امریکی قوم کی قابلِ افسوس حالت

خلیل جبران کا قول ہے کہ اس قوم کی حالت قابلِ صد افسوس ہے جو گرو ہ در گرو ہ بٹ چکی ہو اور ہر گروہ خود کو الگ قوم سمجھتا ہو، جس قوم کے مدبرین روباہ صفت ہوں، جو قوم دولت کے بل بوتے پہ فتح مند ہونے والوں کو فیاض سمجھتی ہو اور جس قوم کے لئے بد معاش افراد ہیروز کا درجہ اختیار کر لیں۔اس لحاظ سے امریکی قوم اس وقت تیزی سے اخلاقیات کی تفہیم کی اپنی صلاحیت سے محروم ہوتی دکھائی دے رہی ہے، اورتمام دنیا محوِ نظارہ ہے۔امریکی قوم اس وقت ایک ایسے دوراہے پہ کھڑی ہے جس میں ایک راستے(ڈونالڈ ٹرمپ) کی منزل بالکل انجانی ہے جبکہ دوسرے راستے (ہیلری کلنٹن )کی منزل انہیں اسی پرانی جگہ پہ واپس لاتی ہے۔ان دونوں کی کشمکش میں سچائی ، شفافیت اور عظمتِ کردار جیسے انسانی اوصاف دائو پہ لگ چکے ہیں۔ کل دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان پہلا مباحثہ منعقد ہونے والا ہے۔ دونوں ہی جھوٹ اور بڑ بولے پن کا سہارا لیں گے۔ دہشت گردی، خارجہ پالیسی، قومی سلامتی، صحت کی سہولیات کی فراہمی کے نظام، معیشت اور روزگار پہ یہ لوگ مرکوز نہیں رہیں گے۔ ان دونوں میں سے جیت اسی کی ہو گی جو مباحثے میں زیادہ ڈھٹائی کے ساتھ بدمعاشی کرے گا۔پچھلے اٹھارہ ماہ سے ہم ان دونوں کوایک دوسرے پہ وار پہ وار کرتے دیکھ رہے ہیں۔ حتمی مقابلے میں اب صرف چند ایک ہفتوں کا وقت باقی ہے اور ایسے میں ڈونالڈ ٹرمپ اپنی گندہ دہنی سے اپنے حامیوں کو اکسا کر ایک پُر تشدد مقابلے کی جانب دھکیل رہے ہیں۔اس سے پہلے یہ قوم کبھی بھی اس قدر ابتری، اس قدر قطبیت اور اس قدر تفرقے کا شکار نہیں رہی ۔ ڈونالڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن دونوں ہی صدارتی انتخاب کے لئے صف آراء ہونے والے معمر ترین امیدوار ہیں۔ اگر ہیلری کلنٹن صدر منتخب ہوئیں تو وہ اس عہدے پہ متمکن ہونے والے دوسری معمر ترین شخصیت ہوں گی ۔تاہم اگر ڈونالڈ ٹرمپ کی جیت ہوئی تو اس عہدے پہ متمکن ہونے والے معمر ترین فرد کا سہرہ ان کے سر سجے گا۔یہ دونوں اپنی 
صحت کے بارے میں اصل حقیقت چھپائے رکھے ہوئے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے حامی مصر ہیں کہ ہیلری کلنٹن جسمانی طور پر بے حد بیمار ہیں جبکہ ہیلری کلنٹن اور ان کے حامیوں کا ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ موصوف چونکہ دماغی بیمار ہیں اس لئے صدارتی عہدے پہ متمکن ہونے اور ''آزاد دنیا ‘‘ کی قیادت کرنے کے وہ اہل نہیں۔ہیلری کلنٹن ڈونالڈ ٹرمپ کے گیارہ ملین حامیوں کو ناپسندیدہ افراد میں شمار کرتی ہیں اور ان کے لئے ''نسلی و جنسی تعصب میں مبتلا، انسانوں، اجنبیوں اور اسلام سے ترساں افراد جیسے الفاظ وہ استعمال کرتی ہیں۔ کہتی تو وہ سو فی صد ٹھیک ہیں۔ بے شک یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے حامیوں میں سے نصف سے زیادہ تعداد نسل پرست جنونیوں کی ہے۔وہ نسلی تعصب میں مبتلا ایسے سفید فام جنونیوں کی قیادت اور رہنمائی کر رہے ہیں جو ہر اس شخص کو ہدف بنا تے ہیں جو ان سے عقاید یا پھر رنگت و شباہت میں اختلاف رکھتا ہو۔گیارہ ستمبر کو فلوریڈا میں ایک شخص نے اس اسلامک سینٹر کو آگ لگا دی جس کے متعلق بتایا جا تا ہے کہ پلس نامی نائٹ کلب میں فائرنگ کر کے متعدد افراد کو ہلاک کرنے والا عمر متین کچھ عرصے تک یہاں آتا جاتا رہا تھا۔اسی روز نیویارک میں ففتھ ایوینو پہ رواں ایک حجاب اوڑھے خاتون پہ ایک شخص نے لائٹر جلا کر حملہ کیا تھا۔مذہبی نفرت پہ مبنی ایسے واقعات میں مزید اضافے کے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ستر سالہ ڈونالڈ ٹرمپ نے بڑی کامیابی کے ساتھ امریکیوں کو اپنی نفرت اور ناپسندیدگی کے اظہار کے لئے امریکی مسلمانوں کو بطورِ ہدف مہیا کر دیا ہے۔ اگر تو وہ صدر منتخب ہو گئے تو ان کے حامی مسلمانوں کو یہی کہیں گے کہ تم مسلمانوں کو اپنے وطن واپس چلے جانا چاہئے۔ ان متعصب لوگوں میں سے انہتر فیصد کو یہ یقین ہے کہ اوباما کینیا میں پیدا ہوئے اور ایک مسلمان ہیں۔ان کے بر عکس دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن کا تانتا آرلنگٹن کے اس قبرستان سے بندھا ہوا ہے جہاں شہید امریکی
فوجی کیپٹن ہمایوں مدفون ہیں۔ کیپٹن ہمایوں کے پاکستانی نژاد والدین خضر خان اور غزالہ خان کو اپنے بیٹے کے بارے میں چار ہزار سے زائد ہاتھ سے لکھے خطوط موصول ہو چکے ہیں، اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ ایک خاتون ہیں جن کے والد کی قبر کیپٹن ہمایوں کی قبر کے قریب ہی واقع ہے، وہ کیپٹن ہمایوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ''سیاست اور بیوروکریسی کی بدولت اس ملک کے لئے میری محبت جس جس طرح متاثر ہوئی ہے اس بارے میں مَیں سوچتی رہی ہوں۔تاہم آپ کے والدین کو دیکھ کر اور آپ کے بارے میں جان کرمجھے ایک بار پھر اسی وقار، باہمی محبت اور نعمتوں کا احساس ہوا ہے جو ہماری ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے متنوع معاشرے کا ایک خاصہ ہے۔‘‘ یہ ایک آفاقی سچائی ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً تمام سیاستدان عادی جھوٹے ہوتے ہیں۔اگر آپ کو ڈونالڈ ٹرمپ جیسے بڑ بولے سوداگر اور ہیلری کلنٹن جیسی اخفاء پسند ہستی کے بیچ میں چنائو کرنا پڑتا تو آپ کسے چنتے؟ یا بہ الفاظ ِ دیگر نواز شریف صاحب اپنی اولاد کی بیرون ملک دولت کے بارے میں جو مفخّرانہ قسم کی ناقابلِ فہم باتیں کرتے ہیں اور آصف علی زرداری نے مسٹر 100%کا خطاب پا 
کر مبینہ طور پر کرپشن کے ذریعے جو دولت کمائی ہے اگر اس کے بیچ آپ کو ایک چننا پڑے تو کسے چنیں گے؟ اس قسم کے سوالوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان کا جواب دئیے گئے دوجوابات میں 
سے ہی چننا پڑتا ہے۔لیڈروں کی جانچ کا بہترین طریقہ کون سا ہے؟ یہ ایک بہت مشکل سوا ل ہے! چنائو کے اپنے انفرادی اختیار کو استعما ل کرنے میں ہم اکثر ٹھوکر بھی کھا سکتے ہیں۔ ہماری انفرادی رائے تعصب اور کجی کا شکار ہو کر غلط بھی ہو سکتی ہے۔ ہم تنگ نظری، جذباتیت اور تعصب پہ مبنی فیصلہ دے سکتے ہیں، اور اس کا انحصار اس بات پہ ہوتا ہے کہ ہم رائے کس کے بارے میں دے رہے ہیں۔ایسی آراء کا بد ترین نمونہ میڈیائی مبصرین کی صورت میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ نیویار ک ٹائمز میں لکھنے والے ڈیوڈبروکس نے بڑی ایمانداری سے اس امر کا اعتراف بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ''میں نرگسیت پہ مبنی اپنے خیالات کا اظہارکرتا ہوں اور اسی کا مجھے معاوضہ بھی دیا جاتا ہے ۔میں حقیقتاً اتنا اچھا یا محاکما نہ انداز نہیں رکھتا جتنا اپنی تحریر سے ظاہر کرتا ہوں او ر مجھے اپنا آپ حقیقت سے زیادہ ذہین ظاہر کرنا پڑتا ہے اور حقیقتاً اپنے خیالات اور آراء پہ مجھے اس قدر اعتماد اور یقین نہیں ہوتا جتنا مجھے ظاہر کرنا پڑتا ہے اور اسی کا مجھے معاوضہ ملتا ہے۔ــ‘‘ وہ کہتے ہیں کہ وہ حتی المقدور کھوکھلے سطحی پن سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بعض اوقات میڈیا کے اپنے دیگر تمام ساتھیوں کی مانند وہ بھی مجبور ہو جاتے ہیں ۔کیا واقعی امریکہ اور پاکستان دونوںممالک میں ادارتی صفحات پہ لکھنے والے، کالم نگار اورٹی وی اینکرز حقیقتاً خود کوسیاستدانوں ہی کی طرح معصوم عن الخطا سمجھتے ہیں؟ اس سوال کا جواب یقینا اثبات میں ہے۔تاہم ان دونوں میں ایک بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ سیاستدان تو جھوٹ بول کر اور اپنے ووٹروں سے جھوٹے وعدے کر کے انتخاب جیتتے ہیں جبکہ میڈیا کے لوگ صرف محدود حلقوں میں تبلیغ و ترویج ہی کر پاتے ہیں۔ باقی لوگوں کی اکثریت خبروں کے لئے اور خاص طور 
پر انتخابات کے دنوں میں سوشل میڈیا کا رُخ کرتی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ بھی ٹوئٹر پہ بڑے مصروف ہوتے ہیں، لاکھو ں لوگ ان کو فالو کرتے ہیں، اور ان کی ہر بات پہ آنکھیں بند کر کے یقین بھی کر لیتے ہیں۔ڈونالڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کے حقائق کی درستگی پھر کون کر سکتا ہے؟ جیسا کہ لاس اینجلس ٹائمز نے اپنے ادارئیے میں بھی کہا ہے کہ یہ کام میڈیا کا ہے۔اس ادارئیے میں کہا گیا ہے کہ ایسی باتوں کے لئے ذمہ دار پھر میڈیا ہی ٹھہرتا ہے جو ان دونوں امیدواروں کے حامیوں کے جھوٹ کو بلا تحقیق نشر کرتا ہے۔ان میں سے بعض کو یہ دونوں صدارتی امیدوار معاوضہ ہی اسی بات کا دیتے ہیں کہ وہ ٹی وی پہ جا کر ان کا دفاع کریں۔ ایسے لوگوں کا ٹی وی چینلوں پہ آنا ہی ٹی وی چینلوں کی بد دیانتی کا ثبوت دیتا ہے۔یہ انتخابی امیدوار کی مالی معاونت سے چلنے والی ایک اشتہاری مہم کے مترادف ہے جس میں کوشش یہ کی جاتی ہے کہ رائے عامہ پہ اثر انداز ہو کر ناظرین کو گمراہ کیا جائے۔ لاس اینجلس ٹائمز کے مطابق دونوں صدارتی امیدواروںکی اصل حیثیت اور دنیا پہ ان کی پالیسیوں کے ممکنہ اثرات کے بارے میں معقول نوعیت کے سنجیدہ تجزئیے شاذ ہی کئے گئے ہیں۔ٹی وی مذاکروں میں میزبان عموماً بحث کے غیر ضروری پہلوئوں پر زیادہ مرکوز دکھائی دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ہیلری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ'' کمانڈر ان چیف فورم‘‘ میں موڈریٹر میٹ لایرجنابِ ٹرمپ کی صریح دروغ گوئیوں پہ بحث کرنے میں ناکام رہے۔ نیویارک ٹائمز نے اپنے ادارئیے میں میٹ لایر کی میزبانی اور مباحثے کے لئے ان کی عدم تیاری پہ کڑی نکتہ چینی کی ہے۔اب منگل کو جو مباحثہ ہونے جا رہا ہے اس کے موڈریٹر کی یہ ذمہ داری ہو گی کہ وہ ڈونالڈ ٹرمپ سے خاص طور پر ان کے ریکارڈز اور پالیسی کے بارے میں پوری تیاری کے ساتھ سوال کریں۔اگر ایسا کرنے میں وہ ناکام رہے تو یہ امریکی قوم کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں