خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی کارکردگی

اُسے 2011ء میں اغوا کیا گیا ، بارہ دن تک تحویل میں رکھا اور 35لاکھ روپے تاوان وصول کرنے کے بعد رہاکردیا گیا۔ اس اغوا کی کارروائی میں سات افراد ملوث تھے۔ ان سات جرائم پیشہ افراد کے دو سرغنہ تھے جن کا تعلق پولیس سے تھا۔ ڈاکٹر رفعت حسین ، جن کا آبائی شہر پشاور ہے ، نے اُس سے بات چیت کی۔ ڈاکٹر رفعت حسین نے بہت سے افراد سے بھی بات چیت کرتے ہوئے پتہ چلانے کی کوشش کی کہ کیا پی ٹی آئی کی اٹھارہ ماہ کی حکومت سے عوام کی حالت میں کچھ تبدیلی واقع ہوئی یا نہیں؟کیا یہاں، جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے، پولیس اور پٹوار اصلاح کے عمل سے گزرے ہیں؟کیا عوام سکون کا سانس لے رہے ہیں کہ اُنھوں نے پی ٹی آئی پر درست اعتماد کیا؟
اغواکاشکار ہونے والے شخص نے ڈاکٹرصاحب کو بتایا کہ اغوابرائے تاوان کا بزنس اس حوالے سے تبدیلی کے عمل سے گزرا ہے کہ اب مجرموں کے گروہ پولیس افسران کی سرپرستی میںیہ دھندا کرتے ہیں۔ اس سے پہلے طالبان اس بزنس سے مال کما رہے تھے لیکن آپریشن کے بعد وہ تتر بتر ہو گئے ہیں۔ تاہم دہشت گردی کی کارروائیوں میںکمی کا مطلب جرائم میں کمی نہیں ۔ بتایا گیا کہ اغوا کے لیے شکار کی نشاندہی پولیس افسران کرتے ہیں۔تاوان کی رقم چند کروڑ سے لے کر تیس لاکھ تک ہوسکتی ہے۔۔۔ اس سے کم نہیں۔ 
اس وقت خیبر پختونخوا میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ جاری ہے۔ ایک بزنس مین کو مسجد سے ہی اغوا کرلیا گیا جب وہ صبح کی نماز ادا کرنے آیا۔ جس دوران نمازی خدا کے حضور 
کھڑے تھے، کلاشنکوفوںسے مسلح اغواکار اندر آئے اور اپنے شکار کو اٹھا کر لے گئے۔کسی نمازی نے مزاحمت کی جرأت نہیںکی۔ اُس بدقسمت شخص کے رشتہ دار ڈی ایس پی کے پاس گئے ۔ اُنہیںبتایا گیا کہ پولیس ان کی مدد کرنے سے قاصر ہے، وہ بس فون کا انتظار کریں۔ بے بسی کے عالم میں اُس بزنس مین کے اہل ِخانہ نے چار ماہ کی اذیت کے بعد چند کروڑ کا انتظام کیا اور اُسے آزاد کرایا۔ جب اُسے اغوا کیا گیا تو اُس کی سیاہ گھنی مونچھیں تھیں اور وہ چھ فٹ کا صحت مند جوان تھا۔ جب وہ رہائی پا کر واپس آیا تو اُس کی مونچھیں شیو کی ہوئی تھیں اور چہرے پر لمبی داڑھی تھی۔ اس کے بعد اُس نے پشاور چھوڑ دیااور راولپنڈی جا کر رہنا شروع کر دیا۔ 
ڈاکٹر رفعت حسین کا کہنا ہے کہ پشاور دورے کے دوران اُسے خدشہ محسوس ہو ا کہ چونکہ وہ بھی امریکہ سے آئے ہیں، اس لیے اُنہیں بھی اغوا کیا جاسکتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس شہر میں کوئی دولت مند آدمی خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت بھی جانتی ہے کہ کچھ پولیس افسران اغواکاروںکے ساتھ روابط رکھتے ہیں لیکن فی الحال اُن کی تمام تر توجہ دھرنوں اور جلسوں پر مرکوز ہے جبکہ عوام کو ان جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اگرپی ٹی آئی کے قائدین کنٹینر سے اتر کر صوبے کی گلیوں میں ہونے والی بات چیت کو 
سنیں تو اُن کے ہاتھوں کے طوطے اُڑجائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عوامی جذبات کی حد تک پی ٹی آئی کا جادو اتر چکا ہے۔ یہ تبدیلی گزشتہ اکتوبر سے رونما ہونا شروع گئی تھی لیکن پی ٹی آئی کے رہنما اس بات کو بھانپنے میں ناکام رہے۔ 
اگر اس تبدیلی کی وجہ پوچھیں تو عوام کا کہنا ہے کہ ان کے مسائل حل کرنے کی بجائے وزیر ِ اعلیٰ پرویز خٹک اور اُن کی کابینہ اسلام آباد دھرنے میں گئے ہوئے ہیں اور ان کا صوبہ ''یتیم ‘‘ لگتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ نوجوان لوگ ابھی تک مایوس نہیں ہوئے اور وہ عمرا ن خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر عوام میں مایوسی کا احساس غالب ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نوجوان لوگ آسانی سے مایوس نہیں ہوتے کیونکہ وہ فطری طور پر رجائیت پسند ہوتے ہیں، لیکن ایک مرتبہ پھر اُن کے اعتماد کو ٹھیس پہنچ گئی تو پی ٹی آئی کا برا حشر ہوگا۔ دراصل خیبر پختونخوا کے عوام کو گزشتہ دو حکومتوں، اے این پی اور اس سے پہلے مذہبی جماعتوں کے الحاق نے سخت مایوس کیا تھا۔ اُنہیں عمران کی صورت میں ایک دلیر اور مخلص رہنما دکھائی دیا جو ڈرون حملوں کے خلاف بھی بات کرسکتا تھا اور جدید تعلیم کے منصوبے بھی رکھتا تھا۔ ا س لیے گزشتہ انتخابات میں اس صوبے کے لوگوں نے اپنا سیاسی وزن ان کے پلڑے میں ڈال دیا۔ اب اگر خاں صاحب نے اُنہیں ایک مرتبہ مایوس کیا تو یہاں رہنے والے کھرے اور صاف گوانسان انہیں دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی کر کے دکھادیں گے۔ اس صوبے میں فتح اور شکست کے درمیان کوئی سمجھوتہ نہیں ہے۔ 
ایک معمر شخص نے ڈاکٹر حسین کو بتایا کہ یہاں کی پی ٹی آئی کی حکومت بھی وہی کام کرنا شروع ہوگئی ہے جس پر وہ دوسروں کو مورد ِ الزام ٹھہراتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ دوسروں کے کیے ہوئے کاموں کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ پی ٹی آئی بھی ایک اور روایتی جماعت بن چکی ہے۔ کہا گیا کہ اب پی ٹی آئی ہائیڈل منصوبے بنا کر بجلی پیدا کرنا چاہتی ہے لیکن کوئی پوچھے کہ کون سے منصوبے؟ کہاں کے ڈیم؟ کیسی بجلی؟ یہ صرف کاغذی کارروائی ہے جس کا مقصد صرف وقت گزارکر اگلے انتخابات کی طرف بڑھنا ہے۔ درحقیقت اس صوبے کے مقدر میں نعرے ہی نعرے ہیں، عملی اقدامات نہیں۔ اور یہ وہ ملک کا اہم ترین صوبہ ہے جو دہشت گردی کی جنگ میں پہلی صف میں کھڑا ہے۔
ڈاکٹر حسین نے دیکھا کہ پشاور میں ٹریفک کا نظام انتہا ئی خراب ہے۔ سڑکوں پر طویل وقفوں تک ٹریفک کا بہائو معطل رہتا ہے۔ باقی ملک کا بھی حال اس سے بہتر نہیں۔ اگر جنرل مشرف اور شوکت عزیز کو کبھی سزا ملنی ہے تو اصل جرم یہ ہے ۔۔۔ انفراسٹرکچر تعمیر کیے بغیر ملک کو گاڑیوں سے بھر دیا اور ترقی کے دعوے کرنے لگے۔ ایک مرتبہ بقراطی لہجے میں مشرف نے معاشیات کے تمام تر اصولوں کو لات مارتے ہوئے دعویٰ کیا کہ موٹر سائیکل اور موبائل فون ترقی کی علامت ہیں۔ اس سے پہلے وہ تیل کی قیمت، جبکہ دنیا میں تیل کی قیمت ہوشربا حد تک بڑھ چکی تھی، نہ بڑھانے پر کریڈٹ لے چکے تھے۔ اے خدا ہمارے نصیب میں مزید کتنے دانشور حکمران ابھی باقی ہیں؟ یا پھر ہماری سز ا پوری ہوچکی ہے؟
اس وقت گاڑیوں کی بہتات کی وجہ سے خیبر پختونخوا میں لوگ آلودگی اور اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا عذاب بھگت رہے ہیں۔ پشاور شہر میں سردرد اور پیٹ کی خرابی کی بیماریاں عام ہیں۔ اس سے پہلے سوویت یونین کے خلاف جہاد کے دوران بھی یہ شہرجنگ کا عذاب بھگت چکا ہے۔ آج بھی یہ شہر ہراول دستہ ہے لیکن اس کے حکمران غائب۔ درحقیقت پشاور کی آلودگی، پولیس ، جرائم ، طالبان کے پھیلائو ، گورننس اور اشیا ئے ضروریات کی دستیابی نے ہی اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کے مقدر کا فیصلہ کرنا ہے۔ فی الحال یہ جماعت کراچی، لاہور اور کوئٹہ فتح کرنے کا خواب دیکھنا بند کردے اور پشاور پر توجہ دے تاکہ دیگر شہریوں کے باسی اسے ایک مثال کے طور پر دیکھ کر فیصلہ کرسکیں کہ وہ کس کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں