ٹرمپ اور باقی ساری دنیا

وائٹ ہاؤس، واشنگٹن میں نئے امریکی صدر کی آمد ہو چکی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدور کی فہرست میں سب سے کم مقبولیت رکھنے والے صدر ہیں۔ ان سے امید تھی کہ اس عہدے پر متمکن ہونے کے بعد وہ کچھ نہ کچھ صدارتی اطوار اور مدبرانہ انداز اپنا لیں گے اور سبھی کے صدر کہلائیں گے۔ تاہم 20 جنوری کو انہوں نے جو افتتاحی خطاب کیا وہ ماضی کی منفیت سے پُر تھا، اس میں ایک بار پھر ایسی باتوں کی بھر مار تھی کہ کس طرح وہ اکیلے ہی امریکہ کے تمام مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اپنے خطاب میں انہوں نے سیاستدانوں کو متنبہ کیا کہ اب ان کی طاقت ویسی نہیں رہے گی جیسی ہوا کرتی تھی، کیونکہ ''ہم طاقت واشنگٹن ڈی سی سے واپس عوام کو منتقل کر رہے ہیں‘‘۔ یہ باتیں لاکھ گھسی پٹی اور مضحکہ خیز لگتی ہوں لیکن جن چالیس فیصد لوگوں نے انہیں ووٹ دیے ہیں، ان پہ ایسی ہی باتوں کا اثر ہوتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ہر حال میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کرنے کو تیار ہیں اور انہی کے ووٹوں کی بدولت ان کی جیت ممکن ہو ئی ہے۔ یہ باتیں انہیںعامیانہ نہیں بلکہ عوامی معلوم ہوتی ہیں اور کارکن طبقے میں ایسی باتیں طاقت کا احساس پیدا کرتی ہیں۔
''امریکہ فرسٹ‘‘ کا نعرہ ان کے لئے جنگی نعرے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس سے ان میں قوت جاگ جاتی ہے، ایک امید پیدا ہو جاتی ہے۔ خو د کو معتبر ثابت کرنے کے لئے اب ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے تمام وعدوں کو عملی جامہ پہنا کر نتائج دکھانے ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ تجارت، محصولات، امیگریشن اور خارجہ امور سمیت تمام معاملات میں فیصلے امریکی کارکنوں اور امریکی خاندانوں کے فوائد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کئے جائیں گے۔ کاروباری طبقہ بھی ان کی باتیں غور سے سن رہا ہے اور انہی کے مطابق سرگرم بھی ہو رہا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کے ڈیوس میں منعقد ہونے والے سالانہ اجلاس میں بڑی بڑی کمپنیوں کے سی ای اوز نے بتا یا کہ کس طرح وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں نئے کارخانوں کے قیام اور ملازمتوں کے مواقع کی تخلیق کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ درآمدا ت پہ محصولات عائد کرنے اور بیرونی ممالک کے شہریوں کو ملازمتیں فراہم کرنے والی کمپنیوںکے خلاف کارروائی کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی۔ چنانچہ یہ کمپنیاں فی الفور اپنے وطن میں کاروبار بڑھانے پہ آمادہ ہو گئی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ صرف ایک بزنس مین ہی نہیں، ایک شو مین بھی ہیں اور من چاہے نتائج حاصل کرنے کے لئے وہ یہ دونوں قسم کا تجربہ بروئے کار لائیں گے۔ وہ جانتے ہیں کہ سی ای اوز کو اپنی باٹم لائن کی بڑی فکر رہتی ہے اور تعلقات عامہ کی ابتری انہیں بالکل پسند نہیں ہوتی، اسی لئے اب یہ کمپنیاں مزید اپنے ہیڈ کوارٹرز آئر لینڈ یا لکسمبرگ کے کسی پوسٹ باکس ایڈریسوں پہ منتقل نہیں کریں گی۔
اپنے خطاب سے ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے مقامی حامیوں کے کانوں میں رس ضرور گھولا ہو گا کیونکہ انہوں نے باتیں بھی معیشت اور ملازمتوں کے حوالے سے کی تھیں۔ یہ دونوں ہی خاصے مقبول موضوعات ہیں۔ اسقاطِ حمل اور مسلمانوں پہ پابندی کی باتوں سے اس وقت تو انہوں نے گریز کیا تھا لیکن اب وہ بیک جنبشِ قلم ان تمام اداروں کی مالی معاونت روک چکے ہیں جو اسقاطِ حمل کی حمایت کرتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے سات مسلمان ممالک سے لوگوں کی امریکہ آمد پر بھی وہ نوے دن کی پابندی لگا چکے ہیں۔ اپنا افتتاحی خطاب چونکہ وہ اپنے حامیوں کی سماعتوں کے لئے کر رہے تھے اس لئے اپنی خارجہ پالیسی کے بارے میں انہوں نے کچھ زیادہ بات نہیں کی تھی، لیکن اپنے دفتر میں داخل ہوتے ہی انہوں نے اپنے بہترین دوست یعنی ولادی میر پوٹن کے علاوہ سبھی عالمی لیڈروں کے ساتھ دشمنی مول لے لی ہے۔ پوٹن کے بارے میں تو ڈونلڈ ٹرمپ کا یقین یہی ہے کہ ان سے کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اپنے ایجنڈے پہ وہ عمل درآمد فوری شروع کریں گے، اسی لئے وہ یکے بعد دیگرے ایگزیکٹو آرڈرز جاری کر رہے ہیں۔ ان کی نامزد کردہ کابینہ کے ممبران کو ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین کے سخت ترین سوالات کی بوچھاڑ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم ری پبلکن پارٹی ''نیوکلیئر آپشن‘‘ کا استعمال کر سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سینیٹ میں اکثریتی لیڈر مچ میک کونیل کو کہہ چکے ہیں کہ سپریم کورٹ میں تقرری کے لئے جج نیل گورسچ کی منظوری کی خاطر اگر ضرورت پڑی تو '' نیوکلیئر‘‘ ہو جانا چاہیے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو ری پبلکن پارٹی یک طرفہ طور پر کارروائی کرتے ہوئے قواعد میں ترمیم کر سکتی ہے، جس کے بعد جج نیل گورسچ کی تقرری کے لئے سو اراکین کے ایوان میں ساٹھ ووٹوں کی منظوری کی بجائے سادہ اکثریت کی منظوری درکار ہو گی۔ امریکی صدارتی عہدے کی بھی اپنی حدود ہیں، امید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جلد یہ با ت سمجھ جائیں گے۔
ہو سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ یہ باتیں اپنے ووٹروں کو خوش کرنے کے لئے کرتے ہوں لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وقت بدل رہا ہے۔ ایک مختصر تحریری نوٹ آج کل سوشل میڈیا پہ بڑا مقبول ہو چکا ہے، جو ہے تو ہسپانوی زبان میں لیکن اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے: ''شمالی امریکہ کے پیارے باسیو! آپ لوگوں نے اپنے اور ہمارے بیچ ایک دیوار کھڑی کرنے کے لئے ووٹ دیا ہے۔ آپ لوگوں کو ویسے تو جغرافیے کی کوئی سمجھ نہیں لیکن اس سے پہلے کہ اس دیوار کی بنیادیں رکھی جائیں، آپ لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس دیوارکے پیچھے آپ لوگ کیاکچھ چھوڑ رہے ہیں۔ اس دیوار کے اس طرف سات ارب لوگ ہوں گے۔ ان لوگوں کے بارے میں چونکہ اور تو آپ لوگ جانتے ہیں، لہٰذا یہاں انہیں ''صارفین‘‘ کہنے پہ اکتفا کر لیتے ہیں۔ یہ سات ارب صارفین آئی فون کو سام سنگ اور ہو وائی سے بدلنے پہ خوشی خوشی تیار ہوجائیں گے۔ لیوائے کی جگہ زارا اور ماسیموڈٹی خریدا کریں گے۔ ہم فورڈ اور شیورلیٹ خریدنا چھوڑ دیں گے کیونکہ ہمیں ٹویوٹا، وولوو، رینو اور بی ایم ڈبلیو بھی پسند ہے۔ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ کھیلوں کی مصنوعات صرف Nike ہی نہیں بلکہ Adidas والے بھی بناتے ہیں۔ ہمیں آپ کے تصور سے بھی زیادہ معلومات حاصل ہیں۔ مثلاً ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم سات ارب صارفین نے آ پ لوگوں کی مصنوعات خریدنا چھوڑ دیں تو آپ کے وطن میں بے روزگاری کا دور دورہ ہو گا اور آپ کی معیشت اس دیوار کے پرے ایک ایسی حد تک بیٹھ جائے گی کہ اسے آخری دھکا دے کر گرانے کے لئے بھی ہماری ہی ضرورت پڑے گی۔ ایسا کچھ بھی کرنا ہماری خواہش کبھی نہیں تھی، دیوار آپ لوگوں کو چاہیے تھی اور یہ دیوار آپ کو مل کے رہی گی! والسّلام۔۔۔۔ باقی ساری دنیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں