ایران ، اسرائیل اور عرب دنیا

صدر اوباما نے ایران کے ساتھ تاریخی جوہری معاہدے پر دستخط تو کر دیے ہیں لیکن مشرق وسطیٰ میں ان کے دونوں قریب ترین حلیف یعنی سعودی عرب اور اسرائیل اس معاہدے سے نہایت ناخوش ہیں۔ دونوں ممالک کی ایران کے ساتھ مخالفت ہے اور دونوں ہی نے امریکی کانگرس کے اراکین کے ساتھ رابطے کر کے پوری کوشش کی کہ کسی طرح اس معاہدے کو حقیقت کا روپ دھارنے سے روکا جائے؛ تاہم صدر اوباما نے بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر کانگرس میں ووٹ اس معاہدے کے خلاف پڑا تو وہ اس اقدام کو ویٹو کر دیں گے۔ مطلب یہی ہے کہ یہ معاہدہ عمل پذیر ہو کے رہے گا۔ تیل کی فروخت اور دیگر مالیاتی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے میں اپنی جوہری صلاحیتوں کو کافی حد تک محدود کرنے کے لئے ایران کو رضا مند کرنے کی بنا پر امریکی صدر کا نام تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ معروف امریکی اخبار دی نیو یار ک ٹائمز اسرائیل پر ہمیشہ مہربان رہا، لیکن اس بار اس نے بھی اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہوپر تنقید کی ہے۔ اپنے اداریے میں دی نیو یارک ٹائمز نے لکھا کہ یہ ایک نہایت تشویش ناک امر ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے حقارت سے مذکورہ معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ایک ''تاریخی غلطی‘‘ قرار دیاہے۔
خلیجی ریاستوں کی قیادت سعودی عرب کے ہاتھ ہے اور یہ ریاستیں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو ایران کاسب سے بڑا محافظ سمجھتی ہیں۔ مسلمان ممالک کے مابین بڑھتے ہوئے ان تنازعات کا ایک فائدہ اسرائیل یوں اٹھا رہا ہے کہ مقبوضہ فلسطین او ر یروشلم میں مقامات مقدسہ کی زیارت کرنے سے اس نے مسلمانوں کو روک رکھا ہے۔مسلمان دنیا میں کوئی ہے جو اس پر احتجاج کر سکے؟ اسرائیل کے اپنے حالیہ دورے میں ہم نے بذات خود مشاہدہ کیا کہ اس ارض مقدس پر اسرائیلی کس طرح 
قبضہ کئے ہوئے ہیں۔حرمین شریفین کے بعد مسلمانوں کے لئے یہ علاقہ مقدس ترین حیثیت رکھتا ہے، لیکن مسلمان زائرین یہاں آپ کو بہ مشکل ہی دکھائی دیں گے۔گزشتہ کالم میں ہم نے الخلیل تک کے سفر کا ذکر کیا تھا جہاں ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اہل بیت کی قبروں کی زیارت کی تھی۔الخلیل کے بعد ہم بیت اللحم کی جانب روانہ ہوئے جو وہاں سے چودہ میل سے بھی کم فاصلے پر واقع ہے۔ یہ فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام پیدائش کی جانب جاتے ہوئے راستے میں ہم نے بجلی کے بد حال کھمبوں پریاسر عرفات کی ایک دو قدآدم تصاویر آویزاں دیکھیں۔ ہمارے ڈرائیور رمضان نے ہمارے لئے ایک گائیڈ کا انتظام کر رکھا تھا تاکہ ہم کلیسۃ المھد کی سیر کر سکیں۔ یہ دنیا کے قدیم ترین گرجوں میں سے ایک ہے۔ ہمارے گائیڈجاسم کی تجویز یہ تھی کہ پہلے میدان المھد کی سیر کی جائے۔یہ ایک سکوائر ہے جو اس چرنی کے نام سے موسوم ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی تھی۔یہاں کھجور کے درخت ایک قطار میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ جاسم نے بتایا کہ کرسمس کے دنوں میں یہاں دنیا بھر سے عیسائی آتے ہیں اور کیرلز گاتے ہیں۔اس کے سامنے سنگ مر مر کی بنی ہوئی ایک اونچی مسجد ہے جس کے بلند و بالا سفید مینار آسمان کے نیلے رنگ کے ساتھ مل کر ایک حسین نظارہ تخلیق کرتے ہیں۔یہ مسجد حضرت عمر فاروق کے نام سے موسوم ہے۔یروشلم کی فتح کے بعد وہ بیت اللحم آئے تھے اور یہاں آکر انہوں نے ایک ''قانون‘‘ جاری کیا تھا جس کے تحت 
کلیسۃ المھد کی حفاظت کی ضمانت دی گئی تھی۔کہتے ہیں کہ اس مسجد میں حضرت عمرؓ نے نماز بھی پڑھی تھی۔
جاسم نہایت باتونی تھا اور اس کے قدم بھی اس کی زبان کی طرح تیز ہی چلتے تھے۔اس کے پیچھے پیچھے گرجے کی جانب بڑھتے ہوئے ہماری سانس پھول گئی تھی۔ وہاں زائرین کی ایک لمبی قطار کھڑی تھی۔گرجے کے مرکزی داخلی دروازے کو باب التواضع کہتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے گرجے کے اندر جانے کے لئے قدرے جھکنا پڑتا ہے۔عیسائی حملہ آوروں نے یہ چھوٹا دروازہ اس لئے بنایا تھا کہ گھڑ سواروں کو گرجے میں داخلے سے روکا جا سکے۔ بعد میں عثمانی سلطنت کے تحت اس کو بدل دیا گیا تھا۔ہم آگے بڑھنے ہی والے تھے کہ جاسم نے ہمیں رکنے او ر وہیں تھوڑی دیر انتظار کرنے کو کہا۔خود وہ تیزی سے ایک گارڈ کی جانب لپکا اور نجانے اس سے کیا بات کی۔ واپس آکر اس نے کہا: ہمیں جلدی سے ان تنگ سیڑھیوں کے ذریعے سیدھا غار کی جانب جانا چاہئے کیونکہ اگر قطا ر میں کھڑے ہوئے تو پورا دن پھر یہیں لگ جائے گا۔ ہم جلدی سے سیڑھیوں سے اتر کر غار میں گئے۔ وہاں ہمیں کافی جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔ زائرین اس ستارے کو چھو رہے تھے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام پیدائش کی شناخت کے لئے وہاں لگا یا گیا تھا۔جاسم نے ہمیں بتایا کہ پچھلے مہینے کم کارداشین اور کانئے ویسٹ بھی اپنی بیٹی کے ہمراہ یہاں آئے تھے، اور پوپ فرانسس بھی یہاں آچکے ہیں۔ جواباً ہم صرف '' کیا بات ہے، بھئی‘‘ہی کہہ سکے!
دوپہر کا کھانا ہم نے مختصراً جلدی جلدی کھایا۔ رمضان نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ ہمیں اریحا لے کر جائے گا۔ یہ فلسطینی اتھارٹی کے زیر کنٹرول مغربی کنارے میں دریائے اردن کے کنارے واقع ہے۔ اس کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔تاہم رمضان ہمیں بتا رہا تھا کہ اب اریحا جانا ہمارے لئے ممکن نہیں ہوگا۔اس نے گاڑی کا رخ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزار کی جانب موڑ دیا تھا۔اس نے بتایا کہ اریحا میں کوئی مسئلہ ہو گیا ہے او ر سڑکیں اب وہاں بند پڑی ہیں۔پلان میں تبدیلی کا سن کر ہمیں سخت مایوسی ہوئی تھی۔ ہم نے پوچھا کہ ''مسئلے‘‘ سے اس کا مطلب کیا ہے؟ اس نے بتایا کہ ایک لمحے میں وہاں سب کچھ ٹھیک دکھائی دے رہا ہوگا لیکن اگلے ہیں لمحے میں فلسطینیوں او ر اسرائیلیوں کے درمیان کوئی مسئلہ بھڑک اٹھتا ہے اور پھر پلک جھپکتے ہی وہاں سب کچھ بند ہوجاتا ہے۔ہم نے ایک طویل اور پیچ در پیچ شاہراہ پر اپنے سفر کا آغاز کیا۔ یہ شاہراہ ہمیں بہت ویران اور سنسان محسوس ہو رہی تھی۔ رمضان نے ہماری سوچ بھانپ لی۔ وہ ہمیں بتارہا تھا کہ یہ شاہراہ امریکہ نے اسرائیل کی مدد کے لئے تعمیر کی ہے تاکہ فلسطینی پناہ گزین سہولت کے ساتھ اردن میں داخل ہو سکیں۔ اس کی یہ ترکیب کار گر ثابت ہوئی ہے کیونکہ ہزاروں فلسطینی اسی راستے سے اردن میں داخل ہوئے ہیں۔وہاں سب سے بلند پہاڑی پر ہمیں ایک وسیع عمارت دور سے دکھائی دے رہی تھی۔ رمضان نے ہمیں بتایا کہ ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزا ر تک پہنچ چکے ہیں۔ مزار کی جانب بڑھتے ہوئے ہم نے غور کیا کہ وہاں زیارت کے لئے ہمارے سوا اور کوئی بھی موجود نہیں۔ گھنے پیڑوں تلے بس بلیاں ہی سستاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔مزار پر فاتحہ پڑھنے کے بعد ہم وہیں ٹہلنے لگے۔ہم نے رمضان سے پوچھا کہ یہاں کوئی ہے کیوں نہیں؟ اس نے بتایا کہ مسلمان اس جگہ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مدفن سمجھتے ہیں لیکن اسرائیلیوں کو اس سے اتفاق نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر میں مدفون ہیں۔اس مزار اور یہاں موجود مسجد کی تزئین نو کے لئے ترکی نے لاکھوں کروڑوں کی امداد دی ہے لیکن فلسطین کی حکومت نے یہ رقم اس مزار کی تعمیر و تزئین پر خرچ کرنے کے بجائے صرف اس سے اپنی جیبیں بھری ہیں۔مسلمانوں کے لئے فلسطین اور اسرائیل میں مذہب اور سیاحت کے ستارے باہم متصاد م ہیں؛ تاہم جیسا کہ عربی میں کہتے ہیں کہ ''شوی شوی‘ یعنی تدریجاً ہو سکتا ہے کہ حالات کسی دن سدھر جائیں۔ حقیقتاً حالات تبھی سدھریں گے جب مسلم دنیا فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اٹھ کھڑی ہو گی۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ مکہ اور مدینہ کے بعد جو مقامات مسلمانوں کے لئے مقدس ترین ہیں، ان پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور اسرائیل کا ارادہ یہ ہے کہ ان مقامات کو تباہ کر کے یہاں ہیکل تعمیر کئے جائیں۔ 
قرآن کریم میں حضرت موسیٰ کا نام ایک سو چھتیس با ر آیا ہے۔ تمام انبیا میں سے انہی کا ذکر قرآن میں سب سے زیادہ ہوا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمان ان کے مزار تک رسائی نہیں رکھتے!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں