مدرز ڈے

گزشتہ اتوار کو ''مدرز ڈے‘‘ منایا گیا ۔ پھول اور تحائف اُس جذبے کی عکاسی کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، بلکہ میرا خیال ہے کہ والدہ سے محبت وارفتگی کی وہ دنیا ہوتی ہے جہاںعلامتوںاور اظہار کے مروج پیمانے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ امریکی چاہے کتنے ہی مادیت پرست کیوںنہ ہوں، وہ بھی اپنی مائوں کے لیے والہانہ طور پر محبت بھرے جذبات رکھتے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ افراد سے لے کر صدر، اور کامیاب سی ای اوز سے لے کر قاصد، اور ہالی ووڈ کے سٹارز سے لے کر عام شہریوں تک، ہر کسی کے لیے اپنی والدہ کے لیے جذبات کی کشش ایک سی ہے۔ ہر کسی کا کہناہے کہ اُنہیں زندگی میں جو بھی ملا، وہ ان کی والدہ کی بدولت ہی ہے۔ یقینا یہ ایک کائناتی سچائی ہے۔ شاید کوئی بہت ہی بدقسمت شخص ہوگا جو اپنی والدہ سے بے انتہامحبت نہ کرتا ہو۔ دوسری طرف والد کے بارے میں جذبات کی دنیا ذرا مختلف ہے۔ اگرچہ میں اس رویے کی حوصلہ افزائی نہیں کررہی لیکن آپ بھی جانتے ہیں کہ والد کے بارے میں زیادہ تر لوگ وہ جذبات نہیں رکھتے جو وہ اپنی والدہ سے رکھتے ہیں۔ اس کا ایک روحانی پہلو بھی ہے اور نفسیاتی بھی، لیکن اس موضوع پر پھر بات ہوگی۔
بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ ''مدر ز ڈے‘‘ کیا ہے ، اس کی شروعات کس نے کی اور سب سے اہم، اس کا مقصد کیا ہے؟ پاکستان کے مصروف باسیوں، جن میں زیادہ تر مطالعہ کو وقت کا زیاں سمجھتے ہیں، کی اطلاع کے لیے عرض ہے162 سال پہلے ایک امریکی خاتونِ خانہ نے امریکہ میں صحت ِعامہ کی قابل ِرحم صورت ِحال پر روشنی ڈالی۔ انا جرویز(Anna Jarvis) نے اس کے لیے بھرپور مہم چلائی اور ایک دن کو مخصوص کرتے ہوئے اسے Mother's Work Day قرار دیا۔ اُس کی وفات کے بعد اس کی بیٹی، جس کانام بھی انا(Anna )تھا، نے اس ضمن میں محنت کی اور اپنی والدہ کے خواب کو حقیقت کا روپ دیے دیا۔ اس نے کہا۔۔۔'' میں امیداور دعا کرتی ہوں کہ کوئی نہ کوئی ، کبھی نہ کبھی مدرز ڈے کی یاد منانا شروع کردے گا۔ آدمیوںکی یاد منانے کے لیے تو بہت سے دن مخصوص ہیں، لیکن ان آدمیوں کو جنم دینے والی عظیم ہستی کے لیے کوئی دن نہیں۔‘‘
اس کے 102 سال بعد صدر ووڈ رو ولسن (Woodrow Wilson) نے ایک بل پاس کرتے ہوئے مدر ڈے کو ایک قومی دن کے طور پر منانا شروع کردیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اُس دن سرمایہ کاری کرنے والے بھی خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دکانوں پر پھولوں اور تحائف کی فروخت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس پر انا کا کہنا ہے۔۔۔''اس دن کی توقیر کو لالچ اور منافع کمانے کی دھن نے گہنا دیا ہے۔‘‘ یقینا اس دن کو منانے کا مقصد کچھ طبقوں کی آمدنی میں اضافہ کرنا نہیں تھا۔ جب ہرسال دومئی آتی ہے، ہوٹل اور ریستوران پہلے ہی بک کرلیے جاتے ہیں۔ تحائف اور پھول فروخت کرنے والی دکانوں کے اطراف میں ٹریفک کا بھاری رش ہوتا ہے۔ ٹیلی فون لائنز جیم ہوجاتی ہیں کیونکہ لوگ اپنی مائوں کو اپنے جذبات پہنچا رہے ہوتے ہیں۔
تاہم امریکی معاشرے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔۔۔ یہاں ''سنگل والدہ‘‘ بھی ایک معمول کی بات ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں شادی شدہ جوڑوں میں طلاق کا تناسب پچاس فیصد ہے۔ گویا نصف کے قریب شادی شدہ افراد اپنے ازدواجی تعلق کو جاری نہیں رکھ پاتے۔ اس کا مطلب ہے کہ بچوں کی ایک کثیر تعداد کے پاس یا ماں نہیں یا باپ نہیں۔ ا س سے اُن کا بچپن مسخ ہوجاتا ہے۔ وہ سخت گیر انسان بن جاتے ہیں۔ کچھ بچے سکول اور کالج سے بھاگ کر غیر روایتی زندگی بسر کرنا شروع کردیتے ہیں۔ تاہم یہ اعداد وشمار کتنے ہی حوصلہ شکن کیوں نہ ہوں، ایک بات طے ہے کہ والدہ کی محبت کو امریکی معاشرے یا کسی بھی معاشرے سے خارج نہیں کیا جاسکا۔
یہاں ایک والدہ کی کہانی بیان کرنا چاہوں گی جو ہمیشہ سوچتی تھی کہ ایک ماں کے پاس فرصت کے وہ لمحات کب آتے ہیں جب وہ اپنے بچوں کی طرف سے بے فکر ہوجائے یا اُسے کوئی تشویش لاحق نہ رہے کہ اُس کے بچے کہاں ہوں گے یا کس حال میں ہوں گے؟ کیا اُس کی زندگی میں ایسا لمحہ بھی آتا ہے جب وہ اُن کی طرف سے بیگانگی محسوس کرنے لگے۔ جب وہ بیس سال یا کچھ زیادہ کی تھی تو وہ ہسپتال کی راہداری میں کھڑی انتظار کررہی تھی کہ ڈاکٹر آکر اُس کے بیٹے کے زخمی سر پر کچھ ٹانکے لگادے۔ اُس نے نرس سے پوچھا کہ بچوں کے حوالے سے پریشانی کب تک رہے گی ؟ نرس نے جواب دیا کہ جب تک یہ ایکسیڈنٹ کی عمر سے باہر نہیں نکل جاتے۔ اس کے پاس ہی ایک بڑی عمر کی خاتون کھڑی تھی، وہ مسکرائی لیکن کچھ نہ بولی۔ جب وہ تیس کی دہائی میں تھی تو وہ کلاس روم میں اپنے بچے کی ٹیچر سے شکایت سن رہی تھی کہ وہ کلاس میں بہت پریشانی پیدا کرتا ہے۔ تاہم کچھ دیر بعد ٹیچر نے کہا کہ اکثر بچے ایسا کرتے ہیں لیکن اس سٹیج سے آگے نکل آنے کے بعد نارمل ہوجاتے ہیں۔ یہاں بھی اس کی دادی اماں پاس بیٹھی تھیں، وہ ایک مرتبہ پھر مسکرائی لیکن منہ سے کچھ نہ کہا۔ جب وہ والدہ چالیس برس کی ہوئی توانتظا ر کرتی رہتی کہ بیٹے کا فون کب آئے گا، رات کو سامنے والا دروازہ کب کھلے گا ، کار کب آئے گی، تو اُسے بتایا گیا کہ کوئی بات نہیں، سبھی جوان لڑکے ایسے ہی ہوتے ہیں، کچھ دیر بعد ٹھیک ہوجائے گا اور اس کی پریشانی جاتی رہے گی۔ معمر دادی اماں مسکرائی لیکن چپ رہی۔ جب وہ پچاس کی دہائی میں تھی اور ایک مرتبہ جب وہ بہت بیمار تھی تو اُس کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بچوں کے بارے میں بہت پریشان ہے۔ تاہم کہا گیا کہ جب اُس کے بچوں کی شادیاں ہوجائیں گی تو اُس کی سب پریشانی دور ہوجائے گی۔ تاہم پھر ساتھ کھڑی دادی اماں یاد آئیں اور سوچا کہ کیا والدہ کو تاحیات پریشانی کی سزا سنائی جاچکی ہوتی ہے؟اب وہ والدہ ساٹھ کی دہائی میں ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ اس کے بچے بہت پریشان کرتے ہیں۔ وہ تین دن سے فون کررہی تھی لیکن کسی نے بھی فون ریسیو نہ کیا۔ وہ درحقیقت بہت پریشان تھی۔
کیا والدہ کی یہ پریشانی اُس کے لیے سزا ہوتی ہے یا اُس کا روحانی مرتبہ اُسے پریشان رکھتا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا آسان نہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ اس کی ضرورت بھی نہیں۔ کسی بھی پھول کا کیمیائی تجزیہ اُس کی خوبصورتی کا بیان نہیں ہوتا۔ دنیا کے کچھ حقائق عقل و منطق کی دنیا سے بہت بلند ہوتے ہیں۔ والدہ کا رشتہ بھی ان میں سے ایک ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں