دیر آید، مگر کم آید!

اپنی وزارتِ عظمیٰ کی تیسری مدت میں میاں نواز شریف بالآخر جاگ اٹھے ہیں اور ہمارے ملک کے واحد نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسّلام کو عزت و احترام دینے کا انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے۔ کیا اس بات پہ ہمیں کھڑے ہو کر میاں صاحب کو تعظیم دینی چاہئے؟ چونکہ کچھ نہ ہونے سے یہ بہرحال بہتر ہی ہے، لہٰذا ہم انہیں یقیناً سراہیں گے؛ تاہم یہ بھی ضرور کہیں گے کہ اس ضمن میں جو اقدام انہوں نے کیا ہے وہ کافی نہیں! میاں صاحب نے قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات کا نام بدل کر پروفیسر عبدالسّلام سینٹر فار فزکس رکھ دیا ہے، اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ طبیعات کے شعبے میں پانچ پاکستانی طلبہ کے لئے بیرون ملک پی ایچ ڈی کے وظائف کے پروگرام کو بھی انہوں نے پروفیسر عبدالسّلام فیلوشپ پروگرام کا نام دے دیا ہے۔ اس میں بڑی بات کیا ہے؟ اگر وزیر اعظم صاحب ایک ڈیپارٹمنٹ کی بجائے ایک پوری یونیورسٹی ڈاکٹر عبدالسّلام کے نام سے موسوم کر دیتے تو ہم انہیں یقینا زیادہ سراہتے! ڈاکٹر عبدالسّلام کے ساتھ ہماری پہلی ملاقات 1964ء میں ہوئی تھی۔ موقع ملکہ الزبتھ کی جانب سے بکنگھم پیلس میں منعقدہ سالانہ چائے کی دعوت کا تھا۔ ہم اور ہماری والدہ اپنی بہترین ساڑھیوں میں ملبوس تھے جبکہ ہمارے والد نے شیروانی زیبِ تن کی ہوئی تھی اور سر پہ جناح کیپ رکھی تھی۔ لندن میں ہمارے سفارت خانے کی جانب سے ہمیں ہدایت کی گئی تھی کہ دعوت میں داخلے کے لئے ہمیں بروقت پہنچنا پڑے گا۔ اسی ہدایت پہ عمل کرتے ہوئے ہم دعوت نامے ہاتھ میں تھامے بکنگھم پیلس کے آہنی دروازے کے سامنے قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ اسی قطار میں کھڑ ے ہماری ملاقات ڈاکٹر عبدالسّلام اور ان کی اہلیہ سے ہوئی۔ ڈاکٹر عبدالسّلام نے اپنے علاقے کا مخصوص لباس پہنا ہوا تھا اور سر پہ بڑی سی پگڑی بھی باندھ رکھی تھی جیسا کہ جھنگ میں عموماً مردوں کے سروں پہ دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کی اہلیہ بھی نہایت سادہ سے شلوار قمیص میں ملبوس تھیں۔ ڈاکٹر عبدالسّلام سائنس کے شعبے کے لئے صدر ایوب کے مشیر تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان کا اپنا جوہری پروگرام ہو۔ سال بھر بعد وہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس ٹیکنالوجی قائم کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے تھے۔ نتھیا گلی میں Summer College on Physics and Contemporary Needs (INSC) کا قیام بھی اسی عظیم آدمی کا کارنامہ ہے۔ یہ سمر کالج آج تک جاری ہے۔ ہر سال دنیا بھر سے سائنس دان نتھیا گلی آتے ہیں اور پاکستانی سائنس دانوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ صرف اس ایک خدمت کے لئے بھی ڈاکٹر عبدالسّلام اس ملک میں اعلیٰ ترین تعظیم کے مستحق ٹھہرتے ہیں؛ تاہم انہیں یہاں ہمیشہ صرف مسترد ہی کیا جاتا رہا۔ حد یہ ہے کہ 1996ء میں جب آکسفورڈ میں ان کا انتقال ہوا تو اس وقت بھی پاکستان کی جانب سے انہیں اپنائے جانے کا کوئی اظہار نہیںکیا گیا۔ ضلع جھنگ میں احمدیہ کمیونٹی کے لئے مختص قبرستان میں ان کی قبر کے کتبے پہ شروع میں لکھا گیا تھا کہ ''اولین مسلمان نوبل انعام یافتہ‘‘، مگر چونکہ ان کی کمیونٹی کو غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے‘ اس لئے ایک مقامی مجسٹریٹ کی ہدایت پہ ان کے کتبے سے لفظ مسلمان مٹا دیا گیا اور صرف''اولین نوبل انعام یافتہ‘‘ کے الفاظ رہنے دیئے گئے۔ کم از کم ہم مسلمان کی جگہ وہاں پاکستانی تو لکھ سکتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کی وفات کے سولہ برس بعد لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز نے ایک عبدالسلام چیئر قائم کرنی چاہی تھی لیکن فنڈز کی عدم دستیابی کی بدولت اس چیئر کے قیام میں مزید تین برس کا عرصہ لگا۔ لمز کا شمار پاکستان کی مؤقر جامعات میں ہوتا ہے اور ڈاکٹر عبدالسلام شاید ہمارے واحد نوبل انعام یافتہ سائنسدان رہیں گے۔ ان کے نام پہ محض ایک چیئر کے قیام کے لئے فنڈز جمع کرنا لمز کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اس امر کا سہرہ لمز کے اس وقت کے وی سی عادل نجم کے سر جاتا ہے کہ انہوں نے اس چیئر کے لئے عطیات جمع کرنے کی خاطر ایک فنڈ قائم کیا۔ عادل نجم کو امید تھی کہ اس چیئر کا قیام صرف لمزکے لئے ہی نہیں بلکہ پاکستان بھر اور عالمی سطح پر بھی ایک کامیابی اور امتیاز سمجھا جائے گا۔ اس چیئر کے قیام کے ذریعے لمز ڈاکٹر عبدالسلام جیسے غیر معمولی سائنسدان اور لیاقتی برتری پہ یقین رکھنے والے عظیم سکالر کے لئے ایک مستقل خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتا تھا۔ ڈاکٹر عبدالسلام 1926ء میں جھنگ میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے جھنگ اور پھر بعد میں لاہور سے حاصل کی۔ 1946ء میں انہیں کیمبرج کے لئے سکالرشپ ملی۔ تھیوریٹیکل فزکس میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد وہ 1951ء میں وطن واپس آئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تدریس کے شعبے سے منسلک ہو گئے۔ پنجاب یونیورسٹی میں ریاضیات کے شعبے کے سربراہ بھی وہ رہے۔ بعد میں وہ یورپ لوٹے اور وہاں لندن کے امپیریل کالج سے وابستہ ہو گئے۔ وہیں انہوں نے اپنا وہ تحقیقی کام مکمل کیا جس پہ انہیں بعد میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو بیسویں صدی کے ایک عظیم ماہرِ طبیعات ہی کی حیثیت سے نہیں بلکہ تحقیقی اداروں کے بنیاد رکھنے کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔ انہوں نے اٹلی میں انٹرنیشنل سینٹر فار تھیوریٹیکل فزکس قائم کیا۔ تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز بھی انہی کی قائم کردہ ہے۔ انہی کی تحقیق نے 2012ء میں ذیلی ایٹمی ذرے یعنی گاڈ پارٹیکل کی دریافت کی راہ ہموار کی۔ تخلیق کی سائنسی تفہیم میں یہی ایک گمشدہ کڑی تھی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ہم دنیا کو بتا سکتے تھے کہ وہ شخص جس نے تینتیس برس قبل گاڈ پارٹیکل کے وجود کے امکان کی طرف اشارہ کیا اور اس کے لئے نوبل انعام بھی جیتا، وہ ایک پاکستانی تھا۔ اس وقت آصف علی زرداری صدر تھے اور راجہ پرویز اشرف ان کے وزیر اعظم! چاہتے تو یہ تھا کہ یہ دونوں قومی میڈیا میں آ کراس قدر بہ آوازِ بلند ایک پاکستانی کی اس عظیم الشان کامیابی کا اعلان کرتے کہ دنیا بھی پوری طرح متوجہ ہو جاتی، لیکن یہ دونوں صاحبان عالمی امور، سائنس و ٹیکنالوجی اور جنیوا میں جس دریافت کا اعلان ہوا تھا ان سب سے یکساں طور پر ناواقف ہی رہے۔ ویسے بھی یہ دونوں یورپ میں پینٹ ہائوسز حاصل کرنے، اپنے بیرونی اثاثے بڑھانے اور سوئس اکائونٹس میں پیسے جمع کرنے میں زیادہ دل چسپی رکھتے تھے۔ ڈاکٹر سلام کی تحقیق کی بنیاد پر پاکستان کی ایک بہتر ساکھ کی تعمیر ان کی ترجیحات کی فہرست میں کوئی جگہ نہیں رکھتی تھی۔ یہ دونوں تو شاید جانتے بھی نہیں ہوں گے کہ ڈاکٹر سلام تھے کون کیونکہ ان کا نام ہی ہماری کتابوں سے حذف کیا جا چکا ہے۔ پاکستانیوں کے لئے ڈاکٹر سلام کوئی وجود ہی نہیں رکھتے۔ صرف ایک ہی شخص تھا جس نے گاڈ پارٹیکل کی دریافت کے بعد اس پہ تبصرہ کیا تھا، یعنی قائدِ اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر پرویز ہودبھائی۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ''ہمارے مرحوم ماہرِ طبیعات کو اپنے وطن میں ہیرو کا درجہ حاصل نہیں۔ ان کا تو نام ہی سکول کی نصابی کتب سے ہٹایا جا چکا ہے۔ جس قسم کا سلوک ان سے کیا جاتا ہے وہ ایک المیہ ہے۔ وہ اس سرزمین پہ قدم تک نہیں دھر سکتے تھے۔ اگر وہ آتے تو انہیں اہانت کا سامنا کرنا پڑتا، ہو سکتا ہے وہ قتل ہو جاتے‘‘۔ خیر، آئیں اسی پہ خوش ہو لیتے ہیں کہ بالآخر جزوی طور پر ہی سہی لیکن ان کی حیثیت تسلیم تو کر لی گئی ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر سلام کہتے تھے ''آئیں، کوشش کرتے ہیں کہ تمام انسانیت کی بہتری اور بہبود کے لئے سبھی کو یکساں مواقع فراہم کئے جائیں‘‘، ہمیں ہر پاکستانی کا احترام کرنا چاہئے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی فرقے اور کسی بھی مذہب سے ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں