عقل کا سرطان

امریکہ میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے خارجہ پالیسی کے بارے میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدارتی انتخاب میں ان کی حریف ہلری کلنٹن جسمانی اور ذہنی طور پر اس قابل نہیں کہ دنیا کے طاقت ور ترین ملک کی سربراہ بن سکیں۔ فاکس نیوز کے اینکر شان ہینٹی چونکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے چمچے ہیں؛ چنانچہ اسی خیال پہ ان کی سوئی بھی اٹک گئی ہے۔ موصوف کا کہنا یہ ہے کہ ہلری کلنٹن کو چاہئے کہ اپنا طبی ریکارڈ سامنے لائیں تاکہ امریکی عوام جان سکیں کہ وہ صدر بننے کے لئے فِٹ ہیں یا نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہلری کلنٹن کو کوئی بیماری ہے کیونکہ وہ سٹیج پر لڑکھڑا ئی تھیں۔ کتنی احمقانہ بات ہے! اتفاقاً اسی روز نیویارک ٹائمز نے بھی ڈونالڈ ٹرمپ کے تجزیے پر مبنی ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ ایک مکمل نفسیاتی معائنے کے بغیر کسی کو پاگل ٹھہرانا غیر اخلاقی حرکت ہے لیکن کئی ایک لوگوں کے حوالے اس میں دیے گئے ہیں جو یہ خدشات رکھتے ہیں کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی ذہنی حالت تشویشناک حد تک خطرناک ہے۔ یہ بات تو پہلے ہی سے کئی لوگ کہتے آرہے ہیں کہ ڈونالڈ ٹرمپ کا مزاج ''صدرانہ‘‘ یعنی صدارتی منصب کے لئے موزوں نہیں۔ صدر اوباما اور ان کے نائب صدر جو بائیڈن دونوں ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر ڈونالڈ ٹرمپ صدر بن بھی گئے تو نیوکلیئر کوڈ یعنی جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے آغاز کا اختیار ان کے حوالے کرنا نہایت ہی خطرناک ہوگا۔ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی شروعات ان کی انگلی کی ایک ہلکی سی حرکت کے نیچے ہو گی اور اس اختیار کا ڈونالڈ ٹرمپ جیسے سر پھرے انسان کے پاس ہونا اس دنیا کے لئے انتہائی مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ پوری دنیا تباہ ہو سکتی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے حامیوں کو اس بات کی یا تو پروا نہیں اور یا پھر انہیں اس بات کا یقین نہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی جو ذہنی حالت ہے اس کی وجہ سے دنیا کے اکثر لیڈر ان کے صدر بننے کے امکانات پہ مشوّش نظر آتے ہیں۔ ماہِ جون کے دوران ایک ماہرِ نفسیات نے''ٹرمپ ازم‘‘ کے خلاف ایک آن لائن منشور چھاپا جس پہ ذہنی صحت کے تقریباً ڈھائی ہزار ماہرین نے فی الفور دستخط بھی کر دئیے۔ ان سب کو فکر تھی کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی باتوں میں اہانت آمیزجملے، ناقص تلفظات، ربط و ارتکاز کی معدومی، دوسروں کی تکلیف سے بے پروائی اور بے حسی، اپنی عظمت کا احساس اور زہریلی قسم کی نرگسیت انتہائی درجے تک ظاہر ہوتی ہے۔ ''یہ سب باتیں بذاتِ خود جمہوریت کے لئے ایک خطرہ ہیں۔‘‘ ڈاکٹر ڈوہٹری کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے اس منشور پہ دستخط کئے ہیں انہوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کی ذاتی خصوصیات کا نہیں بلکہ عام ظاہری شخصیت کا تجزیہ کیا ہے۔ اس منشور کے مطابق ''تشدد کی ترویج، اپنے ناقدین اور معترضین کی کردار کشی، غیر معذرت خواہانہ رویہ اور تاریخ کی تخلیقِ نو کے دعوے یہ سب ''ٹرمپ ازم‘‘ کی اصطلاح کے تحت آتے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر ڈوہٹری کے مطابق انسان کے عمومی ظاہری رویے کے بارے میں پوری طرح یہ جانے بغیر بھی بات کی جا سکتی ہے کہ یہ شخص اپنے بچوں، بیوی اور دوستوں کے ساتھ کیسا برتائو رکھتا ہے۔ مشاہیر کے نفسیاتی تجزیے ہونا ایک عام بات ہے۔ مبصرین، کالم نگار اور 
مختلف سیاسی سوچ کے حامل اور عمومی نفسیاتی پہلوئوں پہ مرکوز تجزیہ کار عموماً ایسے نفسیاتی تجزیے کرتے رہتے ہیں۔ بل کلنٹن اور ہلری کلنٹن پر بھی سالوں سے استحصال، دھوکہ دہی اور خود کو مراعات کا حقدار سمجھنے جیسے الزامات لگتے آئے ہیں اور ان کی بدولت ان کے گہرے شخصیاتی مسائل کی جانب بھی اشارہ کیا جاتا رہا ہے۔ خود ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی حال ہی میں ہلری کلنٹن کو دماغی طور پر غیر مستحکم اور پاگل قرار دیا تھا؛ تاہم کئی لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایسے سہل نفسیاتی تجزیوں سے گریز کرنا چاہئے۔ جب تک ماہرینِ نفسیات نے باقاعدہ تشخیص نہ کی ہو، کسی کے بارے میں بھی ایسی رائے نہیں دینی چاہئے؛ تاہم آصف علی زرداری کے بارے میں تو نیویارک کے دو معروف ماہرینِ نفسیات کی جانب سے فراہم کردہ ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ ان دونوں نے تحریراً بتایا ہے کہ ان کے زیرِ علاج رہنے والے زرداری صاحب نہ صرف ڈیمنیشیا بلکہ میجر ڈیپریسیو ڈس آرڈر اور پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کا بھی شکار ہیں۔ ڈاکٹر فلپ سالٹیل کا کہنا تھا کہ گیارہ برس تک دورانِ اسیری جس قسم کا تشدد زرداری صاحب نے سہا ہے اس کی بدولت وہ ''جذباتی عدم استحکام، یادداشت کی کمزوری اور ارتکاز سے متعلقہ مسائل‘‘ کے شکار ہو گئے ہیں۔ زرداری صاحب نے اسلام آباد سے کراچی میں اپنے جیالوں سے ویڈیو خطاب کرتے ہوئے سندھی کارڈ لہرا کر بڑی چیخم دھاڑ کی تھی، بالکل ویسے ہی جیسے انہوں نے اس تقریر میں کی تھی جس میں انہوں نے فوج کو مخاطب کرتے ہوئے شدید انتباہی انداز اختیار کیا تھا۔ اس تقریر کے بعد وہ دبئی گئے اور پھر واپس لوٹ کر ابھی تک نہیں آئے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا رویہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ آج کل وہ اپنے ووٹروں کو یہ کہہ رہے ہیں کہ نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں دھاندلی ہو سکتی ہے۔ ماہرینِ نفسیات اس قسم کے جذبات کے اظہار کو Persecution complex یعنی خدشاتِ اذیت کا نام دیتے ہیں: تاہم جو لوگ حقیقت پہ نظر رکھنے سے انکار کر لیتے ہیں ان کے لئے موزوں ترین لفظ ''پاگل‘‘ ہے۔ "Malignant Self-love: Narcissism Revisited" نامی ایک کتاب ہے جو سبھی کو پڑھنی چاہئے۔ کتاب کے مصنف نرگسی شخصیت سے متعلقہ مسائل (Narcissistic Personality Disorder (NPD)کے ماہر ہیں۔ انہوں نے تو بارک اوبامٓ کا بھی کافی سفاک تجزیہ کیا ہے کہ کس طرح وہ اپنی کامیابی کے بارے میں خوش فہمیوں میں مبتلا ہیں اور وائٹ ہائوس کے اندرونی حلقے کس طرح ان کی ستائش کرتے ہیں۔ یہ تجزیہ تو پاکستان کے موجودہ اور گزشتہ حکمرانوں کے لئے بھی درست ٹھہرتا ہے۔ اس بیماری کی علامات ملاحظہ کریں۔
''مبالغے کی حد تک اپنی اہمیت کا احساس، بے پناہ کامیابیوں، طاقت اور قابلیت کے تصورات کا خبط۔ مریض کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ بہت خاص ہے اور اس لئے صرف دوسرے اعلیٰ ترین افراد یا ادارے ہی اسے سمجھ سکتے ہیں اور انہی کے ساتھ اس کا تعلق رہنا چاہئے۔ اسے بہت زیادہ تعریف و توصیف چاہئے ہوتی ہے۔ خود کو مراعات کا مستحق سمجھتا ہے۔ اپنے مفادات کے حصول کے لئے خود غرضی سے دوسروں کا استعمال کرتا ہے۔ دوسروں کی تکلیف محسوس نہیں کرتا۔ دوسروں سے حسد رکھتا ہے یا یہ سمجھتا ہے کہ دوسرے لوگ اس سے حسد کرتے ہیں۔ خود سرانہ، بدخویانہ، سرپرستانہ اور مذمتی رویوں کا اظہار کرتا ہے‘‘َ یہ تمام ایک پاگل شخص کی علامات ہوتی ہیں اور یہ جاننے کے لئے انسان کو ماہرِ نفسیات ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔ پاکستان میں کئی ایک لیڈر ایسے ہی رہے ہیں اور اس ملک کے آئین کو بھی ایک دو بار نہیں بلکہ کئی بار پامال کیا جاتا رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں