ایک فانی انسان

رات گئے فون کی گھنٹی بجی۔ مین ہٹن میںزندگی ہنوز رواں دواں تھی۔ فضائوں میں تیز ہوا کی گونج اور پولیس سائرن کی چنگھاڑ کانوں کو ناقوسِ مرگ کی طرح محسوس ہو رہی تھی۔ اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ سے آنے والی وہ فون کال ہمارے بھائی نے سنی۔ اس کے چہرے پہ سنجیدگی چھائی ہوئی تھی لیکن اس نے کہا کچھ نہیں۔ اگلی صبح ہماری والدہ نے، جن کا کچھ دیر میں آپریشن ہونے والا تھا، اپنا ٹرانزسٹر ریڈیو چلایا۔ خبروں کی شہ سرخیوں میں بتایا جا رہا تھا کہ چند گھنٹے قبل ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی ہے۔ ہماری والدہ کہا کرتی تھیں: ''اگر ضیاء بھٹو کو چھوڑ دیتا تو میرا کینسر ختم ہو جاتا‘‘۔
مدتوں پہلے کی بات ہے‘ جب کراچی کے انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل کے نسرین روم میں ہر شب مشاہیر کی موجودگی کی بدولت گہما گہمی رہتی تھی۔ انہی میں سے ایک ذوالفقار علی بھٹو بھی تھے۔صدر ایو ب کی کابینہ میں وزیرِخارجہ کے عہدے سے وہ تازہ تازہ برطرف کئے گئے تھے۔ نسرین روم کی تزئین و آرائش میں لال اور سنہرے رنگ کا استعمال بکثرت ہوا تھا۔ رات گئے تک وہاں کا بینڈ مقبول نغمات بجایا کرتا تھا۔ ہم نے بھٹو صاحب سے زیادہ باوقار ڈانسر اور کوئی نہیں دیکھا۔ خواتین کو وہ اپنے سحر میں جکڑ لیتے تھے۔ ڈانس میں ان کا ساتھ دینے والی خواتین بھی حسین ترین ہوا کرتی تھیں۔ ہمیں یاد ہے‘ مصطفی اور ماریہ جتوئی نے پی ای سی ایچ ایس میں اپنے پہ ایک پارٹی دی تھی۔ اس پارٹی میں بھٹو صاحب نے اپنی ڈانس پارٹنر کے طور پر عذرا محمود حسن جیسی دلکش خاتون کو چنا تھا۔ عذرا محمود‘ مخدوم زادہ سید حسن محمود کی اہلیہ تھیں جو ایک زمانے میں ریاست بہاولپور کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔ عذرا محمودچھوئی موئی سی لگ رہی تھیں، گلِ سوسن جیسی نازک! وہ جوانی میں ہی دنیا سے کوچ کر گئی تھیں۔ ہر معاشرے ، ہر ملک اور ہر قوم کو ہیروز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم لوگ ہیروز کے بھوکے ہیں۔ پاکستان میں71ء کے تاریک موسمِ سرما میں ایک ستارے نے جنم لیا تھا۔ ہم اپنا نصف ملک کھو چکے تھے اور گھائل تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی آمد ہوئی۔ اقوامِ متحدہ میں ان کی تقریر نے قوم میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ ان کے الفاظ ہماری سماعتوں کے لئے بہت خوشگوار تھے، خاص طور پر اس لئے بھی کہ اس وقت جنگی جہازوں، اینٹی ایئرکرافٹ گنوں اور جنگی سائرنوں کی گھن گرج میں ہمیں پی ٹی وی پر کالے کرتے میں ملبوس‘ بکھرے بالوں اور بڑی بڑی کالی مونچھوں والے گلوکار شوکت علی کی آواز میں یہ نغمہ رات دن مسلسل سنائی دیتا رہا۔۔۔۔ ''اے دشمنِ دیں، تو نے کس قوم کو للکارا‘‘۔ بھارتی طیارے ہمارے شہروںپہ مسلسل بمباری کر رہے تھے۔ اگر ہمیں مستقبل کی کوئی امید بندھی تھی تو اس کی وجہ ذوالفقار علی بھٹو کے حوصلہ افزا الفاظ تھے۔ ہم سب جلد ہی ان کے پیچھے ہو لئے۔ ان کی باتیں ہمارے لئے حکم کا درجہ اختیار کر گئیں۔ انہوں نے ہمیں مایوس بھی نہیں کیا۔ موت اور تباہی کے مہیب سایوں سے پاکستان جلد ہی باہر نکل آیا اور اب اسے اقوامِ عالم میں اپنی جگہ پانے کی جستجو تھی۔ ریڈیو اور ٹی وی پہ بھٹو صاحب کی اس پہلی تقریر کے الفاظ ہمارے ذہن میں آج بھی یوں تازہ ہیں جیسے یہ کل کی بات ہو: 
"My dear countrymen, my dear friends, my dear students, labourers, peasants... those who fought for Pakistan... We are facing the worst crisis in our country's life, a deadly crisis. We have to pick up the pieces, very small pieces, but we will make a new Pakistan, a prosperous and progressive Pakistan."
پاکستان کے چوتھے صدر کی حیثیت میں ذوالفقار علی بھٹو نے مطلوبہ اقدامات کئے اور انہیں قانونی حیثیت دیتے ہوئے جلد ہی پاکستان کوگہما گہمیوں کا مرکز بنا دیا۔ ہماری روزمرّہ زندگی ریاستی امور کے ساتھ ایسی جڑ گئی کہ عام شہری ہونے کے باوجود ہمیں یہی محسوس ہوتا تھا کہ ریاستی کاموں میں ہمارا بھی ایک کردار ہے۔ بھٹو صاحب کا سحر، ان کا شخصیاتی کرشمہ اور ان کا اخلاص ہی کچھ ایسا تھا۔ پاکستان کو آہستہ آہستہ آگے بڑھانے کے لئے سبھی لوگ قومی سرگرمیوں کے اس گرد باد میں جیسے کھچے چلے آ رہے تھے۔ بھٹو صاحب ایک ایسے انسان معلوم ہوتے تھے جن کے پاس کرنے والے کاموں کی ایک فہرست ہوتی ہے اور اس فہرست میں موجود ہر کام کو وہ جلد از جلد نپٹا دینا چاہتے تھے۔انہوں نے ایک نئی کابینہ بنائی، جنرل گل حسن کو نیا آرمی چیف تعینات کیا، نئی لیبر پالیسی کا اعلان کیا جس کے تحت مزدوروں اور مزدور یونینوں کو بااختیار بنایا گیا۔ زمین کی ملکیت کی ایک حد مقرر کی اور ایک ملین ایکڑ سے زائد رقبہ ریاستی قبضے میں لے کر بے زمین افرا دمیں تقسیم کر دی۔ دو ہزار سے زیادہ کرپٹ سرکاری ملازمین کو برطرف کیا، 93,000 جنگی قیدیوں کو رہائی دلوائی، اندرا گاندھی کے ساتھ تعلقات میں بہتری لائے‘ پہلے ایٹمی ری ایکٹر کا افتتاح کیا‘ قومی اسمبلی کا اجلاس بلوایا، مارشل لاء اٹھایا۔1973ء میں متفقہ دستور پہ دستخط کر کے اسے قانونی حیثیت دی اور بالآخر چودہ اگست 1973ء کو پاکستان کے دسویں وزیر اعظم بن گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ وہ کراچی کو بیروت بنا ئیں گے۔ کلفٹن کے ساحل پہ ایک کسینو تعمیر کیا گیا۔ ہم بڑے فخر سے یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ضیاء کے ہاتھوں اس کسینوکے انہدام سے چند ماہ قبل ہم وہاں اس کئی منزلہ عمارت کی شاندار تزئین و آرائش کا سارا نظارہ کر چکے تھے۔ وہاں کی کھڑکیوں کی آرائش کے لئے نفیس ترین مخملیں پردے لگائے گئے تھے، صوفے بیش قیمت بروکیڈ سے ڈھکے تھے، کٹلری چاندی کی تھی جس پر KC یعنی کراچی کسینو کھدا ہوا تھا۔کھانے کے برتن بھی نفیس چینی کے تھے اور ان پر بھی KCکے حروف کندہ تھے۔یہ تمام چیزیں اس قدر شاہانہ تھیں کہ کسی شاہی دعوت کے لئے موزوں معلوم ہوتی تھیں۔ وہاں ایرانی قالین بچھے تھے۔کمروں میں لٹکے پردے بالکل مونٹی کارلو کے کسینوز کی یاد تازہ کرتے تھے۔ اگر اس جگہ کو چلنے دیا جاتا تو شاید یہ شہر بالکل بدل جاتا۔ وہاں سارا ساز و سامان جو تزئین و آرائش کے لئے استعمال ہوا تھا، گیاکہاں؟ آپ اور ہم اس سے یکساں طور پر بے خبر ہیں! بھٹو صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کے چار برسوں میں پاکستان عالمی طاقتوں کی نظر میں آنے میں کامیا ب رہا۔ انہوں نے بنگلہ دیش کا دورہ کر کے یادگارِ شہداء پہ پھول چڑھائے اور شیخ مجیب الرحمان کو 1974ء کی اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لئے لاہور آنے کی دعوت دی۔ دنیا بھر سے آنے والے مسلمان قائدین کی پاکستان آمد کے نظارے ہم نے پی ٹی وی کے ذریعے اپنے کمروں میں دیکھے۔ اس وقت ہم جہلم میں رہا کرتے تھے لیکن روحانی طور پر خود کو پنجاب اسمبلی لاہور میں محسوس کرتے تھے جہاں اجلاس ہورہے تھے ، یا گورنر ہائوس میں جہاں شاہوں، صدور اور وزرائے اعظم کے اعزاز میں تقاریب منعقد ہوتی تھیں، یا شالیمار باغ میں جہاں بھٹو صاحب نے روح کو جھنجھوڑ دینے والی تقریر کی تھی، یا پھر لاہور کے شاہی قلعے میں جہاں سعودی عرب کے شاہ فیصل اور دیگر معزز مہمانوں نے بھٹو صاحب اور بیگم نصرت بھٹو کی میزبانی میں جشنِ رنگ و بو ملاحظہ کیا تھا۔ اقتدار پر مطلق اختیار کی بدولت بھٹو صاحب میں اندرونی طور پر 'خود تباہی‘ کی جبلت متحرک ہو گئی تھی۔ منفی جبلت کا لبادہ اوڑھ کر انہوں نے ہر اس انسان کو ڈرانا شروع کر دیا جس سے وہ نفرت کرتے تھے۔ انتقام اور حساب چکانا ان کا کھیل بن گیا۔ بہت سے لوگ جان بچانے کے لئے ملک چھوڑکر چلے گئے۔ انہیں اپنا آپ ناقابلِ تسخیر معلوم ہوتا تھا۔ اقتدار کے نشے میں چور ہو کر وہ سمجھنے لگے کہ کوئی بھی چیز ان کی تباہی کا سبب نہیں بن سکتی۔ البتہ ہم یہ ضرورکہنا چاہیںگے کہ جب ایوب خان کے ساتھ ان کے اختلافات پیدا ہوئے تو ہمارے والد اس زمانے میں صدر ایوب کے پرنسپل سیکرٹری ہوا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب انہیں کال کر کے کہتے کہ وہ صدر ایوب سے معافی مانگنے میں ان کی مدد کریں۔ ہمارے والد صاحب بھٹو صاحب کی ہرکال سنتے لیکن بڑی نرمی سے وہ بیچ میںپڑنے سے معذرت کر لیتے تھے،کیونکہ ایسا کرنا ان کے لئے ممکن نہیں تھا۔ تاہم بھٹو صاحب جب وزیر اعظم بنے تو ہمارے والد صاحب کو انہوں نے نئی دہلی میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا۔ وہاں ہمارا سفارتخانہ 1971ء سے بند پڑا تھا۔ ہمارے والد صاحب کا انتخاب انہوں نے میرٹ پہ کیا تھا، کم از کم یہاں انہوں نے کسی قسم کی انتقام پسندی سے کام نہیں لیا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں