ٹیکس چور

پیسوں کے لین دین کا شور بھلے ہی ماند پڑ گیا ہو‘ لیکن یہ الزام بدستور موجود ہے کہ وزیر اعظم صاحب عارضہء قلب کے معائنے کے بہانے لندن گئے‘ اور وہاں انہوں نے اپنی ہتھیائی ہوئی دولت ایسی دکانوں میں خرچ کی‘ جہاں عموماً ارب پتی افراد ہی خریداری کے لئے جاتے ہیں۔ اکثر مجرمان‘ ٹیکس چوری ہی کے جرم میں حراست میں لے کر جیلوں میں جھونکے جاتے ہیں۔ اسی لئے پانامہ دستاویزات کے بارے میں تحقیقات کے لئے جو کمیشن تجویز کیا گیا ہے، اسے بھی توجہ میاں نواز شریف کے تینوں بچوں سمیت ان دو سو پاکستانیوں پر مرکوز کرنا چاہئے‘ جن پہ ٹیکس چوری کا الزام لگایا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کے کروڑوں اربوں روپے کوئی پر تو نہیں رکھتے جو وہ اڑ کر ان کے بیرون ملک بینک کھاتوں میں پہنچ گئے۔ ایسا بھی نہیں کہ ان کے یہ پیسے درختوں پہ اُگے ہوں۔ کہیں نہ کہیں سے تو یہ آئے ہیں۔ اس کمائی کا ظاہر ہے کوئی نہ کوئی وسیلہ تو ضرور ہو گا۔ کیا بیرون ملک اکائونٹس میں یہ پیسہ پاکستان سے گیا؟ کیا یہ پیسہ پاکستان میں کمایا گیا تھا؟ ''سرمایہ دارانہ نظام‘ حکمران طبقے کے لئے پیسے ہتھیانے کا ایک باجواز ذریعہ ہے‘‘۔ یہ بات ایک ایسے صاحب کی ہے جسے یہ یقین تھا کہ اگر حکمران طبقہ ناجائز طریقے سے پیسے کماتا ہے تو یہ کوئی ایسی بری بات نہیں۔ یہ ان کا پیدائشی حق ہے۔ آخر وہ قانون سے بالا ہوتے ہیں۔ یہ ساری باتیں ال کپون کی ہیں۔ 1930ء کے عشرے میں جب امریکہ میں شراب کی تیاری، ترسیل اور فروخت پر پابندی تھی‘ تو اس زمانے میں ایک گینگسٹر کے طور پر الکپون کا بڑا چرچا تھا۔ شکاگو کی مافیا کا کرتا دھرتا وہی ہوا کرتا تھا۔ وہ ایک قاتل تھا‘ اور غیر قانونی طور پر شراب کی تیاری میں ملوث تھا۔ ذاتی طور پر اس نے اس زمانے میں کوئی ایک سو ملین ڈالر کما لئے تھے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پہنچ سے وہ ہمیشہ نکل جاتا تھا؛ تاہم پھر ایک دن حکومت نے اس کی دولت کا سراغ لگا لیا‘ اور معلوم ہوا کہ اپنی اس ناجائز دولت پر وہ ٹیکس چراتا رہا ہے؛ چنانچہ ٹیکس چوری کے الزام میں 1934ء میں اس کو الکٹراز کی جیل بھیج دیا گیا۔ الکٹراز کی جیل ہائی سکیورٹی فیڈرل جیل تھی‘ اور کیلی فورنیا میں سان فرانسسکو کے ساحل سے ذرا پرے واقع تھی۔ 
الکپون تھا کون اور اس نے یہ دولت کمائی کیسے؟ اس کا تعلق ایک اطالوی تارک وطن خاندان سے تھا‘ جو اٹلی میں نیپلز کے علاقے سے امریکہ نقل مکانی کر کے آیا تھا۔ اس کے باپ گبرائیل ایک حجام تھا۔ یہ خاندان نیویارک میں بروکلین کے علاقے میں رہائش پذیر تھا۔ وہ ایک ہوشیار طالب علم تھا‘ اور کافی آگے جا سکتا تھا‘ لیکن چودہ برس کی عمر میں اسے سکول سے نکال دیا گیا‘ کیونکہ اس نے ایک خاتون ٹیچر کو مارا تھا۔ اس کے بعد اس نے کبھی سکول کا رخ نہیں کیا۔ biography.com میں اس کی مجرمانہ سرگرمیوں کی تفصیل تمام جزئیات کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ امریکہ میں شراب کی تیاری، ترسیل اور فروخت پر پابندی کے زمانے میں الکپون کے کاروبار نے بڑی ترقی کی تھی۔ 1925ء تک وہ شکاگو میں جرائم پیشہ افراد کا سرغنہ بن چکا تھا۔ اسے ''کرائم زار آف شکاگو‘‘ کہا جاتا تھا۔ قمار بازی اور غیر قانونی طور پر شراب کی تیاری کے کئی اڈے اس کی سرپرستی میں چل رہے تھے۔ حریف گروہوں اور حریف غنڈوں کو بزورِ بندوق ختم کرکے وہ اپنے حلقے کو وسعت دیتا جا رہا تھا۔ اب ذرا دیکھئے کہ وہ پکڑا کیسے گیا؟ یہی نکتہ قابلِ غور ہے۔ انٹرنل ریونیو سروس (یعنی IRS) کے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے اکائونٹنٹس نے بڑی احتیاط کے ساتھ سالوں پہ محیط الکپون کی کمائیوں کی تفصیلات کی پڑتال شروع کی۔ امریکہ میں آئی آر ایس نسبتاً ایک آزاد ادارہ ہے۔ اس کے کمشنر کی تعیناتی امریکی صدر کی جانب سے ہوتی ہے‘ اور اسے منظوری سینیٹ سے ملتی ہے‘ اس کے باوجود یہ ادارہ حکومتی مداخلت سے نسبتاً آزاد ہی رہتا ہے۔ مئی 1927ء میں امریکی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ غیر قانونی طور پر شراب کی تیاری سے جو پیسہ الکپون نے کمایا ہے، اسے اس پر انکم ٹیکس دینا ہو گا۔ بائیوگرافی ڈاٹ کام کے مطابق اس فیصلے کے بعد آٓئی آر ایس کے سپیشل انٹیلی جنس یونٹ کے کمشنر ایلمرآئرے کے ہاتھوں الکپون کی گرفتاری ایک لازمی امر بن گئی تھی۔ دریں اثنا الکپون اپنی بیوی اور بچے سمیت میامی منتقل ہو چکا تھا‘ جہاں اس کے مکان کی مالیت کروڑوں میں تھی۔ اس وقت تک الکپون ٹیکس ڈیپارٹمنٹ سے اس لئے بچا رہا تھا کہ اس کے سارے سودے نقد ہوا کرتے تھے‘ جن کے کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہوتے تھے۔ میامی کے اس کروڑوں کے گھر کے علاوہ کسی قسم کے لین دین کے ثبوت موجود نہیں تھے۔ اس مکان کی قیمت چونکہ سرکاری کاغذوں میں بتائی گئی تھی‘ اس لئے آئی آر ایس کو موقع مل گیا کہ وہ اسے الکپون کی ظاہر کردہ آمدن کے خلاف ثبوت کے طور پر استعمال کر سکے۔ اپنی ظاہر کردہ آمدن پر الکپون نے کبھی کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا تھا۔ گرینڈ جیوری نے کپون پر ٹیکس چوری کے بائیس الزامات میں فرد جرم عائد کی‘ اور پھر بالآخر اسے گیارہ سال کی قید کی سزا سنا دی گئی۔
اب میاں نواز شریف کے غیر ملکی اکائونٹس کے بارے میں تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن کو ہم ایک مشورہ یہ بھی دیں گے کہ وہ اس بات کی بھی پڑتال کرے کہ رائیونڈ کا یہ محل جو 1997ء میں سترہ ماہ کی قلیل مدت میں تعمیر کر لیا گیا تھا، اس پہ شریفوں نے کُل کتنا خرچہ کیا تھا؟ اس خاندان نے ٹیکس کتنا دیا تھا؟ ایک اور سوال کا بھی یہاں جواز بنتا ہے جو پاکستانیوں کو پوچھنا بھی چاہئے اور وہ یہ کہ ہمارے ملک میں محصولات کی وصولی کا ذمہ دار ادارہ یعنی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) آج تک کسی بھی ٹیکس چور کو گرفتار کرنے میں کیوں ناکام رہا ہے؟ ایف بی آر میں غلط کاریوں اور بدعنوانیوں کی ترویج کی ایک تاریخ موجود ہے۔ اس کے چیئرمین کی تعیناتی خود حکومتِ وقت کرتی ہے‘ لہٰذا اس ضمن میں کچھ بھی کرنے سے وہ قاصر رہتا ہے۔ معین خان مرحوم جیسے لوگ اگر کوئی جرأت کریں‘ تو انہیں ملازمت سے برخاست کر دیا جاتا ہے۔ معین خان مرحوم کو میاں نواز شریف نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کی دوسری میعاد کے دوران برخاست کیا تھا۔ قصور ان کا یہ تھا کہ انہوں نے لاہور کی لبرٹی مارکیٹ کے ان دکانداروں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا تھا‘ جو سیلز ٹیکس نہیں ادا کر رہے تھے۔ وزیر اعظم صاحب کو ان کے بھائی شہباز شریف نے کال کی کہ ایف بی آر کے چیئرمین کو کہہ دیں کہ وہ اس معاملے میں پیچھے ہٹ جائیں۔ بعد میں معین کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔ ایک اور عینی شاہد کی داستان بھی سنئے: ایک معتبر ذریعے نے ہمیں بتایا ہے کہ کس طرح سالوں پہلے لاہور کے ڈرائی پورٹ پر ایکسائز والوں نے چند ایسے ٹرکوں کو روک دیا تھا‘ جن میں سکریپ کے نام پر فولاد کی درآمد شدہ پٹیاں سمگل کی جا رہی تھیں۔ وزیر اعلیٰ کے دفتر سے کسی نے ہمارے اس ذریعے کو فون کر کے حکم دیا کہ چونگی میں اپنے افسروں سے کہہ دیں کہ ان ٹرکوں کو جانے دیں۔ اس کے پاس اس حکم کے ماننے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ بصورتِ دیگر اسے ملازمت سے برخاست کر دیا جاتا۔ یہ ٹیکس چوری تھی، درآمد شدہ فولاد کی پٹیوں کو سکریپ بتا کر قومی خزانے کو لاکھوں کے ٹیکس سے محروم کیا جا رہا تھا۔
آج 2016ء میں سوال پھر یہی اٹھتا ہے کہ کیا ہماری ایف بی آر موجودہ وزیر اعظم اور اس کے بیٹوں اور بیٹی کو ٹیکس چوری کے الزام میں گرفتار کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے؟ اخباری رپورٹوں کے مطابق ایف بی آر کے چیئرمین اور ان کی ٹیم نے فنانس اور ریونیو کے بارے میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی جانب سے ہدایات موصول ہونے پر ان دو سو افراد کے ٹیکس ریکارڈ کھنگالنے کے لئے ایک حکمتِ عملی وضع کر لی ہے جو پانامہ لیکس کے انکشافات کے مطابق بیرون ممالک میں کمپنیوں کے مالکان ہیں؛ تاہم اس ضمن میں کوئی بھی قدم ایف بی آر اپنے طور پر نہیں اٹھا سکتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں