گمشدہ کڑی وزیر خارجہ کی ہے

کسی بھی سویلین حکومت کو، وہ بے نظیر بھٹوکی تھی یا نواز شریف کی،کبھی کوئی اچھا وزیر خارجہ دستیاب نہیں ہوا۔ حنا ربانی کھرکی دھوم البتہ ضرور مچی لیکن اس کی وجوہ کچھ اور تھیں۔۔۔۔ ان کی جوانی، ان کے ڈیزائنر ہینڈ بیگز اور قیمتی ملبوسات! پاکستان کے لئے محترمہ کی سب سے بڑی خدمت یہ رہی کہ زرداری صاحب کے دورِ صدارت میں انہوں نے بھارت کا دورہ کیا توکافی لوگوںکو متاثر کرنے میں کامیاب رہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے لیڈرکیوں ہوشیار، قابل اور ذہین افرادکو وزارتِ خارجہ سونپنے سے الرجک رہتے ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے لئے لڑ سکیں۔ آج اگر لائم لائٹ پانے کے لئے دو افراد یعنی سرتاج عزیز اور طارق فاطمی کے درمیان کشمکش نہ چل رہی ہوتی اور پاکستان کا ایک باقاعدہ وزیر خارجہ موجود ہوتا تو شاید امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کی صورت کچھ بہتر ہوتی۔ پاکستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ star-crossed lovers یعنی ایسے پریمی رہے ہیں جن کے ستارے باہم متصادم ہوتے ہیں۔ ان کے بیچ تعلق کی ناکامی یقینی ہوتی ہے کیونکہ اگر آ پ کو علمِ نجوم پہ یقین ہے تو اس کے مطابق انسانی قسمت ستاروں کی چال کے تابع ہے۔ یہ اصطلاح سب سے پہلے شیکسپیئر نے رومیو اورجیولیٹ کی پریم کتھا میں استعمال کی تھی۔ خیر، اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو بھی دیکھنا چاہیے۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف اگر وزیرِ خارجہ کا عہدہ اپنے پاس رکھتے آئے ہیں تو من جملہ دیگر عوامل کے اس کی ایک وجہ جی ایچ کیو بھی ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کی وزارتِ خارجہ کی باگ ڈور اسی کے اشارے پہ چلتی ہے اور اب توکئی برسوں سے یہی ہو رہا ہے۔ اگر ہم پاکستان اور بھارت کے تعلقات پہ نظر دوڑائیں تو اس خیال میں کچھ صداقت بھی دکھائی دیتی ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات ہمیشہ سے کشیدہ رہے ہیں اور دونوں کی جانب سے ایک دوسرے پہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے الزامات اور جوابی الزامات کی کہانی اب پرانی ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود ابھی پچھلے دنوں جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے واشنگٹن میں کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگائے تو صدر اوباما سمیت سبھی نے ان کی بات بڑی توجہ سے سنی۔ مودی نے دہشت گردی کے موضوع پر تفصیلی بات کی اور پُرزور لفظوں میں اس کی مذمت بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ صرف افغانستان کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی سے لاحق ہے۔ اس کے بعد واضح طور پر پاکستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کے سائے اگرچہ پوری دنیا میں پھیل رہے ہیں لیکن اس کی نشو و نما بھارت کے پڑوس میں ہو رہی ہے‘‘۔ بھارت نے پاکستان پر دہشت گردانہ حملوں کی حوصلہ افزائی اور معالی معاونت کے الزامات لگائے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے معروف مثال 2008ء میں ہونے والے ممبئی حملوں کی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ امریکہ والے مودی صاحب کی باتوں کا یقین کرتے ہیں؛ حالانکہ یہ وہی مودی ہیں جن پہ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک یہ پابندی تھی کہ وہ امریکہ میں قدم تک نہیں رکھ سکتے کیونکہ گجرات میں ان کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران مسلمانوں کا جو قتلِ عام ہوا تھا اس میں انہیں ملوث سمجھا جاتا ہے۔ مگر آج صورت حال یہ ہے کہ دو برسوں میں انہیں دو بار وائٹ ہائوس مدعو کیا گیا کیونکہ صدر اوباما کے ساتھ مودی صاحب کی طبیعت کافی جمتی ہے۔کیا میاں نواز شریف اور صدر اوباما کے درمیان ایسی دوستی کا ہم تصور بھی کر سکتے ہیں؟ ہر بار جب میاں صاحب وائٹ ہائوس آتے ہیں تو صدر اوباما کے ساتھ ملاقات میں دونوں کی حالت بڑی عجیب سی نظر آتی ہے۔ خاص طور پر میاں صاحب کے چہرے کے تاثرات سے جھینپے جھینپے نظر آتے ہیں۔ دونوں لیڈروں کے درمیان قطعی طور پرکوئی مشترک کیمسٹری نہیں۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کا سہرہ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی خاتون وزیر خارجہ سشما سوراج کے سر جاتا ہے۔ ان کی کاوشوں کا نتیجہ یہ ہے کہ آج واشنگٹن اور نئی دہلی میں قربت بڑھ چکی ہے جبکہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہاہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کی حمایت کی ہے لیکن اس کے باوجود آج امریکی حکومت صاف الفاظ میں یہ کہہ رہی ہے کہ پاکستان کی بجائے اب ان کی پسندیدگی اور مفادات بھارت کے ساتھ زیادہ ہیں۔امریکی وزیرِ دفاع ایش کارٹرکہتے ہیں کہ ''بھارت کے ساتھ آج ہمارے روابط زیادہ گہرے ہیں، پاکستان کے ساتھ تعلق بھی اہم ہے لیکن بھارت کے ساتھ تعلق زیادہ گہرا ہے، بھارت کے ساتھ ہمارا ایک پورا عالمی ایجنڈا ہے، ایک ایسا ایجنڈا جس میں تمام قسم کے امور شامل ہیں‘‘۔ وزیر اعظم مودی نے اپنے امریکی دورے کا آغازآرلنگٹن نیشنل سمیٹری (قبرستان) سے کیا۔ انہوں نے اس جگہ کو ''اس عظیم سرزمین کے کئی بہادر سپاہیوںکی آخری آرام گاہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ''میں آزاد اور جمہوریت کے نظریات کے لئے ان کی قربانیوں اور ان کے حوصلے کو سلام کرتا ہوں‘‘۔ کانگرس میں جب انہوں نے اپنا تاریخی خطاب ختم کیا توکئی سینیٹروں نے ان کے پاس آکر ان سے آٹو گراف لئے۔ یہ ایک ایسا نظارہ تھا جو شاذ ہی کبھی نظر آتا ہے۔ مودی صاحب نے افغانستان میں امریکہ کی عسکری موجودگی کی ضرورت کی طرف اشارہ کرنے کا موقع بھی بالکل نہیں گنوایا کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اگر امریکی فوج افغانستان سے لوٹ آئی تو وہاں بلا شرکت غیرے پاکستان کو رسوخ حاصل ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ جب امریکہ والے مودی صاحب پر محبتیں اور تعریفیں نچھاور کر رہے تھے توپاکستان نے کیا کیا؟ امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل میں جنوب ایشیائی امورکے سینئر ڈائریکٹر پیٹر لیوائے کی قیادت میں ایک امریکی وفد پاکستان کے دورے پہ آیا ہوا تھا۔ پاکستان نے اس وفد کے سامنے بھارت کو نیوکلیئر سپلائرزگروپ میں شمولیت دیے جانے کے امکان کے خلاف احتجاج کیا۔ خارجہ امور کے لئے وزیر اعظم کے مشیر سرتاج عزیز صاحب نے دفترِ خارجہ میں اس وفد سے ملاقات کے دوران نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھارتی شمولیت کے لئے امریکی حمایت پہ اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور ساتھ ہی کراچی، فاٹا اور بلوچستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھارتی تلویث کے ثبوت بھی سامنے رکھے۔ انہوںنے گزشتہ دنوں پاکستان سے گرفتار ہونے والے را کے مبینہ ایجنٹ کلبھوشن یادیو کا بیان بھی اس وفد کو دکھایا جس میںاس نے پاکستان کے مختلف شہروں میں دہشت گردانہ کارروائیاں کروانے کا اعتراف کیا تھا۔ حالیہ امریکی ڈرون حملوں پر بھی سرتاج عزیز صاحب نے تحفظات ظاہر کئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی وجہ سے افغان امن عمل کو نقصان پہنچا ہے۔ حالیہ ڈرون حملے پر احتجاج کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ نہ صرف پاکستان کی خود مختاری پہ حملہ ہے بلکہ اس سے اقوامِ متحدہ کے منشور کی بھی پامالی ہوئی ہے۔ انہوں نے امریکی وفدکو یہ بھی یاد دلایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان ہمیشہ امریکی حلیف رہا ہے۔ اس ملاقات کے دوران خارجہ امور کے لئے وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی طارق فاطمی بھی موجود تھے۔ پاکستان نے وہی پرانی کہانی دہرائی لیکن بھارت امریکہ پہ چھا رہا ہے اور پاکستان کی جگہ اب امریکہ کا سب سے بڑا حلیف بن گیا ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لئے وزیر اعظم نواز شریف کو جلد ہی کچھ کرنا چاہیے ورنہ ماضی کی طرح اب پھر ہر فوجی اور مالی بحران میں صرف سعودی عرب کی جانب دوڑنے کے سوا ان کے پاس اور کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا۔ امورِ خارجہ کی پیچیدگی میں کوئی شک نہیں لیکن کبھی کبھار چند حقائق کافی سادہ بھی ہوتے ہیں۔ ایسی ہی ایک سادہ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہر ملک کو قومی کابینہ میں ایک کل وقتی اور باقاعدہ تقرر یافتہ وزیر خارجہ کی ضرورت ہوتی ہے، مگر پاکستان اس سے محروم ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں