ایک ارب روپے ہوں گے؟

معروف انگریزی مصنفہ جوائین کیتھلین یعنی جے کے رولنگ سے ہم کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔۔۔۔کیا پاکستان کے ضرورت مند بچوں کے لئے ان کے پاس ایک ارب روپے ہوں گے؟ یہ نہیں بھولیں کہ قصور کے حسین خاں والا نامی گاؤں میںسینکڑوں بچے بیس پچیس افراد کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ ان لوگوں نے زیادتی کے دوران ان بچوں کی ویڈیوز بھی بنائی تھیں جن کی تعداد چارسو ہے۔ اسی طرح کی افسوسناک خبریں حافظ آباد سے بھی موصول ہوئیں۔ اگر یہ خبریں عالمی میڈیا میں شائع ہوتیں تو شاید جے کے رولنگ کی نظر بھی ان پہ پڑ جاتی ۔ آخر ''Lumos‘‘ انہوں نے تبھی بنائی تھی جب چیک ری پبلک میں تشدد کے شکار بچوں کی تصویریں، جن میں انہیں بستروں سے بندھا دکھایا گیا تھا، برطانوی میڈیا میں شائع ہوئی تھیں۔ کچھ عرصہ قبل ''Pakistan's hidden shame‘‘ کے نام سے ایک دستاویزی فلم نشر کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح پاکستان میں چھوٹے چھوٹے بچے ہوس پرستوں کا شکار بنتے ہیں۔ اس دستاویزی فلم میں ہمیں ایک جھلکی عمران خان کی بھی دکھائی دیتی ہے۔ وہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بچوں کے ساتھ اس قدر بد سلوکی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم من حیث القوم اپنے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مگر پھر ساتھ ہی انہوں نے اپنی سیاست بھی کھیلی اور فوراً ہی الزام پنجاب حکومت پر لگایا کہ آخر پنجاب کے بچوں کے ساتھ ایسا کچھ وہ کیوں ہونے دیتی ہے؟ سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک کے کروڑ پتی اور ارب پتی لوگ کہاں ہیں؟ 
انہوں نے بھی تو اپنی دولت پاکستانی عوام کے ذریعے کمائی ہے۔کیا انہیں نہیں چاہئے کہ وہ بھی جے کے رولنگ کی طرح آگے آئیں اور معصوم بچوں کو معاشرے ہر قسم کے ظلم سے بچانے کی کوشش کریں؟ کچھ عرصہ پہلے ہی جے کے رولنگ نے اپنی پچاسویں سالگرہ منائی ہے۔ وہ پہلی مصنفہ ہیں جنہوں نے اپنی تحریروں سے اربوں کمائے ہیں۔ تاہم اب اس سے زیادہ قابلِ فخر بات ان کے لئے یہ ہے کہ انہوں نے جیلوں میں بند اور اپنے خاندانوں سے جدا کئے گئے سینکڑوں بچوں کی مدد کی ہے۔ اس مقصد کے لئے کام کرنے والی ان کی تنظیم ''Lumos‘‘ کے قیام کو بھی اب دس برس بیت چکے ہیں۔ جے کے رولنگ وہی خاتون ہیں جو ایک تنہا ماں کے روپ میں لندن کے ایک سرد اور تنگ فلیٹ میں حکومتی خیرات پہ گزارا کرتی تھیں۔ اپنی چھوٹی سی بچی کی ذمہ داری بھی انہی پر تھی۔ اپنی بیٹی کو سردی سے بچانے اور اس کے لئے ڈائپرز خریدنے تک کے پیسے ان کے پاس نہیں ہوتے تھے۔ انہیں گرمائش کے لئے سرکاری ٹائلٹس جا کر پناہ لینی پڑتی تھی۔ وہیں ادھر ادھر بکھرے ڈائپرز وہ استعمال کرتی تھیں۔
1990ء میں مانچسٹر سے لندن بذریعہ ٹرین جاتے ہوئے انہوں نے 'ہیری پوٹر‘ تخلیق کیا اور وہ بھی ٹائلٹ پیپر پر۔ وہ کہتی ہیں کہ ''ہیری پوٹر خود بخود اپنی پوری ساخت سمیت میرے ذہن میں آیاتھا، یہ ایسا تھا جیسے میں پہلی بار اس سے مل رہی تھی‘‘۔ اربوں ڈالر کمانے والی اپنی کہانی کے پلاٹ کے بارے میں وہ اکثر یہ بتاتی ہیں کہ ''میں نہیں جانتی کہ یہ پلاٹ کہاں سے آیا۔ شروعات اس کی ہیری کے ساتھ ہوئی تھی۔ بعد میں دیگر کردار اور مناظر و حالات بھی میرے ذہن میں آتے گئے‘‘۔ شروع میں ان کے پاس اپنے زرخیز دماغ میں اتنی سرعت کے ساتھ آنے والی کہانیوں کو لکھنے کے لئے کاغذ تک میسر نہیں تھا، تاہم شاید یہی بات ان کے لئے نعمت ِ غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔ وہ خود کہتی ہیں کہ ''اگر اسی وقت یہ سب کچھ ضبطِ تحریر میں لانے کے لئے میں رک گئی ہوتی تو عین ممکن تھا کہ چھان پھٹک میں کئی تصورات کو رد کر دیتی‘‘۔ چنانچہ ایک بار جب پوری کہانی ان کے ذہن میں تشکیل پا گئی تبھی وہ نزدیک ترین سرکاری ٹائلٹ گئیں، وہاں سے ٹائلٹ پیپر اٹھایا، کسی سے قلم ادھار مانگا اوراپنے اس چار گھنٹوں کے سفر میں ایک کتاب نہیں بلکہ اس کے سات سیکوئیل تک کے پلاٹ لکھ ڈالے۔ اسے قسمت کا جاگنا نہیں تو اور کیا کہا جا سکتا
ہے؟2005 ء میں ان کا زرخیز ذہن اس وقت ایک بار پھر متحرک ہوا جب انہوں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کی تصویرں دیکھیںکہ کس طرح ان کے بستروںپرسلاخیں لگا کر انہیں''بستر بند‘‘ کیا جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر انہوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ ان بچوں کو آزاد کروا کے دم لیں گی۔ چنانچہ انہوں نے ''Lumos‘‘ کے نام سے ایک امدادی تنظیم قائم کی۔ آج ان کی یہ تنظیم بلغاریہ، چیک ری پبلک، مالڈووا اور مونٹی نیگرو جیسے ممالک میں یتیم، جسمانی یا دماغی لحاظ سے معذور، خوراک کی کمی اور جنسی زیادتی کے شکار بچوں کی بہبود کے مختلف منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ انہیں امید ہے کہ آنے والے برسوں میں ان کی اس تنظیم کا دائرہ عمل یورپ سمیت دیگر ممالک تک پھیل جائے گا اور بچے ایک محفوظ ماحول میں پرورش پایا کریں گے جہاں ان کے ساتھ پیار اور محبت کا سلوک کیا جائے گا۔ یہ ان کا خواب ہے کہ تمام بچے بڑے بڑے اداروں کی بجائے، جہاں بے حسی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، ایسے محفوظ ماحول میں پرورش پائیں جہاں ان سے پیار و محبت سے پیش آیا جائے۔ بچوں پر ان کی اس قدر توجہ کا سبب یہی ہے کہ انہوں نے بچوں(اور بڑوں پر بھی) اپنی تحریروں کے جادو سے اربوں کمائے ہیں۔
انہیں لگتا ہے کہ اب اس کے صلے میں بچوں کو کچھ واپس بھی دینا چاہئے، ان بچوں کو جنہیں یتیم ہیری پوٹر ہی کی مانند ایک چھت کے نیچے ایک خاندان کے ساتھ معمول کی خوشحال زندگی گزارنے کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ہیری پوٹر سیریز بھی نیک و بد کی جنگ کی کہانی ہے۔ہالی ووڈ نے اس کہانی پر مبنی آٹھ بلاک بسٹر فلمیں بنائیں اور اربوں ڈالرزکمائے ہیں۔ جے کے رولنگ کی اپنی زندگی کسی افسانے سے کم نہیں۔ تخلیقی تحریر کے فن میں ان کے پاس کوئی رسمی ڈگری نہیں۔ (حالانکہ آج کل فکشن لکھنے والوں کے لئے لازمی کر دیا گیا ہے کہ وہ تخلیقی تحریر کے فن کے حوالے سے تفصیلی تربیتی ورکشاپوں میں شریک ہوں گے) اس کے باوجود وہ سب سے آگے نکل گئیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں اپنے خطاب میں انہوں نے طلبہ کو بتایا: ''جو کچھ میں تھی، اس سے زیادہ خود کو سمجھنا میں نے چھوڑ دیا تھا اور اپنی تمام تر توانائیاں اسی ایک کام پہ مرکوز کر دی تھیں جو میرے لئے اہمیت رکھتا تھا۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے کوئی ڈگری میں نے نہیں لی‘‘۔ تاہم 2008ء میںاسی یونیورسٹی میں سال کے افتتاحی خطاب کے لئے انہیں دعوت دی گئی تھی۔ وہاں تازہ گریجوایٹ ہونے والے طلبہ کے سامنے جے کے رولنگ نے اپنا دل کھول کے رکھ دیا تھا۔ انہوں نے طلبہ کو بتایا کہ ''اپنی گریجوایشن کے سات برس بعد میں خود کو ایک ناکام ترین انسان سمجھتی تھی۔ میری زندگی بالکل برباد ہو چکی تھی۔ شادی بھی ناکام رہی، ملازمت بھی کوئی نہیں تھی اور ایک بچے کی ذمہ داری بھی مجھ پر تھی؛ تاہم ناکامی غیر ضروری چیزوں کو مجھ سے دور کرنے کا سبب بنی۔ اگر میں کسی بھی اور چیز میں کامیاب ہو جاتی تو ہو سکتا ہے کہ مجھے اس ایک شعبے میں کامیاب ہونے کی ہمت نہ ملتی جو میرے لئے موافق ترین ہے۔ میں آزاد تھی کیونکہ میرے بد ترین خدشات سچ ہو چکے تھے۔ میرے پاس ایک پرانا ٹائپ رائٹر تھا اور تصورات کا خزانہ بھی، چنانچہ ناکامی کا پاتال ہی وہ گہری اور مضبوط بنیاد بنا جس پہ میں نے اپنی زندگی دوبارہ تعمیر کی‘‘۔
جے کے رولنگ کی زندگی میں کئی اسباق ہیں ان سب کے لئے جو ایسے اسباق کی جستجو میں ہیں یا پھر فی الوقت مایوسی کا شکار ہوئے بیٹھے ہیں۔کیا سختیوں اور مصائب سے انسان کی سوچ بدل جاتی ہے؟ ایک شخص کی زندگی تو واقعی مصائب نے ہی بدلی ہے۔ نام اس کا والٹ ڈزنی ہے۔کیلی فورنیا اور فلوریڈا میں ہر سال لاکھوں افراد کو اپنی جانب کھینچ لانے والے ڈزنی لینڈ نامی تھیم پارکس کے خالق اور اینی میشن کی دنیا کے بادشاہ! ان کا قول ہے کہ ''اپنی زندگی میں جتنے مصائب، جتنی تکلیفیں اور رکاوٹیں میں نے سہی ہیں، ان سب نے مجھے پہلے سے زیادہ مضبوط کیا ہے۔ ہمیں اس وقت تو شاید اس کا احساس نہ ہو لیکن کبھی کبھی منہ پر پڑنے والی ایک لات ہمارے لئے دنیا کی بہترین چیز ثابت ہوجاتی ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں