پہلے معلومات، پھر تحقیقات

ایک قانون پاکستان میں ایسا ہے جس کے تحت شہری ہر قسم کی غیرکلاسیفائڈ معلومات تک رسائی کا حق رکھتے ہیں۔ یہ قانون FOIA یعنی فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کہلاتا ہے۔ 2013ء میں پارلیمنٹ سے یہ بل منظوری ہوا۔ اس کے تحت اب تمام ریاستی دستاویزات اور معلومات عوام کے لئے قابلِ رسائی ہیں۔ اس سے قبل 2010ء میں آئینی ترمیم کرتے ہوئے آرٹیکل 19-A متعارف کرایا گیا تھا جس میں یہ ضمانت دی گئی کہ ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ متعلقہ قوانین اور ضوابط کے اندر رہتے ہوئے وہ عوامی اہمیت کے حامل تمام معاملات کے حوالے سے معلومات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے؛ تاہم یہ بل نہایت غیر مؤثر ثابت ہوا۔ مثال کے طور پر کراچی کے ایک سماجی کارکن نعیم صادق نے چند سوالات پوچھے ہیں‘ جن کے جوابات انہیں کبھی بھی نہیں مل سکیں گے۔ ان کے سوالات درج ذیل ہیں:
کیا عوام یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ کیوں ہر سال سینکڑوں پاکستانی بچے خوراک کی کمی، طبی سہولیات کی عدم دستیابی اور چوہوں کے کاٹنے سے مر جاتے ہیں جبکہ وزیر اعظم پاکستان معمولی بیماریوں کا معائنہ کروانے کے لئے خصوصی طیاروں کے ذریعے بیرون ملک جاتے ہیں؟کیا عوام ان افراد (طیارے کے عملے اور وزیر 
اعظم کے ملازمین اور اہلِ خانہ) کے نام جان سکتے ہیں جو 13 اپریل 2016ء تا 19 اپریل 2016ء کے دورہ برطانیہ میں وزیر اعظم کے ہمراہ تھے؟اگر اس دورے پر سرکاری پیسہ خرچ ہوا تھا تو ازرہِ کرم بتایا جائے کہ کس قانون کے تحت وزیر اعظم 
پاکستان اس امر کے مجاز ہیں کہ بیرون ملک ان کا طبی معائنہ سرکاری خرچے پر کرایا جائے؟ڈاکٹروںکے بلوں، ٹیسٹوں اور دیگر طبی سہولیات کی فراہمی پر جو اخراجات ہوئے ہیں ان کے دستاویزی ثبوتوںکی نقو ل فراہم کی جائیں۔وزیر اعظم کے ہمراہ جانے والے عملے اور ملازمین کے آنے جانے اور وہاں قیام و طعام پر جو اخراجات آئے ان سے متعلق دستاویزات کی نقول بھی فراہم کی جائیں۔از رہِ کرم متعلقہ قانون کے مطابق اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ یہ مطلوبہ معلومات جلد از جلد فراہم کی جائیں۔
یہ تمام سوالات اگرچہ درست ہیں اور FOIA کے تحت ان کے جوابات دیے جانے چاہئیں لیکن ہمیں امید نہیںکہ حکومت اس بارے میں کچھ کرے گی۔ پاکستانیوںکو یہ جاننا ہے کہ وزیر اعظم کے اس دورہ لندن پر ان کا کتنا پیسہ لگایا گیا۔ سوشل میڈیا پہ گردش کرنے والی تصویروں میں وزیر اعظم ہیرڈ میں واقع رولیکس گھڑیوں کی دکان پہ مہنگی مہنگی گھڑیوں کو دیکھتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک اور تصویر میں وہ مردانہ کپڑوں کی دکان میں سیلزمین کے ساتھ کھڑے ہیں، ظاہر ہے وہاں سے انہوں نے اپنے لئے کپڑے خریدے تاکہ درزی سے اپنے ناپ کے مطابق سلوا سکیں۔ یہ ایسی دکانیں ہیں جہاں ارب پتیوں کا آنا جانا ہوتا ہے۔کیا قارئین اندازہ کر سکتے ہیںکہ ان دکانوں پر وزیر اعظم نے کتنے پیسے خر چ کئے ہوں گے؟ ایک ایسا غریب ملک‘ جو آئی ایم ایف کے قرضوں پہ چل رہا ہے‘ کے وزیر اعظم کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ذاتی استعمال کے لئے مہنگی ترین چیزیں خریدے؟ میاں صاحب کو ظاہر ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ تو دل کے عارضے کے بہانے لندن کی سیر کر آئے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ گردش کرنے والی یہ تصویریں ہمارے وزیر اعظم کے رویے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ 
گزشتہ دسمبر میں آرٹیکل 19 نامی ایک بین الاقوامی این جی او نے معلومات پانے کی آزادی کے بارے میں Country Report: The Right to Information in Pakistan کے عنوان کے تحت ایک مکمل جائزہ مرتب کیا۔ یہ این جی او اپنے مشن کی غایت یہ بیان کرتی ہے کہ آرٹیکل 19 کا مقصد یہ ہے کہ ''ہر جگہ لوگ آزادی سے اپنی آراء کا اظہار کر سکیں، معلومات تک انہیں رسائی حاصل ہو اور پریس بھی آزاد ہو۔ ہمارے نزدیک اظہار کی آزادی میں دو باتیں شامل ہوتی ہیں:
(1) انسان کو بولنے کا حق حاصل ہو، وہ اپنے سیاسی، ثقافتی، سماجی اور اقتصادی خیالات کے اظہار کا حق رکھتا ہو، اختلافِ رائے کر سکتا ہو کیونکہ اسی سے انتخابی جمہوریت بامعنی بنتی ہے اور انتظامیہ پر عوامی اعتماد کی تعمیر ہوتی ہے۔(2) پریس کی آزادی بھی اظہار کی ہی آزادی ہے۔ آزاد اور خود مختار میڈیا کا یہ حق ہے کہ کسی بھی خوف، مداخلت، ظلم و زیادتی اور تعصب و امتیاز کے بغیر رپورٹنگ کرے۔
اوپر ہم نے جس رپورٹ کا ذکر کیا ہے اس میں پاکستان میں معلومات تک رسائی کے حق کے حوالے سے کی گئی تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ پاکستان میں معلومات تک رسائی کا حق یعنی RTI (رائٹ ٹو انفارمیشن ) کی فضا عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ میڈیا گروپس اور این جی اوز کہتے ہیںکہ متعلقہ آرڈیننس اور بل کا مکمل نفاذ تاحال ممکن نہیں ہو پایا۔ 
معلومات تک عوامی رسائی ابھی تک بہت دشوار ہے، نتیجتاً یہ قانون سازی بے فائدہ اور غیر مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ انفارمیشن افسران ابھی تک اپنے کردار اور ذمہ داریوںکی خبر نہیں رکھتے۔ سروے کے دوران جن اہلکاروں سے سوالات پوچھے گئے ان کی اکثریت کا یہی کہنا تھا کہ انہیں RTI سے متعلق قانون سازی کا علم ہی نہیں تھا۔ سروے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ شہریوں کو شاذ ہی کوئی معلومات فراہم کی گئیں اور اگر کوئی معلومات انہیں ملیں بھی تو وہ صرف اتنی ہی تھیں‘ جو پہلے ہی سے عوامی حلقوں میں عام تھیں۔ 2013ء اور 2014ء میں معلومات کے حصول کی چھیالیس میں سے صرف دو درخواستوں پر کوئی جواب دیا گیا۔ اسی لئے نعیم صادق نے میاں نواز شریف کی لندن یاترا کے بارے میں جن معلومات کے حصول کے لئے درخواست دی ہے اس پر قانون کے مطابق مقررہ اکیس دنوںکی میعاد کے اندر کوئی جواب آنے کی امید ہمیں کم ہی ہے۔ سو کہانی تو یہیں ختم ہو جاتی ہے! البتہ ایک اور راستہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی اندر کا آدمی دفتری طریق کار سے بالا بالا ہمیں تمام معلومات فراہم کر دے؛ تاہم یہ بھی شاید نہ ہو سکے کیونکہ مذکورہ قانون میں مخبروںکے تحفظ کی کوئی شق نہیں۔ وفاقی سطح پر بھی ایسے تحفظ کا کوئی قانون نہیں اور آرڈیننس میں بھی کوئی ایسی دفعہ نہیں جس کے تحت مفادِ عامہ کی خاطر سرکاری محکموں کی اندرونی خبریں فراہم کرنے والے مخبروں کا تحفظ ہو سکے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت اس ضمن میں سب سے آگے ہے کیونکہ FOI کے صوبائی ایکٹ میں ایسے مخبروں کو تحفظ کی فراہمی کی شق موجود ہے اور علیحدہ سے بھی اس حوالے سے ایک جامع بل پر بحث جاری ہے۔ یہی وقت ہے کہ عمران خان کچھ کر کے دکھائیں اور ثابت کریں کہ خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت FOIA کو کرپشن کے خلاف ایک ہتھیار بنانے میں سنجیدہ ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں