خالی خولی جذباتیت

حالیہ برسوں میں پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی آئی ہیں سبھی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں باتیں بڑی اچھی اچھی کیں، مگر ایک بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان کے ان جذبات میں اخلاص و صداقت کا عنصر کس قدر موجود تھا؟ پاکستان کے طول و عرض میں ہر سال ہزاروں بے گناہ افراد خود کش حملوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ارباب اقتدار کی جانب سے ایسے ہر سانحے پہ جو بیان دیا جاتا ہے وہ محض زورِ خطابت کے اظہار کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ان کی باتیں کھوکھلی اور بے معنی ہوتی ہیں کیونکہ اگلے دن سے زندگی پھر جوں کی توں رواں دواں ہوتی ہے‘ اور حسبِ معمول اگلے حملے اور مزید اموات ہونے تک سب کچھ فراموش کر دیا جاتا ہے۔ 
یاسر پیرزاد ہ صاحب نے ''بیانئے کی جنگ‘‘ کے عنوان کے تحت اپنے کالموں کا ایک مجموعہ حال ہی میں شائع کیا ہے۔ سب سے زیادہ تنقید انہوں نے ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں کی اس خاموشی پہ کی ہے‘ جو ان کی جانب سے 13 مئی 2011ء کو خیبر پختونخوا میں ہونے والے ایک المناک واقعے پر دکھائی گئی تھی۔ مذکورہ تاریخ کو ہونے والے خود کش حملے میں کل نوے جانیں ضائع ہوئیں، ان میں سترہ سویلین افراد تھے جبکہ تہتر ہلاک شدگان کا تعلق پیراملٹری فورسز سے تھا۔ چارسدہ کی تحصیل شبقدر میں ان اہلکاروں پہ دو خود کش بمباروں نے اس وقت حملہ کیا‘ جب ان کا دستہ وہاں ایف سی کے ایک تربیتی مرکز سے روانہ ہو رہا تھا۔ پیرزادہ صاحب نے بتایا ہے کہ اس واقعے پہ مختلف سیاسی جماعتوں اور اس وقت کی پی پی پی کی حکومت کا ردعمل کیا رہا تھا۔ صدر مملکت کی ویب سائٹ پر اس حملے کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔ وزارتِ اطلاعات کی ویب سائٹ پر اس دن کی سب سے بڑی خبر یہ دی گئی تھی کہ صدرِ مملکت جنابِ زرداری نے اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کی تصویریں بھی دی گئی تھیں۔ اس ویب سائٹ پر کہیں بھی پاکستان کے ایک صوبے میں نوے افراد کی ہلاکت کی خبر نہیں دی گئی تھی۔ حزبِ اختلاف کی قیادت کرنے والی نون لیگ کی ویب سائٹ پر بھی ایسا کچھ ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نے بھی اس واقعے کو نظر انداز کر دیا۔ ان کی ویب سائٹ پر شہباز شریف کے 11 مئی کے عوامی جلسے کی خبر دی گئی تھی۔ جماعتِ اسلامی کی ویب سائٹ پر ان کے امیر کی جانب سے ایک انتباہ درج تھا۔ ان کے امیر کا کہنا تھا کہ یہ حملہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ڈرون حملوں کے خلاف ردعمل کے طور پر کیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کی ویب سائٹ پر بھی اس حملے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ پی ٹی آئی والوں نے بھی اپنی ویب سائٹ پر اس حملے کی خبر کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف یہی بتایا تھا کہ امریکیوں کی جانب سے جو ڈرون حملے ہو رہے ہیں‘ وہ کس قدر تباہی لا رہے ہیں۔ آخر میں پیرزادہ صاحب نے تین ایسے سوالات پوچھے، جو خود اپنے جوابات کو جھٹلاتے ہیں‘ یعنی یہ کہ ہم پہلے پاکستانی ہیں یا مسلمان؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکہ کی ہے یا پاکستان کی؟ کیا ہم دنیا بھر میں ہر جگہ ''مظلوم‘‘ مسلمانوں کی مدد کے لئے جہاد کرنے پہ راضی ہیں؟ 
دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لئے پاکستان کو کسی بڑے مفکر کے عظیم افکار کی ضرورت ہے، ان چھوٹے چھوٹے بقراطوں کی نہیں جو ایوانِ صدر، وزیر اعظم ہائوس اور پارلیمان کے گردا گرد منمناتے ہوئے پھرتے ہیں‘ اور ظاہر یہ کرتے ہیں کہ جیسے خود کش بمباروں کا راستہ یہ روک سکتے ہیں۔ ان تمام سالوں میں پاکستان اس بات کی سزا بھگتتا آیا ہے کہ 9/11 کے واقعے کے بعد جنرل مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی حمایت کے لئے رضا مندی ظاہر کی تھی۔ پاکستانیوں کو حکیم اللہ محسود نے خبردار کر دیا تھا کہ اب انہیں ہفتے میں دو بار تحریکِ طالبان پاکستان کے حملے سہنا ہوں گے۔ بقول حکیم اللہ محسود امریکی ڈرون حملوں کی سہولت کاری کی پاداش میں یہ ہماری سزا تھی۔ حکیم اللہ محسود بعد میں خود بھی ایک ڈرون حملے میں ہی مارا گیا لیکن اس کے بعد بھی خود کش حملے جاری رہے۔ ہر بار جب خود کش حملوں میں بے گناہ پاکستانیوں کی جانیں ضائع ہوتیں تو صدر زرداری بڑی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کر دیا کرتے تھے کہ ''میں دہشت گردوں کو جیتنے نہیں دوں گا‘‘ اس خونریز دور میں بھی زداری صاحب ''میں، میری، ہم، ہماری‘‘ جیسے الفاظ کا استعمال ہی پسند فرمایا کرتے تھے۔ ان کے پیش رو جنابِ مشرف بھی کچھ ایسے ہی تھے۔ انہوں نے اپنے گرد ایک مضبوط حفاظتی حصار بنا لیا تھا جس میں وہ امن کے ساتھ نقل و حرکت کر سکتے تھے۔ وہ اپنی زندگی بڑے مزے سے جی رہے تھے۔ قوم کے باقی سارے لوگ انہوں نے اپنی طرف سے بھاڑ میں جھونک دئیے تھے۔بے نظیر بھٹو تک کو غیر محفوظ چھوڑ کر مرنے دیا گیا تھا۔ یوسف رضا گیلانی نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران اپنے آدمیوں کا ایک جتھہ بنایاجس میں وزیر دفاع احمد مختار( وہی صاحب جن کا یہ قول مشہور ہے کہ امریکی ڈرون اترتے تو پاکستان میں ہیں لیکن ٹیک آف کسی اور ملک سے کرتے ہیں) وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ،مشیر داخلہ رحما ن ملک، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، چیف سیکرٹریز، پولیس، ایف آئی اے اور آبی کے سربراہان شامل تھے۔ ان سب نے مل بیٹھ کر بڑا دماغ لڑایا کہ دہشت گردی کے عفریت سے کیسے نمٹا جائے۔ طے یہ پایا کہ قومی سلامتی کے امور کی پارلیمانی کمیٹی میں شامل نابغوں کو اس بارے میں مشاورت کر کے کوئی تجویز پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے۔ چنانچہ میاں، مولانا،پروفیس اور خٹک صاحبان کو مل بیٹھ کر دہشت گردی کے موضوع پر الف تا ے تمام حوالوں سے بحث کرنے کو کہا گیا۔ یعنی طالبان کے خلاف یہی لوگ ہمارا آخری دفاع ٹھہرے تھے۔ سب سے اہم فیصلہ یہ کیا گیا تھا کہ یہ لوگ ہر مہینے ایک اجلاس کیا کریں گے۔ چنانچہ ہر مہینے زرداری صاحب ایوانِ صدر میں بے چینی سے ان اجلاسات کے نتائج موصول ہونے کا انتظار کیا کرتے تھے۔وزیر اعظم گیلانی جا کر انہیں ان بقراطوں کے مشوروں سے آگاہ کرتے۔رحمان ملک صاحب کا مشورہ اس ضمن میں یہ تھا کہ چونکہ پولیس غیر مؤثر ہو چکی ہے اس لئے ایک سپیشل اینٹی ٹیررازم فورس قائم کی جائے۔
یہ ایک اچھی خبر تھی اور اس وقت کی حکومت بھی یوں ظاہر کر رہی تھی کہ جیسے اب شہری راتوں کو چین کی نیند سویا کریں گے اور دن میں بے دھڑک سڑکوں پہ چل سکیں گے۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ بیس ہزار نفری پہ مشتمل یہ سپیشل فورس خود کش بمباروں کے خلاف ہمیں تحفظ فراہم کرے گی۔ ہمارے لیڈروں کی ملاقاتوں اور اجلاسوں کے ایک غیر مختتم سلسلے کی بجائے ہمیں ضرورت اس امر کی تھی کہ وزیر اعظم ہائوس میں چوبیسوں گھنٹے کام کرنے والا وار روم قائم کر دیا جاتا۔ اس وار روم میں کام کرنے والے سبھی انسداد دہشت گردی کے ماہرین ہوتے۔ داخلہ امور کے نگران کی حیثیت میں رحمان ملک صاحب اگر واقعی خود کش بمباروں کو روکنے میں سنجیدہ ہوتے تو وہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لئے اس سپیشل فورس کو جدید ترین اسلحہ اور انٹیلی جنس سسٹم فراہم کر دیتے۔ رحمان ملک کا یہ دعویٰ محض ایک دھوکہ ہی رہا کہ اس سپیشل فورس کو اکیسویں صدی کے جنگی حربوں کی تربیت دی جائے گی۔ یہ تربیت اور اس کے لئے مالی وسائل بھی امریکہ بخوشی فراہم کر دیتا؛ تاہم ہمارے لیڈروں کو زیادہ دل چسپی صرف اس امر سے تھی کہ دہشت گردی سے جنگ کے نام پر جو مالی امداد پاکستان آ رہی ہے وہ کس طرح اپنی جیبوں میں بھریں۔ ہر رات ٹی وی پروگراموں میں مرکزی موضوع ڈرون حملوں کا ہی ہوتا تھا۔ ہر ''ماہر تجزیہ نگار‘‘ اسی موضوع پہ دھواں دا ر تقریر کرتا نظر آتا۔ اس وقت کے آرمی چیف سے اصرار کیا جا رہا تھا کہ وہ شمالی وزیرستان کو دہشت گردوں سے صاف کرنے کے لئے دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی فوجی آپریشن کا آغاز کر دیں‘ لیکن جنرل کیانی کو اس میں تردد ہی رہا۔ وہ اسے مؤخر کرتے رہے حتیٰ کہ نئے آرمی چیف نے عہدہ سنبھال لیا۔ پھر بالآخر نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیرِ قیادت 15 جون 2014ء کو دہشت گردوں کے خلاف ''ضربِ عضب‘‘ کے نام سے ایک کامیاب فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ وزیر اعظم نواز شریف دہشت گردی کے خلاف لڑنے میں سنجیدہ نہیں۔ ان کے الفاظ کھوکھلے ہوتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں انہوں نے یہ کہا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک اخلاقی فریضے کے طور پر لڑ رہا ہے تاکہ ملک کو اس لعنت سے پاک کیا جا سکے؛ تاہم جنوری 2015ء میں جو قومی ایکشن پلان بنایا گیا تھا اس پہ عمل درآمد کروانے میں تو میاں صاحب ناکام ہی رہے ہیں۔ اس نیشنل ایکشن پلان کو قومی و صوبائی حکومتوں کی ہر سطح سے فقیدالمثال حمایت دی گئی تھی لیکن اپنی معیّن سمت میں یہ کماحقہ، نہیں بڑھ پایا ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں