مسلمان نامی مسئلہ

امریکی صدارتی انتخاب میں فتح کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک شخص سوال کرنے اٹھا تو یوں گویا ہوا: ''جناب، اس ملک میں ہمارا ایک مسئلہ ہے، نام جس کا ''مسلمان ‘‘ ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارے موجودہ صدر بھی مسلمان ہیں۔ وہ تو امریکی بھی نہیں۔ آج ہر جگہ تربیتی کیمپوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ لوگ ہمیں جان سے مار دینا چاہتے ہیں‘‘۔ سوال کرنے والا چاہ رہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسے بتائے کہ امریکہ آخر کب مسلمانوں سے نجات حاصل کرے گا؟ اس سے پہلے امریکی پولیس نے 14 سالہ احمد محمدکو ہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کیا تھا۔ اس بچے کو ''دہشت گرد‘‘ بھی پکارا گیا کیونکہ وہ ایک گھڑی بنا کر سکول لایا تھا تاکہ اپنی ٹیچر کو دکھا سکے۔ ٹیچر کا خیال تھا کہ وہ ایک بم ہے چنانچہ اس نے پولیس کو فون کر دیا۔ پانچ پولیس اہلکاروں نے احمد سے پوچھ گچھ کی جس کے دوران احمد کا یہی کہنا تھا کہ اس کی گھڑی کوئی بم نہیں۔ اس کی بات کسی نے نہیں سنی۔ بعد میں احمد نے میڈیا کو بتایا کہ اسے اس کے نام اور مذہب کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا؛ تاہم اس کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اب وہ ایک میڈیا سٹار بن چکا ہے۔ امریکی صدر بارک حسین اوباما نے اسے وائٹ ہاؤس مدعو کیا ہے اور ناسا والوں نے بھی اسے ملاقات کی دعوت دی ہے۔ فیس بک کے مارک زکر برگ بھی اس سے ملنا چاہ رہے ہیں۔ صدر اوباما نے یہ ٹویٹ بھی کی تھی: Cool clock, Ahmed.Want to bring it to the White House? We should inspire more kids like you to like science. It's what makes America great.
امریکہ میں اس وقت یہ بحث زور پکڑے ہوئے ہے کہ آیا تمام مسلمان دہشت گرد ہیں۔ پچھلے اتوار کو امریکی صدارتی انتخابات کے ایک اور امیدوارڈاکٹر بین کارسن نے اس بحث کو مزید شدت دی۔ موصوف ایک افریقی امریکی نیورو سرجن ہیں اور مذہباً کٹر عیسائی۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر کو مسلمان نہیں ہونا چاہئے کیونکہ بقول ان کے اسلام امریکی آئینی اقدار اور اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کا کہنا تھا: '' میں اس بات کی حمایت نہیں کروں گا کہ ایک مسلمان کواس قوم کی باگ ڈور دی جائے۔ اس امر سے مجھے قطعی اتفاق نہیں ہوگا‘‘۔ یہ مت بھولیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور بین کارسن جیسے نفرت انگیزی کو ہوا دینے والے لوگ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر بن سکتے ہیں، اور یقین کیجئے کہ وہاں ایسے جاہل اور احمق لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو دل و جان سے ان دونوں کی اسلام مخالف یاوہ گوئیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ لوگ امریکہ میں رہنے والے تین ملین مسلمانوں کو ''خطرہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ یہ نسل پرستی، مذہبی تعصب اور' اسلام ہراسی‘ (Islamophobia) امریکہ اور آزاد دنیا کی علامت بن سکتی ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ اسلام ہراسی جب سامنے آتی ہے تو امریکہ میڈیا کی جانب سے اس ضمن میں لاپروائی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ تعلیم یافتہ اور انتہائی ہنر مند مسلمانوں کی آواز وہاں کسی کو سنائی نہیں دیتی کیونکہ وہاں کوئی ایسی بارسوخ مسلمان تنظیم ہے ہی نہیں جو مسلمانوں کے لئے کھڑی ہو کر ان باتوں کے جواب میں کچھ کہے جو جاہل امریکیوں کی جانب سے اسلام کے بارے میں کہی جاتی ہیں۔ میڈیا میں سب سے زیادہ اسلام مخالف باتیں کہنے والا فاکس ٹی وی کا ایک سینئر اہلکار بل اوریئلی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف بیہودہ باتیں کہنے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ فاکس کے اپنے دیگر متعصب ساتھیوں سمیت بل اوریئلی دن رات مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا رہتا ہے۔ ان کی یہ اسلام ہراسی امریکہ بھر میں لاکھوں گھروں میں پہنچتی ہے۔ اگر ہم ایک سفید فام امریکی ہوتے تو ان کی طرح ہمیں بھی ہر اس چیز سے شدید نفرت ہوتی جس کا ان انیس ہائی جیکروں سے قریبی تعلق تھا جنہوں نے چودہ برس قبل ٹوئن ٹاورز سے ہوائی جہاز ٹکرائے تھے، ہم بھی ان لوگوں کی حمایت کرتے جونہیں چاہتے تھے کہ نیویارک میں جہاں یہ سانحہ ہوا۔ اس کے قریب کسی اسلامک سینٹر کی تعمیر ہو۔ ہم بھی یہی چاہتے کہ ان دہشت گردوں کے لئے ہماری سرحدیں بند ہونی چاہئیں جو امریکی تباہی کے خواہاں ہیں؛ تاہم کیا اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ امریکہ میں رہنے والے تمام مسلمان قاتل اور دہشت گرد ہیں؟ اگر آپ فاکس نیوز سنتے ہیں تو اس سوال کا جواب یقیناً اثبات میں ہے۔ اور یہاں سے ہماری کہانی شروع ہوتی ہے۔ رنگ دار اقوام کے لوگوں، خاص طور پر ان کے لئے جن کے نام اسلامی ہیں یہ ایک طویل، تنہا اور مشکل سفر ہوگا۔ ہم یہاں صرف امریکہ کی بات نہیں کر رہے، آج یورپ بھی اسلام ہراسی کے گھیرے میں ہے، لیکن یورپ کو الزام کیسے دیا جا سکتا ہے، اسے تو دہشت گردانہ حملوں سے متنبہ کیا گیا ہے۔ وہاں کے رہنے والے کہیں پہ بھی مارے جا سکتے ہیں، چاہے وہ سب وے میں جا رہے ہوں، کسی کیفے میں بیٹھے ہوں، تھیٹر میں بیٹھے ہوں یا بچوں کے ساتھ کسی پارک میں چہل قدمی کر رہے ہوں۔ جس عفریت نے اپنے قاتل پنجے امریکہ اور یورپ کے گرد پھیلائے ہیں اس کا نام القاعدہ ہے اور اب تو داعش بھی اس کے ساتھ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان سب کے ساتھ عام مسلمانوں کا کیا تعلق ہے؟ انہیں کیوں دہشت گرد قرار دے کر سزا کا مستحق سمجھا جا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب کسی ایک کالم میں دینا ممکن نہیں۔ یہ کہانی اتنی ہی پرانی ہے جتنی نیویارک کی پہاڑیاں پرانی ہیں، یا جتنے پرانے اسلام آباد میں مارگلہ کے پہاڑ اور پاکستانی قبائلی علاقوں میں تورا بورا کے غارہیں۔ تاہم سیاسی تاریخ اور سوشل انتھروپولوجی کا مطالعہ اس ضمن میں ہماری رہنمائی کر سکتا ہے۔ دیکھنا چاہئے کہ کس طرح سی آئی اے اور اس کے اہلکاروں نے امریکہ سے بہت دور موجود ممالک میں لوگوں کو قتل کیا، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا، انہیںمعذورکیا، حتیٰ کہ وہاں حکومتیں بھی ختم کیں۔ کیوں اور کیسے؟ اگر اس کیوں کا جواب پانے میں کسی کو دلچسپی ہے تو ماضی اور حال کی کتابوں کا اسے گہرا مطالعہ کرنا ہوگا تاکہ سمجھ سکے کہ کس طرح امریکہ نے پاکستان سمیت دنیا کی کمزور اقوام کو کنٹرول کیا ہوا ہے۔ چند سال قبل ''The Wars That America Forgot About‘‘کے عنوان سے ایک کالم میں تجربہ کار نیوز اینکر ٹام بروکا نے ذکرکیا ہے کہ کس طرح امریکی، اسلام مخالفت میں بڑھ رہے ہیں؛ حالانکہ خرابی خود وائٹ ہاؤس میں ہے۔ وہ لکھتے ہیں: '' ایک قوم کو جنگ میں جھونک دینے سے زیادہ اہم اور کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ سیاستدانوں کے بقول یہ ہمارے خون اور خزانے کا سوال ہوتا ہے۔ بے شک خون اور خزانہ دونوں ہی اس قابل ہیں کہ انہیں اس سے زیادہ توجہ دی جائے جتنی انہیں اس وقت (مڈ ٹرم انتخابات کی) مہم میں دی جا رہی ہے‘‘۔ افغانستان اور عراق میں جنگ کو ٹام بروکا نے امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگیں قرار دیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس جنگ میں تقریباً پانچ ہزار امریکی مرد و زن مارے جا چکے ہیں، تیس ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے بعض ایسے ہیں جنہیں گھروں کو واپس بھیج دیا گیا ہے۔ یہ لوگ اب اپنے خاندانوں اور کمیونٹیوں پر ایک بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ ان نو برسوں میں امریکہ نے ایک ٹریلین ڈالرسے زائد رقم جنگی مہمات اور جنگ سے متعلقہ دیگر کارروائیوں پر صرف کی ہے جس میں بیرونی امداد، تعمیر نو کے منصوبے، سفارت خانوں کا خرچہ اور فوجیوں کی صحت سے متعلقہ اخراجات شامل ہیں۔
پچھلے پندرہ برسوں سے امریکہ میں رہتے ہوئے ہم نے نوٹ کیا ہے کہ نسل، رنگ، زبان اور عقیدے کی بنیاد پر لوگوں کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ باہر کے لوگ اندازہ نہیں کر سکتے کہ وہ مسلمان کس قدر تکلیف میں ہیں جو امریکہ کو اپنا گھر سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ تاہم ہمارے اردگرد ایک مستحکم اور باوقار زندگی گزارنے کے لئے اپنے مستقبل کی خوشحالی کی جانب کوشاں عام لوگوں کی کامیابیوں کی داستانیں ہمارے لئے امید افزا ہوتی ہیں۔ 
بیشک، امریکہ میں آج بھی قانون کی بالادستی، شفافیت اور انصاف موجو د ہے۔ سرزمینِ آزادی یہ آج بھی ہے اور یہی اس کی عظمت کا راز ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں