کیا ایسے لیڈروں سے چھٹکارا ممکن ہے؟

سندھ کے وزیر اعلیٰ کراچی شہر کی سڑکوں کا دورہ کرنے اپنی محل نما سرکاری رہائش گاہ سے نکلے تو میڈیا میں شہ سرخیوں کے ساتھ اس کی خبردی گئی۔ انہوں نے ایک ہفتے کے اندر اندر تمام خستہ حال شہری سہولیات کی مرمت اور بحالی کی تکمیل کا جو حکم دیا وہ بہت بڑا مذاق معلوم ہوتا ہے۔ سندھ میں عنانِ حکومت نجانے کب سے انہی کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی انہی کے دور میں تباہی کے اس حال تک پہنچا ہے۔ سو اب انہوں نے اپنے ماتحتوں کو یہ سب ٹھیک کرنے کا جو کہا ہے اس پر انسان صرف قہقہہ ہی لگا سکتا ہے۔ ان کے ماتحتوں کو کرپشن کے سوا کچھ نہیں آتا۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم دونوں جماعتوںکے سیاستدانوں نے اپنی لالچ سے روشنیوں کے اس شہر کو ماند کر رکھا ہے۔ پچھلے ہفتے ہم کراچی میں تھے۔ برسوں پہلے ہم وہاں کلفٹن روڈ پر ایک اپارٹمنٹ میں رہا کرتے تھے لیکن اب کلفٹن روڈ کو ہم پہچان بھی نہیں پائے۔کلفٹن کے پل سے آگے کا سارا علاقہ گویا ایک کنکریٹ کے جنگل کا نظارہ پیش کر تا ہے، ہر طرف بجلی کے تار لٹکتے نظر آتے ہیں، ٹوٹی پھوٹی کھڑکیاں اور بد صورت ہورڈنگز بھی اسی نظارے میں شامل ہیں۔ چاروں طرف گٹر کھلے ہوئے ہیں اور جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر پڑے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر ہمیں بہت صدمہ ہوا۔ ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ کرپٹ سیاستدانوں اور بے ایمان بیوروکریٹس نے کراچی کے خوبصورت ترین علاقے کو اس طرح گندگی کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ کراچی میں تعمیراتی کاموں میں تیزی 2008ء کے موسمِ گرما میں دیکھنے میں آئی تھی۔ اس وقت یہ شہر کنکریٹ کا جنگل نہیں بنا تھا، عمارتیں خوبصورت تھیں، ہر طرف فلائی اوورز، اونچی عمارتیں اور خوبصورت سڑکیں دکھائی دیتی تھیں۔ ساحلی علاقہ آلودگی سے پاک تھا۔ خوشگوار ہوائیں چلتی رہتی تھیں اور سورج کی تمازت کبھی ناقابلِ برداشت نہیں ہوتی تھی۔ نجانے پھر کیوں لوگ سامان سمیٹ کر دبئی جا نے لگے جہاں موسم شدید تھا اور ماحول بھی ناموافق! حقیقت یہ ہے کہ آٹھ سال پہلے بھی اقتصادی بحرانوں سے قطع نظر، یعنی جب افراطِ زر کی شرح 24.3 فیصد کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی تھی، ہر نوع کے مسخروں پہ مشتمل ہمارے سیاسی سرکس نے صرف کراچی کو ہی نہیںبلکہ پورے ملک کو یرغمال بنا رکھا تھا۔ اس وقت ہم جس سے بھی ملے اس کی اپنی الگ رائے تھی۔افسوس کہ زیادہ تر کی رائے منفی ہی تھی۔ گویا حکمران پی پی پی اور اس کی حلیف ایم کیو ایم پر یہ ان کا عدم اعتماد تھا۔لوگ پوچھتے تھے کہ یہ لوگ عقل بھی رکھتے ہیں یا محض بچوں کی طرح ایک دن ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کھیلنا اور اگلے دن ایک دوسرے پرالزام تراشی کرنا ہی انہیں آتا ہے؟ آٹھ سال پہلے سیاستدانوں سے یہی نفرت اور برانگیختگی ایک نئی قسم کی دہشت گردی تھی؛ تاہم اس دہشت گردی میں خود کش جیکٹوں کا دخل نہیں تھا۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال یہ تھا کہ ہمارے لیڈروں کے لمبے چوڑے منصوبوں کی حمایت کا وقت پاکستانی عوام کے پاس نہیں جن کی قسمت میں زوال ہی لکھا ہے۔ لہٰذا ان (حکمرانوں) کی مدت اقتدار کم ہوتی جا رہی تھی اور ان کے متبادل کے طور پر کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ اس خلا کے باعث فوج کو مداخلت کی دعوت ملی۔ مشرف کو گئے کئی دن بیت چکے تھے لیکن پی پی پی کے چیئرمین آصف زرداری اور اپوزیشن لیڈر نواز شریف ایک دوسرے کی پیٹھ میں چھرے گھونپنے میں مصروف تھے۔ زرداری صاحب خلعتِ صدارت زیب تن کر کے پاکستان پہ حکمرانی کے خواہاں تھے؛ حالانکہ سوئس حکام کہہ رہے تھے کہ ان کے دو بینکوں سے کک بیکس لینے کے الزام میں زرداری صاحب کے خلاف تفتیش کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف نواز شریف پاکستان کے پوسٹر بوائے بن کر عوامی مقبولیت کے بل بوتے پر پی پی پی کی نائو ڈبونا چاہ رہے تھے تاکہ ان کی نون لیگ برسراقتدار آجائے۔ خیبر سے کراچی تک کے خود غرض سیاستدان ان دونوںکی مدد کرتے رہے اور ان دونوں نے اپنے گندے کھلواڑ کے لیے پورے ملک کو میدان بنا لیا۔ اس میں نقصان صرف پاکستانیوں کا ہی ہوا۔ سیاستدانوں نے ملک کا جو حال کیا اسے بیچارے پاکستانی نا امیدی کے عالم میں بے بسی کے ساتھ بس کھڑے دیکھتے ہی رہ گئے۔ کلفٹن میں محمد ریاض نامی ایک دکاندار سے ہماری بات چیت ہوئی، وہ اندھیرے میں بیٹھا ہوا تھا جبکہ اس کے ارد گرد کی دکانیں یو پی ایس اور چھوٹے جنریٹرز کے ذریعے روشن تھیں۔ محمد ریاض ایم کیو ایم کا حامی ہے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ہم اسی طرح یکے بعد دیگرے بحرانوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔ جنریٹروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ایسے آلات خریدنے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں، میں بہت غریب ہوں۔ اس نے کہا: ''میں تو اتنے پیسے بھی نہیں کما پاتا کہ اپنے گھر والوں کو دو وقت کا کھانا کھلا سکوں لیکن ہمارے لیڈر قیمتی صوفوں پہ بیٹھ کر ہنسی مذاق کرتے رہتے ہیں۔ ارب پتی بننے کے لیے انہوں نے ہمارا مستقبل تباہ کر دیا ہے‘‘۔ رضا خان ایک ڈرائیور تھا جو ایک رینٹل کار چلاتا تھا۔ کراچی میں بنارس کالونی میں اس کی رہائش تھی۔ ہم سہراب گوٹھ سے گزر رہے تھے جہاں اکثریتی آبادی پختون ہے۔ رضا خان نے ایک بس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بس کراچی اور سرحد کے بیچ چلتی تھی۔ اپنے گھروں کو جانے والے پختونوں کو لانے اور لے جانے کا کام یہ کرتی تھی۔ بیس گھنٹوں کے اندر اندر یہ منزل تک پہنچا دیا کرتی تھی اور ایک ہزار اس کا کرایہ ہوا کرتا تھا۔ اس بس سروس کے مالکان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ سمگلروں اورغیر قانونی اسلحے کا کاروبار کرنے والوں کو یہ بسیں استعمال نہ کرنے دیں۔ ہمیں رضا خان کا رویہ پسند آ رہا تھا۔ ہمارے لیے وہ ایک کراچی وال پہلے تھا اور پختون بعد میں! رضا نے گویا ہماری سوچ پڑھتے ہوئے ہمیں یہ بتایا کہ وہ یہیں پیدا ہوا اور یہیں پلا بڑھا ہے۔ جو بے مثال تعمیراتی کام وہاں ہوئے ان کے بارے میں وہ ایک احساسِ ملکیت سے ہمیں بتا رہا تھا اورڈی ایچ اے کے کام کو اس نے سراہا بھی۔ بہتے پانیوں، لہراتے درختوں، گولف کورس میں کھیلتے کھلاڑیوں اور کلب کی سرگرمیوں میں مگن چھوٹے چھوٹے بچوں کو سنبھالتی نوجوان مائیں، یہ سب دیکھتے ہوئے ہمیں کراچی ایک زمانے کا بیروت معلوم ہو رہا تھا۔ لیکن یہ سب ہمارا خواب تھا، کراچی بیروت کی بجائے کوئی افریقی ملک بنتا جا رہا ہے۔ ہم نے جب اپنے بھانجے کو بتایا کہ ایک بار ہم بنارس کالونی میں ایک مقامی رہنما کی کارنر میٹنگ میں شریک ہوئے تھے تو اس نے ہمیں کہا کہ اب اس طرف دیکھنے کی کوشش بھی نہ کیجئے گا۔ اگلے دن ہمارے بھانجے نے میسج کر کے ہمیں بتایا کہ اسی علاقے میں اس سے گن پوائنٹ پر بٹوا اور دو سیل فون چھین لیے گئے ہیں۔ پچھلے ہفتے ہمارے ایک ساتھی صحافی نے بھی ہمیں بتایا تھا کہ یہاں اسے گن پوائنٹ پر حراست میں لے کر ہراساں کیا گیا تھا اور اس سے پیسے بھی چھین لئے گئے تھے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ مختلف اوقات میں یہاں اس کی بیوی اور بچیاں بھی رہزنی کا شکار ہوئی ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ رینجرز نے جرائم کی شرح کم کر دی ہے لیکن اسٹریٹ کرائم بدستور زوروں پر ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں