1996ء میں عمران خان ہمارے ملک کے سیاسی افق پر ابھرتے ہوئے ستارے کی مانند تھے۔کارزارِ سیاست میں وہ نووار د سہی لیکن ان کا یہ نیا چہرہ اور نئے افکار پاکستان کے عوام کے لئے نئی امیدوں کا سبب بن رہے تھے۔صدر لغاری بے نظیر بھٹو کو وزارتِ عظمیٰ سے بے دخل کر چکے تھے اور اب عمران خان کے ساتھ انہوں نے ملاقات کی تھی۔ وہ دسمبر کی ایک دوپہر تھی۔ ہم خانصاحب کی پجیرو میں بیٹھے ان کے ساتھ ایئر پورٹ کی جانب رواں دواں تھے۔ان کے لبوں پہ بے اختیار پھیلتی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ لغاری صاحب نے اس روز کسی ہیرو کی طرح ان کا خیر مقدم کیا تھا۔''ہارورڈ اور آکسفورڈمیں پڑھی اس خوبصورت لڑکی کو فراموش‘‘ کر کے مغربی میڈیا پہلے ہی سے عمران خان کے واری جا رہا تھا۔خانصاحب بتا رہے تھے کہ ''نواز شریف کو تووہ لوگ جانتے ہی نہیں!‘‘
آزمائشی طور پر بڑی احتیاط کے ساتھ ہم نے پہلا سوال ان سے ان کی پلے بوائے والی ساکھ اور جمائما کی غیر موجودگی میں ہونے والے رت جگوںکے بارے میں کیا تھا۔جیپ کی عقبی نشست پہ بیٹھے تحریکِ انصاف کے بڑے بڑے لیڈر اس سوال پہ دہشت زدہ نظر آئے مگر خانصاحب نے بے اختیار قہقہہ لگاتے ہوئے ایسی باتوں کو بے تکی کہہ کر رد کر دیا۔ اس کے بعد اگلے چند سوالات ہم نے ان سے ان کے سسر جمی گولڈ سمتھ کے
بارے میں کئے۔ خان صاحب نے کوئی نام لئے بغیر یہ کہا کہ بے نظیر بھٹو کے پھیلائے پروپیگنڈے کے بر عکس ان باپ اور بیٹی میں سے کوئی بھی یہودی نہیں۔'' جمائما تو مسلمان ہو چکی ہے۔‘‘ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا ایک غیر ملکی خاتون سے شادی کر کے دو قسم کی زندگیاں گزار کر ان کی شخصیت منقسم نہیں ہو رہی؟جواباً خانصاحب نے کہا کہ ''آپ کو ایک بات سمجھنی ہو گی ، جمائما عوام کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ۔ جمائما سے مسئلہ صرف احساسِ کمتری کی شکار اشرافیہ کو ہے۔‘‘دانشوروں سے زیادہ خانصاحب کو عوام سے امیدیں تھیں۔انہیں یقین تھا ستانوے کے انتخابات میں جیت انہی کی ہو گی۔'' نواز شریف اور بے نظیر دونوں کو ذرا دیکھیں اور ان کے ٹریک ریکارڈ پہ ایک نظر ڈالیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس ملک کی قیادت کے لئے بہترین شخص میں خود ہوں ، لیکن پھر بھی میں محسوس یہی کرتا ہوں کہ ان دونوں سے اچھا کام میں کر سکتا ہوں۔ہم یقینا ایک بڑی تبدیلی لے آئیں گے۔‘‘
انیس سو چھیانوے سے اب دو ہزار سولہ میں آکر دیکھیں تو عمران خان مولانا سمیع الحق کو تین سو ملین روپے دے کر ''ایک بڑی تبدیلی‘‘ واقعی لے آئے ہیں۔مولانا صاحب اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ چلاتے ہیں۔کئی لوگ اسی مدرسے کو جلال الدین حقانی سمیت افغان طالبان کے متعدد دیگر قائدین کی مادرِ علمی قرار دیتے ہیں، ان کے لئے خانصاحب کی یہ فیاضی نہایت حیران کن ہے۔ان دہشت گردوں کے ہاتھوں ہزاروں پاکستانی اپنی زندگیوں سے محروم ہو چکے ہیں۔آج بھی ان لوگوں کی کارروائیاں جاری ہیں۔ تاہم خانصاحب بہرحال یہی سمجھتے ہیں کہ اس مدرسے کی مالی امداد دہشت گردی، عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کے انسداد میں ممد ثابت ہو گی۔سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہو سکے گا یا پھر قدرتی حسن سے بھر پور اکوڑہ خٹک کے
اس علاقے سے مزید جہادی جنم لیں گے؟ انسان جہاں رہتا ہے ، اس علاقے سے انسیت اسے ہو ہی جاتی ہے۔ستر اور اسی کے عشرے میں جس اکوڑہ خٹک میں ہم ہر قسم کے خوف، امتیاز اور تعصب سے آزاد بے فکر ی سے گھوما پھرا کرتے تھے وہ شاید کبھی واپس نہ آئے۔ دارالعلوم حقانیہ کے قریب ہی ایک پرانا بازار ہے، اپنی گاڑی میں خاصی مصروف گلیوں سے گزرتے ہوئے ہم اکثر وہیں سودا سلف خریدنے جاتے۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ ہم گاڑی ایک طرف پارک کر کے پیدل اپنے درزی نور محمد کی چھوٹی سی دکان کی جانب چل پڑتے۔پھر وہیں سڑک پہ کھڑے اور ہاتھوں میںسیئرز کمپنی کے کیٹالاگز سے لئے گئے خاکے ( جو ہماری بھابی نورین باقاعدگی سے ہمیں امریکہ سے بھجواتی تھیں) پکڑے ہم اس بیچارے سے اصرار کرتے کہ بالکل اسی طرز کی بیل باٹم شلواریں اور بے آستین قمیصیں ہمارے لئے بھی تیار کرے۔جی ہاں، پاکستان کے دور دراز علاقوں میں رہتے ہوئے بھی ہم عورتیں مغرب کے جدید فیشن کے رجحانات سے با خبر تھیں اور اپنے ملبوسات کی باقاعدہ ڈیزائنگ کرتی تھیں۔سر تا پا ڈھکا ہوا نہ سہی لیکن لباس ہمارا مناسب ہی ہوتا تھا۔وہاں کے مقامی لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے ہمیں کبھی بھی اس حوالے سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ کوئی ہمیں نہیں گھورتا تھا، سب اپنے کام سے کام رکھتے۔دریائے سندھ کے کنارے پھیلا ہوا سبزہ اور اس سبزے کے بیچ کھلے سفید اور گلابی جنگلی پھول!اکوڑہ خٹک میں ہمارے قیام کی یادیں ایسے مناظر سے بھر ی ہیں۔
دارالعلوم حقانیہ میں اس وقت تک مولانا سمیع الحق کا ظہور نہیں ہوا تھا۔اس وقت یہ مدرسہ ان کے والد مولانا عبدالحق چلایا کرتے تھے۔مگر ہمیںبتایا گیا ہے کہ وہ ہر سال عطیات لینے ٹوبیکو فیکٹر ی آیا کرتے تھے ۔ وہیں کمپائونڈ میں ہماری رہائش ہوا کرتی تھی۔ فیکٹری کے منیجراور ان کے افسران بڑی عزت کے ساتھ ان کا استقبال کرتے۔ پشاور سے وہ تین بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ انیس سو اٹھہتر میں پشاور یونیورسٹی نے اسلام کے لئے ان کی خدمات کے حوالے سے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی تھی۔ انیس سو اٹھاسی میں ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے سمیع الحق دارالعلوم حقانیہ کے چانسلر بن گئے۔ ان ہی کے دور میںاس دارالعلوم کو جہادی ذہنیت کی حوصلہ افزائی کرنے پہ '' یونیورسٹی آف جہاد‘‘ پکارا جانے لگا۔آج بیس برس بعد پی ٹی آئی کے لیڈر نشاط چشتی کے وہ الفاظ ہمارے کانوں میں گونج رہے ہیں جو انہوں نے اسلام آباد ایئر پورٹ تک کے اس سفر میں کہے تھے کہ '' خدا پہ خانصاحب کا یہ غیر متزلزل یقین ہمیںحیران کر دیتا ہے۔‘اب شاید یہ دارالعلوم حقانیہ پہ خان صاحب کا غیر متزلزل یقین ہے جو ہمیں حیران کئے جا رہا ہے!!