چھوٹے تابوت‘ اُٹھانے میں بھاری

اسلام آباد سے ایک دوست نے ای میل میں یہ جملہ لکھا۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ الفاظ ہمارے سر شرم سے جھکانے کے لیے کافی ہیں کہ دہشت گردوں نے ہمیں یہ دن دکھایا۔ اس وقت سارا پاکستان معصوم بچوں کی ہلاکت پر غمزدہ ہے۔ چھوٹے چھوٹے ، پھولوںجیسے نازک اور ہنستے مسکراتے بچوں کو نزدیک سے ان کے چہروں اور سروں میں گولیاں مار کر شہید کیاگیا۔ کیا یہ گولیوں سے چھلنی اور خون میں لت پت بچوں کی تصاویر دیکھ کر آپ کا کلیجہ نہیں پھٹا؟ کیا آپ ابھی تک صرف غصے کے عالم میں ہیں؟ کیا آپ کا دل ماتم کناں ہے؟ کیا آپ اب بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ ''نہیں یہ کسی انسان کا کام نہیں ہو سکتا، یا کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل نہیں کرسکتا؟‘‘
اب ہمارے ہاں کیا ہوگا؟ دعوے جو بھی کیے جارہے ہوں، ایک مرتبہ سوگ کی لہر میں اتار آجائے تو آپ الزام تراشی کا امڈتا ہوا طوفان دیکھیں گے کہ اس میں کس کا قصور تھا؟ سکول کو محفوظ کیوں نہیں بنایا گیا؟یہ کس کی ذمہ داری تھی؟کیا سکیورٹی میں خلا رہ گیا تھا یا جان بوجھ کر پیدا کیا گیا؟ پشاور کے ایک شہری کا دعویٰ ہے کہ سکول کی سکیورٹی برائے نام تھی۔ اگرچہ اُس طرف آنے والی تینوں سڑکوں پر سکیورٹی اداروںکی چیک پوسٹس موجود تھیں اور وہ وہاںسے گزرنے والی ہر گاڑی کو چیک کرتے تھے لیکن اگر کوئی شیطانی کام کرنے پر تل جائے تو کون روک سکتا ہے؟ ہتھیاروں سے بھری ہوئی گاڑی وہاںسے کیسے گزری؟
ایک مثالی صورت ِحال تو یہ ہونی چاہیے تھی کہ آپریشن ضربِ عضب کی وجہ سے پشاور اور صوبے کے دیگر حساس مقامات پر ریڈ الرٹ رہتا لیکن حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں تھا۔ اگردفاعی اداروں اور سول انتظامیہ کی باتوں پر یقین کریں تو لگتا ہے کہ وہاں کسی پرندے کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں لیکن جب زمینی حقائق کی طرف دیکھیں تو ایک سو پچاس کے لگ بھگ بچوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ان دعووں کی سختی سے تردید کرتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بارے میں ایک فوجی افسر سے بات ہوئی تووہ بہت بڑے بڑے دعوے کررہے تھے۔ ہمیں ایک حقیقت کا اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ جب ہم جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کو دیکھتے ہیں تو یہ احساس دل کو کچوکے لگانے لگتا ہے کہ اس اہم ترین ادارے میں ضروری نہیں کہ بہترین افراد ہی سلیکٹ ہوکر آگے آئیں؛ تاہم آرمی کے موجودہ چیف کو بہترین انتخاب کہا جاسکتا ہے۔ شاید قوم کی کوئی نیکی کام آگئی ہے کہ جب اس کی سیاسی قیادت انتہائی تساہل یا تامل پسند ہے تو اسے بہترین آرمی چیف میسر آگیا ۔ 
اس وقت قوم کے رہنما سرجوڑے بیٹھے ہیں(کم از کم تاثر یہی دیا جارہا ہے) کہ دہشت گردی کے مسئلے کا حل کیا ہے؟امریکیوں کی عادت ہے کہ وہ ہونے والے جرائم کی تمام ذمہ داری میکسیکوکے باشندوں یا سیاہ فام امریکیوں پر ڈال دیتے ہیں ۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہر بڑا افسر ذمہ داری چھوٹے پر ڈال دیتا ہے اور آخر میں کسی مشین کا نقص نکل آتا ہے۔ کیا اس سانحے پر کسی کو ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ نہیں دینا چاہیے تھا؟ چوہدری نثار کے پاس ان حالات میں قوم کو خوش کرنے کا بہترین موقع تھا، لیکن نصیب اپنا اپنا۔ ہمارے سامنے سوال سادہ نہیں ہے۔۔۔ ملافضل اﷲکو کون پکڑے گا؟ یقینا کسی چھوٹے پولیس افسر کی ڈیوٹی اس کام پر تو نہیں لگائی جائے گی۔ ان سے چھوٹے بھی نہیں پکڑے جاتے، ان بڑوں کو پکڑنے اور کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ ہو سکتا ہے کہ حقانی واپس کرنا پڑ جائے۔ 
ڈاکٹروں کے ساتھ ایک مسئلہ ہوتا ہے کہ جب وہ بہت سے افراد کو بستر پر بیماریوںسے مرتے دیکھتے ہیں تو وہ کسی قدر بے حس ہوجاتے ہیں۔ شاید سیاست دان بھی ایسے ہی ہیں، اس لیے وہ نہایت مشینی انداز میں کمیٹیاں بنا کر ''کام‘‘ ان کے سپر د کردیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے رات کو سونے میں آسانی رہتی ہوگی۔ شہروں میں بھی کسی قدر بے حسی پیدا ہوجاتی ہے۔ پیہم صدمات اور مسائل عوام کو ایک دوسرے سے، اور بعض اوقات خود سے، لاتعلق کر دیتے ہیں۔ اب ہمارے ہاں کوئی بم دھماکہ، کوئی قتل ، کوئی غبن اور ایسے ہی معمول کے جرائم نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔ کسی زمانے میں بوری بند لاشیں دہشت پھیلادیتی تھیں لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔ پاکستان کے شہروں میں پشاور نے دہشت گردی کے سب سے زیادہ صدمات سہے ہیں۔ یہ شہر اس جنگ میں فرنٹ لائن پر ہے۔ اس کے شہری بے حس نہیں ہوئے؛ تاہم وہ ٹی وی پر سیاست دانوں کی روایتی بے حسی کو دیکھ کر اتنے ہی اذیت میں ہیں جتنے معصوم بچوں کی لاشوں کو دیکھ کر۔ منافقت کے بہت سے مواقع ہوسکتے ہیں، ان کی زندگی رہی تو اور بھی آئیں گے، پہلے کون سی کمی تھی، لیکن کاش، اس موقع پر ایسا نہ کرتے۔ طبیعت پر جبر تو محسوس ہوتا لیکن دل پر پتھر رکھ کر دل کی بات کرلیتے۔بتادیتے کہ ان کی رگوں میں بھی خون ہے۔۔۔ وہ خون جس کے بارے میں اجڑی ہوئی دہلی کے زندہ شاعر نے کہا تھا۔۔۔ ''جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے‘‘ قوم کو بتادیتے کہ ان کی آنکھوںسے آنسو ختم ہوگئے ہیں، اب خون اور پھر جوئے خون بن کر ان نہنگوں کے ٹھکانے تہہ و بالا کردیتے۔ آئندہ کسی کو بچوں کی طرف گن تو کیا آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی ہمت نہ ہوتی ،لیکن یہاں سات دن اور پھر کمیٹی در کمیٹی، ایکسپرٹ در ایکسپرٹ۔ 
ہمارے ہاں قائم شدہ انسداد ِ دہشت گردی کی عدالتیں بھی ایک معمہ ہیں۔ یہاں قانون ِ شہادت بھی ایک مسئلہ ہے۔۔۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ امریکہ کو دیکھیں۔ قیدیوں کو گوانتاناموبے میں قید کرنے کے لیے کیسی قانون سازی کی۔ ہمیں کیا مسئلہ ہے؟ کیا تمام انسانی قدریں اُس وقت بیدار ہونی ہوتی ہیںجب کوئی دہشت گرد، جو رنگے ہاتھوں موقع سے پکڑا گیا ہو، کو لٹکانا ہو تو کوئی قانون ہی ہاتھ نہ آئے؟ پاکستانی اور امریکی ارکان پارلیمنٹ میں فرق یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں رکھتے۔ اُنھوں نے نائن الیون کے بعد آٹھ ملین صفحات پر مشتمل گواہی اکٹھی کرکے شائع کردی، لیکن پاکستان میں ہم اس پر انتہائی کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ہمارے سکیورٹی ادارے کسی کو کچھ نہیں بتاتے اور کچھ دیر بعد قوم کو خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ 
سیاسی طبقہ تساہل کا شکار ہوتو ہو لیکن دہشت گرد نہیں۔ ان کے سامنے پورا پاکستان ہے ، ان کے ہمدرد اور سہولت کار ہر جگہ ہیں اور کہیں بھی وار کرسکتے ہیں۔ موقع‘ وقت اور جگہ کا تعین اُنھوں نے خود کرناہے۔ اس دوران ہم نے صرف الزام تراشی کرنی ہے اور پھر ایک اور سانحہ رونما ہوجائے گا۔ اس چکر سے ہم کب اور کیسے نکلیں گے؟ یہی بداعتمادی ہے کہ اس وقت تمام قوم سیاست دانوںکی بجائے فوج کی طرف دیکھ رہی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ بالا دستی نہیں ملی۔ پاکستانی میڈیا اس مسئلے پر بھی ریٹنگ کا شکار ہے لیکن یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی میڈیا نے انتہائی قومی ذمہ داری کا احساس کیا اور اپنی آزادی کی قربانی دی۔ کیا ہم بھی کسی قربانی کے لیے تیار ہیں؟اگر نہیں تو پھر مزید قربانیاں دینی پڑیںگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں