روزمرہ کے سیاسی سکینڈلوں میں ہم اس قدر گھرے ہوئے ہیںکہ سیاسی جزیات کی بہتات نے ہمارے دماغوں کو کلی طور پہ گرفتار کر رکھا ہے اور سرطانی خلیوں کی مانند بڑی سرعت سے ان کی بڑھوتری ہو رہی ہے۔ ٹی وی پہ نظر آنے والے ہمارے میڈیائی مشاہیر منطقی فکر اور مہذب تجزیات کو عموماً رد کر دیتے ہیں۔ سو، آئیے آج ہم یہاں ایک نائب وزیر اعظم کی تقرری کی ضرورت کے موضوع پہ بات کرتے ہیں۔ یہ موضوع ہارٹ سرجری کے لئے ملک سے میاں نواز شریف کی تقریباً ایک ماہ کی غیر موجودگی کے باعث ایک متعلقہ حیثیت رکھتا ہے۔ ہم ان کی شفایابی اور صحت کے لئے دعا گو ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ صحت اور علالت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اگر صحت کے مسائل کی بنیاد پر میاں صاحب اپنی وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داریاں پوری کرنے سے معذور ہیں تو اس صورت میں پاکستان طاقت کے ایک مستقل خلاء کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے بعض قارئین شاید صدر ممنون حسین کے بار ے میں بھی سوچ رہے ہوںگے، مگر ہمارے 76سالہ صدر صاحب کی واحد قابلیت جس کی بدولت انہوں نے میاں صاحب کا دل (اور معدہ بھی) جیت لیا تھا، یہ ہے کہ ماضی میں میاں صاحب جب بھی کراچی جاتے تو ممنون حسین صاحب ان کے سامنے بہترین ہریسہ پیش کیا کرتے تھے۔ یہ معلومات ہمیں صدر ممنون حسین کے ایک انتہائی قریبی ذریعے سے حاصل ہوئی ہیں۔ خیر، قارئین کے لئے ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ ذرا سوچ کر بتائیں کہ پاکستان کا پہلا نائب وزیر اعظم کون تھا؟ جی ہاں! قاف لیگ کے چودھری پرویز الٰہی! ان کا تقرر کیسے، کیوں اور کب ہوا؟ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ فروری سن 2008 ء کے انتخابات میں چودھری صاحب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پہ منتخب ہو ئے تھے۔ انہیں قائد حزبِ اختلاف بنایا گیا تھا لیکن اسی سال ستمبر میں جب حکمران جماعت کے ساتھ شراکتِ اقتدار کے لئے ان کی ڈیل ہوئی تو وہ اس عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ بعد میں انہیں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں صنعتوں اور پیداوار کی وزارت دی گئی۔ 2011ء میں پی پی پی کے ساتھ ان کا اتحاد مزید مضبوط ہوا اور زرداری صاحب نے چودھری پرویز الٰہی کو نائب وزیر اعظم کے عہدے پہ تعینات کر دیا اور جیسا کہ ہم اور آپ سبھی جانتے ہیں کہ یہ عہدہ محض ایک اعزازی عہدہ تھا اور کوئی اختیارات اس کے ساتھ وابستہ نہیں تھے۔
سو، سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف کس کو اپنا نائب وزیر اعظم بنا سکتے ہیں؟ یہ تو ہم سب پہلے ہی سے جانتے ہیں کہ ان کے قریبی عزیز اسحاق ڈار عملاً وزیر اعظم کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ چودھری نثار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی کی نہیں سنتے او ر بس اپنی ہی مرضی کرتے ہیں۔ ان کے اپنے مسائل کافی زیادہ ہیں لہٰذا وہ تو نائب وزیر اعظم بن نہیں سکتے۔ بہت سارے لوگ سمجھتے ہیں کہ کراچی میں امن و امان کی جو ابتر صورت حال ہے اس کی وجہ سے چودھری نثار کو مستعفی ہوجانا چاہیے۔ پچھلے دنوں وہاں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے کو اغواء کر لیا گیا تھا اور اس کے بعد معروف قوال امجد صابری کے قتل کا واقعہ رونما ہوا۔ تاہم اس سب کے باوجود وزیر داخلہ صاحب نے بڑی ہٹ دھری سے اخباری رپورٹروں کے سامنے یہی کہا کہ ایک وقت وہ تھا جب ہمارے جی ایچ کیو، نیوی اور پی اے ایف کے بیسز پہ حملے ہو رہے تھے لیکن آج پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیابی کی ایک داستان کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ میاں نواز شریف کی یہ ''جمہوری‘‘ حکومت بار باردہشت گردی کے انسداد میں ناکام ہو کر امن و امان کی ذمہ داری فوج کے سپرد کرتی رہی ہے۔ سو، چودھری صاحب کسے بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں؟دہشت گردی سے نمٹنے میں اپنی وزارت کی کلی ناکامی تسلیم کرنے کی بجائے چودھری نثار ساری ذمہ داری سوشل میڈیا کے سر ڈالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا افواہیں پھیلا کر ایک منفی کردار ادا کر رہا ہے جس کی بدولت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابی متاثر ہو رہی ہے۔ بقو ل چودھری صاحب'' میں سوشل میڈیا کے خلاف نہیں لیکن اس پلیٹ فارم پہ افواہیں نامعلوم ذرائع سے پھیلائی جاتی ہیں۔کون جانے کوئی 'را‘ کا ایجنٹ یا پھر کوئی دہشت گرد ہماری افواج کے حوصلے پست کرنے کے لئے ایسی افواہیں پھیلا رہا ہو‘‘۔ چودھری صاحب کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہونے والا منفی پروپیگنڈا ہماری سکیورٹی فورسز کے حوصلے پست کر دیتا ہے۔ چودھری صاحب کی اس بات سے البتہ ہمیں اتفاق ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی عوام کو متحد ہونا پڑے گا تاکہ دہشت گردوں کے خلاف نفسیاتی جنگ جیت کر اسے ایک منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔''حالات ہمارے خلاف ہی سہی لیکن میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ زمینی طور پر جنگ ہم جیت رہے ہیں۔ امجد صابر ی کے قتل اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے کے اغوا جیسے واقعات ان عناصر کی بوکھلاہٹ کا اظہار کرتے ہیں جو ہمیں مایوس اور اندرونی طور پر تقسیم کر کے ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کردینا چاہتے ہیں۔ اس نفسیاتی جنگ کو جیتے کے لئے ہمیں متحد ہونا پڑے گا‘‘۔
اسی لئے تو میاں صاحب کو اور بھی زیادہ اپنے نائب وزیر اعظم کی تقرری کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ہمارے علم میں کوئی دوسرا ایسا ملک نہیں جہاں حکومت کا سربراہ ایک مہینے سے زائد تک یوں غائب رہا ہو۔ کئی ہفتے قبل جب میاں صاحب ہارٹ سرجری کے لئے لندن گئے تو ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ بسترِ علالت سے بذریعہ سکائپ امور حکومت کی نگرانی کر رہے ہیں۔ یہ اتنی عجیب سی بات معلوم ہوئی تھی کیونکہ اب تو ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر گئی ہے اور دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے رابطے میں رکھنے کے لئے اس قدر نت نئی ایپلی کیشنز یعنی ایپس آ چکی ہیں کہ ٹین ایجرز تک سکائپ کا استعمال چھوڑ چکے ہیں۔ میاں صاحب کی عدم موجودگی میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے لیڈرز بھی اپنی چالیں چلتے رہے۔ پاناما دستاویزات میں بیان کردہ حقائق کی بنیاد پر میاں نواز شریف کو قابلِ مواخذہ ٹھہرانے میں وہ ناکام رہے ہیں۔ آصف زرداری سمیت پی پی پی کے کئی دیگر لیڈروں کے اپنے کرتوت بھی کرپشن سے انتہائی آلودہ ہیں۔ معمولی سا کامن سنس رکھنے والا بھی یہ بتا سکتا ہے کہ کم از کم پی پی پی نواز شریف کو کرپٹ ٹھہرانے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رکھتی کیونکہ اس کے لیڈر آصف زرداری خود کئی سالوں تک اس ملک کو لوٹتے رہے ہیں۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو انہوں نے بھی ہمیں کافی مایوس کیا ہے۔ ان کا دل بھلے ہی درست سمت میں ہو لیکن ان کا دماغ بیک وقت کئی سمتوں میں گھوم رہا ہے جس کی بدولت وہ غیر مؤثر ہو چکے ہیں۔کارزارِ سیاست میں اترے انہیں کئی عشرے ہو گئے ہیں اور اب تو انہیں سیاسی مقبولیت بھی حاصل ہوچکی ہے لیکن ایک وقت میں ایک چیز پہ توجہ مرکوز رکھنے میں ان کی ناکامی کی بدولت خان صاحب کے حمایتیوں کی تعداد معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ان سطور کی تحریر کے دوران ایک اچھی خبر یہ سننے میں آئی ہے کہ ہمارے فوجی اہلکار سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے مغوی بیٹے اویس شاہ کو بازیاب کرانے میں کامیاب رہے ہیں۔ یہ اچھی خبر سبھی کو مبارک!