کرکٹ اور سیاست

پیٹر اوبورن(Peter Oborne) کی کتاب،''زخمی شیر، پاکستانی کرکٹ کی تاریخ ‘‘ دراصل پاکستانی سیاست کے متوازی قرار دی جاسکتی ہے۔ اس کتاب میں پاکستانی کرکٹ کی تاریخ، اس کی 1954ء میں اوول میں شاندار فتح ، میلبورن میں ورلڈکپ کی فتح سے لے کرمیچ فکسنگ کے افسوس ناک واقعات کا ذکر ملتا ہے۔1992ء کے و رلڈکپ کی جیت میں‘ مین آف دی میچ وسیم اکرم تھے لیکن ٹیم کی قیادت عمران خان کررہے تھے۔ وسیم اکرم، جنہوںنے اُس میچ میں ناقابل ِ یقین حد تک تیز رفتار سوئنگ بائولنگ کی تھی، نے بعد میں مبصرین کو بتایا کہ اُنہیں عمران کی ہدایت تھی کہ وائیڈ اور نو بال کی خیر ہے، گیند کی رفتار کم نہ ہونے پائے۔ عمران کو 2010ء میں آئی سی سی نے کرکٹ ہال آف فیم میں جگہ دی۔ اس طرح وہ کرکٹ کے لیجنڈری کھلاڑیوں میں شامل ہوگئے۔ تاہم آج ان کے سامنے ایک اور میچ درپیش ہے۔ ایک اور میدان میں جہاں ان کا فیصلہ بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ 
آج عمران سیاست میں تبدیلی کاعزم لے کر نکلے ہیں۔ سیاست میں تبدیلی ہوتی ہے، لیکن انقلاب تو سیاست کے دریچوں سے داخل نہیںہوسکتا، اس لیے حیرت ہے کہ آج انقلاب بھی ان کے ہم قدم ہے۔ وہ اس میدان میں نووارد نہیں، بلکہ گزشتہ پندرہ برسوں سے وہ اس دشت نوردی میں مصروف ہیں۔ اُن کا تازہ ترین مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف استعفیٰ دے دیں کیونکہ ان کو ملنے والا مینڈیٹ ''جعلی‘‘ تھا۔ اس وقت وہ اور ان کا آزادی مارچ اسلام آباد پہنچ چکا ہے۔ ان کے تئیں شرکا کی تعداد لاکھوں میں ہے جبکہ ان کے حریف صرف چند ہزار افراد کو ہی ان کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اس دوران ٹی وی اینکرز بھی رات دن ایک کیے ہوئے ہیں کہ اس مارچ کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن صرف خدا ہی جانتا ہے کہ کیا ہو گا۔ کچھ مبصرین کا خیال (بلکہ خواہش) ہے کہ کسی تیسری طاقت کی مداخلت خارج ازامکان نہیں۔ بہرحال میڈیا میں خبر کو خواہش کا میک اپ نہیںکرنا چاہیے اور نہ ہی تبصروں میںداخلی خواہشات کو خارجی عوامل پر غالب آنا چاہیے۔ ایک بات طے ہے کہ انسانوں کو غیب کاعلم نہیںہوتا اور نہ ہی کوئی ایسی آنکھ ہے جو ٹی وی سکرین پر کچھ مناظر دیکھ کر ہجوم کی تعداد گن سکے۔ 
اس کالم میں ، میں اپنے قارئین کے ساتھ سیاست اور کرکٹ کے تعلق کی وضاحت کرنا چاہتی ہوں۔ میرے ساتھ ماضی کا سفر اختیار کریں اور ہم آپ کو لیے چلتے ہیں ساٹھ سال پہلے اوول کے میدان میں جہاں پاکستان کی کمزور سی دکھائی دینے والی ٹیم انگلینڈ کی طاقتور ٹیم کی حریف ہے۔کیلنڈر پر نظر ڈالیں۔۔۔ ایک حیرت آپ کی منتظر ہے۔ جی ہاں یہ تیرہ اگست 1954ء ہے(لانگ مارچ شروع ہونے میں ایک دن رہ گیا ہے) اور بہت سے محمود الرشید ڈھول کی تھاپ پر رقصاں دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان نے ایک فاسٹ بائولر (فضل محمود) کی لاجواب بائولنگ کی بدولت انگلینڈ کے خلاف تاریخی فتح حاصل کی ہے۔ میں بھی میدان میں موجود ہوں، اگرچہ بہت کم عمر لیکن یہ مناظر، یہ چہرے، یہ جوش زندگی بھر یادوںکے طلسم کدے میں زندہ رہیں گے۔ فانی انسانوں کے ساتھ بھی کچھ لافانی زندگی ہوتی ہے۔ 
عثمان سمیع الدین کا ESPN Cricinfo کے لیے لکھا گیا ایک طویل مضمون میری یادیں تازہ کررہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ساٹھ سال پہلے فضل محمود کی سوئنگ بائولنگ نے پاکستان کے لیے یادگار فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ سمیع الدین لکھتے ہیں کہ کپتان عبدالحفیظ کاردار متعصب برٹش میڈیا کی پاکستانی ٹیم کے بارے میں ہرزہ سرائی کا میدان میں جواب دینے کے لیے پرعزم تھے۔ دی ٹائمز اور بی بی سی جیسے میڈیا ہائوسز کا خیال تھا کہ انگلینڈ کو ایک نحیف وناتواں ٹیم کا کچھ ''لحاظ ‘‘ کرتے ہوئے ہاتھ ہولا رکھنا چاہیے۔ میرے والد سید فدا حسین اُس ٹیم کے منیجر تھے، اس لیے میں بھی کم عمری میں اس ٹیم کے ساتھ تھی۔ ایک فنکشن میں ہماری ٹیم کو کسی افسر نے rabbits قرار دیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس کے کھلاڑیوں کو کھانا کھانے کے بھی آداب نہیں آتے۔ اُس وقت مسٹر کاردار اور فضل محمود کے درمیان کچھ تنائو بھی موجود تھا ۔ کچھ کھلاڑی جیسا کہ محمود حسن اور مقصود احمد مسٹر کاردار کے حامی تھے جبکہ حنیف محمد اور ان کے بھائی وزیر محمد فضل محمود کے ساتھ تھے۔ ان کے درمیان ڈرائنگ روم میں زبانی تلخ کلامی بھی ہوچکی تھی اور ٹیم کے منیجر کواکثر مواقع پر مداخلت کرنا پڑتی تھی، لیکن سید فداحسین کسی گروپ کی واضح حمایت نہیں کرسکتے تھے۔ تما م پریس کی ہم پر نظر تھی۔ سید فدا حسین کی تقرری گورنر پنجاب میاں امین الدین نے کی تھی اور اُنہوں نے کسی کو شکایت کا موقع نہیں دینا تھا۔ 
کپتان کاردار وزیر محمدکو ڈراپ کرنا چاہتے تھے کیونکہ پہلے میچوں میں ان کی کارکردگی اچھی نہ تھی۔ اس کے علاوہ ان سے کچھ اہم کیچ بھی ڈراپ ہوئے تھے۔ تاہم میرے والد، فضل محمود اور نائب منیجر مسعود صلاح الدین نے کاردار پر دبائو ڈالا اور وزیر محمد کو ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔ میچ کے نتیجے نے ثابت کیا کہ اگر وزیر محمد کو شامل نہ کیا جاتا تو فضل محمود کی بائولنگ کے باوجود پاکستان میچ نہیں جیت سکتا تھا۔ اُنہوں نے ناقابلِ شکست بیالیس رنز سکور کیے تھے۔ بعد میں کہا گیا کہ ان کے علاوہ کوئی بھی انگلش بائولر ٹائی سن کا سامنا نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے بعد کپتان کاردار نے بھی اپنی غلطی تسلیم کی کہ وزیر کو ڈراپ کرنا حماقت ہوتی۔ 
آج ساٹھ سال بعد بھی کوئی کپتان اپنی غلطی تسلیم کرے گا؟ اس وقت ان کے ساتھ مولانا طاہر القادری کی جوڑی کریز پر ہے لیکن کیا وہ ٹیم کے باقی کھلاڑیوںکو فراموش کر دیں گے؟اس وقت ایسا لگتا ہے کہ اُنہوںنے ٹوئنٹی ٹوئنٹی کی ٹیم کو ٹیسٹ میچ کے لیے منتخب کرلیا ہے۔ عوام میں جوش بہت ہے، لیکن یہ مقام ہوش کا ہے۔ ملک کا بہت کچھ دائو پر لگ سکتا ہے۔ ایک اور بات بھی غیر واضح ہے کہ اگر کپتان میچ جیت بھی گیا تو اس میچ میں فتح کس کی ہوگی؟
ایک چینی جنرل نے چار ہزار سال پہلے کہا تھا۔۔۔''اگر آپ لوگوں کی قیادت کرنا چاہتے ہیں تو ان کے پیچھے چلیں۔‘‘وہی جنرل جنگ جیت سکتا ہے جو حریف کے علاوہ اپنی فوج کو بھی سمجھتا ہو۔ اُسے دشمن کی طاقت اور اپنی کمزوری کا علم ہو اور سازش کی تھیوری پر کم سے کم یقین ہو۔ اس وقت جوش زیادہ ہے اور ہوش تقریباً نہ ہونے کے برابر۔ عقل مند مبصرین کہہ رہے ہیں کہ سیاست مفاہمت ، نہ کہ ضد ، کا نام ہے اور اگر خاں صاحب ایک پوائٹ ایجنڈا رکھتے ہیں تو اُنہیں ناکامی ہوگی۔ اگر کپتان کاردار وزیر محمد کو ٹیم میں شامل نہ کرنے پر اڑے رہتے تو پاکستان ہار جاتا۔ ان کی ضد کی ہار نے پاکستان کی میچ جیتنے میں مدد کی۔ آج عمران کے سامنے بھی اوول کی سی صورت ِحال ہے۔ کیا وہ کاردار بننا پسند کریں گے؟ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں