے دولت مند ترین حکمرانوں میں ہوتا ہے۔ تاہم اُنہیں ایک کریڈٹ دیا جا سکتا ہے کہ وہ کاروبار کے تقاضے سمجھتے ہیں۔ تاہم ستم یہ ہے کہ وہ اس علم کو اپنی حکومت پر لاگو کرنے کی کوشش
نہیں کرتے۔ ماضی میں وہ ایک مرتبہ سیلز ٹیکس کے خلاف لبرٹی مارکیٹ، لاہور کے تاجروںکے ہمراہ احتجاج کرتے بھی دکھائی دئیے تھے۔ ایف بی آر کے سربراہ معین خان نے مجھے کئی سال پہلے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وزیر ِ اعظم نے حکم دیا تھا کہ لگائے گئے ٹیکس کو فوری طور پر واپس لے لیا جائے ۔ جب معین خان نے دیکھا کہ وہ یہاں کام نہیں کرسکتے تو اُنھوںنے واپس برطانیہ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ تاریخ خود کو جلد ہی دہرالیتی ہے۔ اس مرتبہ علی ارشد حکیم ٹیکس چور گروہ کا شکار ہوئے۔ لندن کے سنڈے ٹیلی گراف نے لکھا۔۔۔'' پاکستان کے گدلے سیاسی ماحول میں مسٹر حکیم کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ لوگوں کو زیادہ ٹیکس دینے پر مجبور کرسکتے۔‘‘درحقیقت اس شعبے میں ہمیں دیانت دار افراد درکار نہیں ہوتے کیونکہ ٹیکس چوری کا ارتکاب عوام نے نہیں، خواص نے کرنا ہوتا ہے۔ 
گیارہ مئی کے انتخابات سے پہلے وزارتِ عظمیٰ کے بہت سے امیدوار تھے۔ روایتی میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا میں جنگ شدت اختیار کرتی جارہی تھی۔ میدان میں قدرے تاخیر سے کودنے والے نوجوان بلاول بھٹو تھے۔ اُنھوںنے نصف صفحے کے اشتہار میں قوم سے سوال کیا کہ old geezers کو ووٹ کیو ں دیا جائے۔۔۔ (نواز شریف 63، عمران خان60 اور سید منور حسن 69 سال کے تھے)۔ اُنہوںنے کہا کہ قوم ایک چوبیس سال کے نوجوان کی طرف دیکھے۔ تاہم قوم کے پاس دیکھنے کے لیے وقت نہیں تھا، وہ لوڈشیڈنگ کی ستائی ہوئی تھی، اس لیے اُس نے دوٹوک فیصلہ سنا دیا۔ 
پارلیمانی جمہوریت نے اٹھارویں ترمیم کو ختم کردیا، صدر کی طاقت کم ہوگئی اور وہ اب پارلیمنٹ کو تحلیل نہیں کر سکتے تھے۔ زرداری صاحب پیوٹن تو نہیں بننا چاہتے تھے لیکن انہیں کم از کم یہ توقع نہیں تھی کہ ان کی جماعت کے ساتھ یہ کچھ ہوگا۔ ایک ملک گیر جماعت کی بجائے پی پی پی اندرون ِ سندھ کی جماعت بن کر '' ابھری‘‘ تھی جبکہ اس کے رہنما نجی محفلوں میں ایک دوسرے کو شکست کا موجب قرار دے رہے تھے۔ تاہم پی پی پی کو اب انتظار بھی کرنا ہے اور اپنا احتساب بھی۔ وہ احتساب نہیں جو مخالف جماعتیں ان کا کرنا چاہتی ہیں بلکہ اُنہیں خود احتسابی کے عمل سے گزرتے ہوئے دیکھنا ہے کہ بدلتے ہوئے نئے پاکستان میں شخصیت پرستی کی کتنی کشش باقی ہے۔ اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جس طرح2008 ء میں کامیابی کے بعد زرداری صاحب نے رسمی طور پر میاں نواز شریف کو حکومت سازی کی دعوت دی تھی، کیا نواز شریف پی پی پی کے صدر کو اپنے ساتھ لے کرچلنے کے لیے تیار دکھائی دیںگے؟ آنے والے ہفتوں میں انہیں اس بات کی ضرورت محسوس ہوگی۔ اس کے لیے شاید سیاسی انا کے خول سے بھی باہر آنا پڑے لیکن چونکہ حالات خراب ہوتے جارہے ہیں اور اگرچہ شنید ہے کہ اسلام آباد کی سڑکیں کھود ڈالی گئی ہیں لیکن لگتا ہے کہ مارچ ہوگا اور اگست میں نئے گل کھلیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ زرداری صاحب کا وزن بڑھ جائے گا۔ تاہم اسحاق ڈار دوبلین ڈالر واپس لانے کی نوید بھی سنا رہے ہیں۔ اس کا کیا بنے گا؟
رحمن ملک بھی سیاسی اکھاڑے میں کود پڑے ہیں۔ اُنھوںنے اننگز کا آغاز غزہ سے کیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اُنھوںنے بھی کچھ اہم افراد کے حلفیہ بیانات کی فوٹو کاپیاں لہرائی تھیں۔ان کا دعویٰ تھاکہ وہ شریف خاندان کی مبینہ طور پر بیرونی ممالک کے بینکوں میں چھپائی ہوئی دولت واپس لانے میں کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کا کیا بنا؟ شاید ملک صاحب اپنی بے پناہ مصروفیت کے باعث ایسا کرنا بھول گئے تھے۔ بہرحال واقفان ِحال کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار کو دیکھ کر ملک صاحب کی یاد ستاتی ہے۔ خیر یہ ہماری قوم کی پرانی بیماری ہے کہ کسی کے جانے کے بعد اُس کی یاد ستانے لگتی ہے۔ یہ سلسلہ ایوب خان سے شروع ہوا تھا اور اس کا خاتمہ ہونا ہنوز باقی ہے۔ کیا ہماری سیاسی تنزلی کا سفر کبھی ختم ہوگا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں