سچائی، مگر کس کی؟

نوے کے عشرے میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والی دونوں حکومتیں غیر محتاط اداروں اور افراد کے ہاتھوں میں مہروں کی طرح ناچ رہی تھیں۔ انہی اداروں اور افراد کی جانب سے اس وقت کی دونوں بڑی جماعتوں کو ہارس ٹریڈنگ کے لئے رقم فراہم کی جاتی تھی۔ جی ہاں، یہ وہی پرانی کہانی ہے‘ لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم سول اور فوجی اداروں کی ان حرکتوںکی طرف سے آنکھیں موند کر بیٹھ جائیں کہ جن کی بدولت ہمارے ملک میں جمہوری عمل کو انتہائی نقصان پہنچا ہے؟ بیس برس قبل جو بھی ہوا اس کے گہرے اثرات آج تک ہماری سیاسی نفسیات پہ ثبت نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے لیڈر لوگ اب مزید ترقی کر کے دہری چالیں چلنے اور دھوکہ دہی میں بھی کافی مہارت حاصل کر چکے ہیں۔ ایسی سیاسی چالوں کو بھلے ربع صدی بھی گزر گئی ہو لیکن سچائی کی خاطر ماضی کے حالات و واقعات پہ نظر دوڑاتے رہنا ہمیشہ فائدہ مند ہی رہتا ہے۔ اسی لئے گزشتہ دنوں اپنے ایک کالم میں ہم نے نوے کے عشرے میں سامنے آنے والے مہران بینک سکینڈل کا ذکر کیا تھا؛ تاہم ایک صاحب ایسے ہیں جنہیں بہت ناگوار گزرا ہے کہ ہم نے کیوں ان کا نام اس سارے معاملے میں گھسیٹا۔ نام ان کا اصغر حمید قدوائی ہے۔ ان کی شہرت کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ذاتی طور پر مہران بینک کے لاکھوں کروڑوں روپے آفتاب شیرپائو کے حوالے کئے تھے تاکہ وہ صوبہ سرحد میں پیر صابر شاہ کی قیادت میں قائم نون لیگ کی حکومت گرا سکیں۔ یہ پیسہ اسمبلی کے اراکین میں تقسیم کیا گیا تھا تاکہ وہ پیر صابر شاہ کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دے کر آفتاب شیرپائو کے وزارتِ علیا پہ متمکن ہونے کی راہ ہموار کر دیں۔ قدوائی صاحب نے ہمیں ایک ای میل لکھی‘ جس میں ان کا فرمانا ہے کہ ''میں نہیں جان پایا کہ اس قدر تاخیر سے مہران بینک سکینڈل کے بارے میں لکھنے اور میری مبینہ تلویث کی تفصیلات سامنے رکھنے کے لئے آپ کے محرکات کیا رہے‘ سوائے اس کے کہ سیاسی امور کی تفہیم کے حوالے سے میری قابلیت اور میری سفارتی مہارت پہ اعتراض کیاجائے؛ تاہم، اب چونکہ میرے نام پہ کیچڑ اچھالنے کی یہ بد احتیاطی آپ سے سرزد ہو ہی گئی ہے‘ لہٰذا آپ کے مشاہدات کے متعلق اپنی حیثیت کی وضاحت کرنے کا حق استعمال کرتے ہوئے میں ریکارڈ کی درستی کے لئے درج ذیل باتیں کہنا چاہوں گا‘‘۔ قدوائی صاحب نے اپنی اس ای میل میں یہ تسلیم کیا ہے کہ ''اصل میں، یہ میں ہی تھا جس نے اپنی زندگی کا خطرہ مول کر اراکینِ پارلیمان کی ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے مہران بینک سکینڈل سے پردہ اٹھایا تھا۔ 1994ء میں جب میں لندن آیا تو اس وقت یہ سکینڈل سامنے نہیں آیا تھا۔ میرے خلاف اس وقت تک کوئی مقدمہ قائم نہیں ہوا تھا۔ اسی لئے یہ تاثر دینا کہ میں ملک سے فرار ہو گیا تھا‘ حقائق کو غلط انداز سے پیش کرنے کے مترادف ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مہران بینک سکینڈل کی مخبری میں نے ہی کی تھی‘‘۔ نجم سیٹھی صاحب اس وقت دی فرائیڈے ٹائمز کے مدیر تھے۔ انہوں نے دسمبر 1994ء میں ایک کالم لکھا تھا جس کا حوالہ یہاں ہم دینا چاہیں گے۔ انہوں نے لکھا تھا: ''یہ سچ ہے کہ میاں صاحب کو یہ ٹیپس صوبہ سرحد کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ میر افضل خان اور حمید اصغر قدوائی کے توسط سے حاصل ہوئیں۔ حمید اصغر قدوائی مہران بینک کے سابق اہلکار ہیں‘ اور یہ ٹیپس انہوں نے ہی بنوائی تھیں۔ آج کل موصوف لندن میں میر افضل کے مہمان کے طور پر مقیم ہیں۔ یہ دونوں حضرات محترمہ بے نظیر بھٹو سے خاص طور پہ بڑی خار کھاتے ہیں۔ میر افضل خان صاحب تو اس لئے کہ پچھلے برس (یعنی 1993ء کے انتخابات میں) میاں صاحب کو نکال باہر کرنے کے باوجود بی بی نے انہیں صدارت یا گورنری جیسا کوئی صلہ نہیں دیا، اور قدوائی صاحب کے خار کھانے کی وجہ یہ ہے کہ شیرپائو صاحب نے ان کے ساتھ کئے وعدے پورے نہیں کئے؛ تاہم یہ سچ نہیں کہ یہ ٹیپس جعلی ہیں، ہاں ہو سکتا ہے کہ میاں صاحب نے ان کی جو تحریری صورت فراہم کی ہے اس میں قدرے ترامیم کر دی گئی ہوں‘‘۔ میاں صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کی دوسری میعاد کے پہلے سال میں حمید اصغر قدوائی وزیر اعظم ہائوس میں ہی رہتے تھے اور وہیں سے کام کیا کرتے تھے۔ بعد ازاں انہیں کینیا میں پاکستان کا سفیر مقرر کر دیا گیا تھا۔ قدوائی صاحب کہتے ہیں کہ پی پی پی کے دوسرے دورِ حکومت میں جسٹس فاروق کی سربراہی میں مہران بینک سکینڈل کی تحقیقات کے لئے جو کمیشن قائم کیا گیا تھا‘ اس نے انہیں اور دیگر تمام لوگوں کو بھی ان تمام الزامات سے بری قرار دے دیا تھا۔ سو کہانی تو یہیں ختم ہو جاتی ہے؛ البتہ مرحوم جنرل (ر) نصیراللہ خان بابر کے جس منفی تبصرے کا ہم نے اپنے کالم میں تذکرہ کیا تھا کہ جنرل صاحب نے خود ہم سے یہ بات کہی تھی، قدوائی صاحب اس کی بھی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''جو بات جنرل صاحب سے منسوب کی گئی ہے کہ انہوں نے میری جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ میں ایک مفرور مجرم ہوں اور جو لوگ مجھے وزیر اعظم ہائوس میں داخلے کی اجازت دے رہے ہیں وہ بھی جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں تو میں اسے تسلیم نہیں کرتا۔ اس سلسلے میں‘ میں یہ بتانا چاہوں گا کہ جب میں لندن سے واپس آیا تو مجھے پشاور ہائی کورٹ سے باقاعدہ حفاظتی ضمانت دی جا چکی تھی‘ جہاں میں اپنا کیس لڑ رہا تھا۔ بعد ازاںجنرل نصیراللہ خان بابر کے ساتھ میرے نہایت ہی اچھے تعلقات استوار ہو گئے تھے اور میں یہ قطعی تسلیم نہیں کر سکتا کہ انہوں نے میرے بارے میں ایسی ناگوار بات کہی ہو گی۔‘‘ اس کے بعد قدوائی صاحب کہتے ہیں کہ نواز شریف اور اس کے بعد مشرف کے دورِ حکومت میں احتساب بیورو اور پھر نیب کے مشیر کے عہدے پہ ان کی تقرری بالکل میرٹ پہ ہوئی تھی۔ ''اس وقت کے معاملات پہ میرے درست اور اصولی مؤقف کی وجہ سے مجھے ہراساں کیا جا رہا تھا۔ گڑے مردے اکھاڑنے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن آپ کی بداحتیاطی نے مجھے یہ تمام تفصیلات بتانے پہ مجبورکر دیا ہے۔‘‘ یعنی اب سارا قصور ہماری ''بداحتیاطی‘‘ کا ہے جس کی بدولت قدوائی صاحب ان تمام تفصیلات کو سامنے لانے پہ مجبور ہوئے، لیکن اپنی اس ای میل میں تو انہوں نے کوئی ایسی نئی بات نہیں بتائی جو ہم پہلے ہی نہ جانتے ہوں۔ نواز شریف نے قدوائی صاحب کو کینیا میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا تھا، اس بارے میں بھی وہ لکھتے ہیں ''جب میں نیروبی پہنچا تو یہ وہ وقت تھا جب امریکی سفارت خانوں پہ حملوں کی وجہ سے کینیا اور تنزانیہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات نہ ہونے کے برابر تھے۔ یہ میری کاوشیں تھیں جن کی بدولت ان ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات دوبارہ نارمل سطح پہ آئے۔ یہاں میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ کینیا میں میری سفارت کے دوران جو کچھ میں نے کیا‘ وہ ایک ریکارڈ ہے اور دنیا بھر کے دیگر سفارتخانوں کے لئے ایک مثال بھی‘‘۔ ان کا دعویٰ لگتا تو ناقابلِ یقین ہے لیکن وہ کہتے یہی ہیں کہ ان کے دورِ سفارت میں کینیا اور مشرقی افریقہ کے ممالک میں پاکستان کی برآمدات بارہ ملین ڈالرز سے بڑھ کر دو سو چالیس ملین ڈالرز تک پہنچ گئی تھیں۔ قدوائی صاحب کا ایک اور دعویٰ یہ بھی ہے کہ صومالی قزاقوں کی قید میں پھنسے تئیس پاکستانیوں کی رہائی کے لئے بھی انہوں نے مذاکرات کئے تھے۔ وہ کہتے ہیں ''بڑا خطرہ مول لے کر میں نے ان قزاقوں سے ملاقاتیں کی تھیں اور ایک دھیلہ دیے بغیر سارے عملے کو بازیاب کرایا تھا۔‘‘ اگر یہ سچ ہے تو قدوائی صاحب بھی کسی کیپٹن فلپس سے کم نہیں۔ وہی کیپٹن فلپس جن کے نام سے موسوم ہالی ووڈکی ایک بلاک بسٹر فلم بھی بنی تھی۔ اس فلم میں کیپٹن فلپس کا کردار ٹام ہینکس نے نبھایا تھا۔ فلم میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح کیپٹن فلپس نے صومالی قزاقوں پہ قابو پا کے اپنے سارے عملے کو بازیاب کرایا تھا۔ ان کا بحری جہاز عمان سے کینیا میں ممباسہ کی بندرگاہ کی جانب سفر کر رہا تھا۔
ایک اور کارنامہ قدوائی صاحب اپنا یہ بھی بتاتے ہیں کہ ''جہاں تک شفقت چیمہ کا تعلق ہے تو اپنے زمبابوے کے دوران اس کے کرپٹ کرتوتوں کا پتہ بھی میں نے ہی چلایا تھا اور دفترِ خارجہ میں اس کی رپورٹ بھی کر دی تھی۔ اس کے خلاف پہلی تحقیقات میرے ہی دور میں ہوئیں اور میں نے ہرارے سے اس کا تبادلہ کروا دیا تھا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں