وَن مور چانس!

وہ 1951ء کی ایک اداس شام تھی جب امریکہ کے شہر کینٹکی کے ایک پارک میں گھنے پیڑ کے نیچے رکھے بینچ پر بیٹھا ایک 61سالہ مایوس بوڑھا یہ سوچ رہا تھا کہ کاش نبضِ زندگی تھم جائے! یہ خرقہ پوش اپنی بد نصیبی سے لڑتے لڑتے تھک چکا تھا اور اب کل کا سورج طلوع ہونے سے پہلے اپنی زندگی کا چراغ گُل کرنے کا سوچ رہا تھا ۔ اس کی زندگی میں سوائے ناکامی اور نامرادی کے اور تھا ہی کیا؟ عجیب وحشت کا عالم تھا۔ اس نے تکلیف کی شدت سے آنکھیں میچ لیں اور اس کی پوری زندگی کے مصائب ‘ ناکامیاں اور مسائل ایک فلم کی طرح اس کے دماغ کی سکرین پر چلنے لگے۔ 9ستمبر 1890ء کے دن امریکی ریاست انڈیا نا میں سکونت پذیر مسٹر ڈیوڈ سینڈرز اور مارگریٹ نامی خاتون کے ہاں ان کی پہلی اولاد نے جنم لیا‘ جس کا نام ہارلینڈسینڈرزرکھا گیا۔ صرف پانچ سال کی عمر میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔مار گریٹ نے شوہر کی موت کے بعد اپنے تینوں پھولوں کو مرجھانے سے بچانے کیلئے دن رات محنت کی۔ وہ لوگوں کے کپڑے سی کر اپنے بچوں کے بدن ڈھانپنے کا سامان کرتی رہی۔ ماں فیکٹری جانے لگی تو ننھا ہارلینڈ چھوٹے بہن بھائی کیتھرین اور کلیرنس کو سنبھالنے لگا۔ فیکٹری سے واپسی پر ماں اپنے بیٹے کو دیکھتی تو لرز جاتی۔ اسے اپنے کم سِن بیٹے کے چہرے پر 60سالہ بوڑھے کی سنجیدگی اور فکر مند آنکھیں نظر آتیں کیونکہ اپنی ماں کے بعد اب وہ گھر کا ''بڑا ‘‘تھا۔
اسی دوران ہارلینڈ نے گھر کا چولہا ہانڈی بھی سنبھال لیا اور وہ دن ہارلینڈ کی زندگی کا خوشگوار ترین دن تھا جب اس نے چھ سال کی عمر میں پہلی بار بریڈ تیار کی۔ بہن بھائیوں کو کھلانے کے بعد لقمہ توڑ کر منہ میں ڈالنے ہی لگا کہ ماں کا خیال آگیا جو روزی کمانے بنا کچھ کھائے ہی نکل گئی تھی۔ ہارلینڈ نے اپنے دونوں ننھے بہن بھائیوں کو ہمراہ لیا اور چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے اس فیکٹری جا پہنچا جہاں ماں مزدوری کرتی تھی۔ ماں نے دور سے اپنے بچوں کو دیکھا تو دیوانہ وار اپنے بچوں کی طرف بھاگی اور انہیں سینے سے لگا لیا۔ اسی اثنا میں ہارلینڈ نے خوشی سے چمکتے چہرے کے ساتھ اپنے ننھے ہاتھوں سے تیار کردہ بریڈ ماں کی خدمت میں پیش کی تو ماں کی آنکھیں خوشی سے چھلک گئیں اور اس نے اپنے بیٹے کو دعا کی دولت سے نوازا۔ یہ وہ دعا تھی جو تمام عمر ہارلینڈ سینڈرز کے ہمراہ رہی اورجس نے کبھی اُسے تھکنے نہیں دیا۔اسی طرح چند سال اور گزر گئے تو روزوشب کی مسلسل محنت سے تھکی ماندی مارگریٹ دوسری شادی کر کے اپنے تین بچوں کے ہمراہ گرین ووڈآن بسی لیکن اس کا بیٹا ہار لینڈ سینڈرز اُجڑ گیا۔ سوتیلے باپ کے ناروا سلوک نے اس تیرہ سالہ لڑکے کو گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ راستوں کی دُھول اس کا مقدر ٹھہری مگر یہ چلتا رہا ۔اس نے فارم پر کام کرنا شروع کیا مگر ناکام رہا؛پولیز کے شہر میں گھوڑا گاڑیوں کو رنگنے کا کام بھی اس کی زندگی میں کوئی رنگ نہ بھر سکا؛ بطور کنڈیکٹر ملازمت اختیار کی مگر یہاں بھی ناکامی کا سامنا رہا؛ فوج میں بھرتی ہوا نکال دیا گیا‘انشورنس اور کریڈٹ کارڈ بیچے تو وہ بھی ایک سعی ٔلاحاصل ثابت ہوئی۔لیکن جب ریلوے کی ملازمت اختیار کی تو اس کی قسمت نے ہلکا سا تبّسم کیا اور اس کی ملاقات جونسفن نا می لڑکی سے ہوئی جو اس کی شریکِ حیات بنی اور اسے تین خوبصورت بچوں کا تحفہ دیا ۔مگر جلد ہی وہ ریلوے کی ملازمت سے بھی نکال دیا گیا۔ جمع پونجی ختم ہوئی اور نوبت فاقہ کشی تک پہنچی تو نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلا۔ اب وہ نجی زندگی میں بھی مکمل طور پر ناکام ہو چکا تھا لیکن ہارلینڈسینڈرز کسی بھی طور خود کو ناکام شخص ماننے کو تیار نہ تھا۔ 
ہارلینڈ ملازمتوں میں مسلسل ناکامی سے اُکتا چکا تھا‘ لہٰذا اس نے کاروبار کا فیصلہ کیا۔ اس نے لال ٹین کی کمپنی بنائی جو ابتدا میں بہتر چلنے لگی لیکن شومئی قسمت کہ بلب بنانے والی کمپنی ٹیلکو کے مارکیٹ میں آتے ہی اس کی کمپنی کا چراغ بجھ گیا۔ 1929ء میں ہارلینڈ کینٹکی جا پہنچا اور یہاں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اُسے بچپن سے چکن کی مختلف ریسپیز بنانا آتی تھیں اور فرائی چکن کی ایک ریسپی پر اُسے بے پناہ یقین تھا ‘ لہٰذا اس نے کینٹکی میں ایک گیس سٹیشن کھولا اور اس کے عقب میں ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ بنالیا ‘وہاں اس نے اپنی شاندار ریسیپی فرائیڈ چکن کی ترسیل شروع کی جسے لوگوں نے بے پناہ پسند کیا۔ کینٹکی کے گورنر کو اس کا فرائیڈ چکن اس قدر پسند آیا کہ اس نے اُسے کرنل کے خطاب سے نواز دیا۔ اب وہ کرنل ہارلینڈ سینڈرز بن چکا تھا‘لیکن یہاں بھی اس نے منہ کی کھائی اور بدقسمتی سے اس کا چلتا ہوا ریسٹورنٹ ہائی وے کی زد میں آگیا اور حکومت کی طرف سے 105ڈالر ماہانہ پنشن کے عوض یہ ریسٹورنٹ گرادیا گیا ۔اس عمارت کے گرتے ہی ہارلینڈ کا حوصلہ بھی گر گیا۔ اب اس کی عمر 61 برس ہو چکی تھی اور یہ پہلا موقع تھا جب اسے محسوس ہوا کہ اس طویل عمر میں اس نے ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں کمایا۔ اب یہ ناکام بوڑھا کمزور لمحات کی شکستہ زمین پر اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کا بوجھ اٹھائے تاریک راستوں پر سائے کی مانند رینگ رہا تھا۔ اس کے سامنے سوچوں کی پگڈنڈی دُور مستقبل کے بنجر ٹیلوں میں جا کر گم ہوجاتی تو یہ تھک کر اپنے ہی بدن کے شکستہ سائے میں بیٹھ جاتا اور اپنی آنکھیں موند لیتا۔ 
پارک میں بیٹھے اس مایوس بوڑھے نے آنکھیں کھولیں تو پارک لوگوں سے خالی ہو چکا تھا‘ برقی قمقموں کی روشنی اس کی ویران آنکھوں سے ٹکرائی تو اس نے مایوسی کا بوسیدہ لباس اتار پھینکا اور زندگی کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ ''ون مور چا نس‘‘ کے تین الفاظ اسے زندگی میں واپس لے آئے ‘اُسی لمحے اس نے عزم ِ صمیم کیا کہ وہ آخری سانس تک ہار نہیں مانے گا۔ دل میں امید اور اعتماد کے نئے چراغ روشن کر کے وہ کامیابی کے تعاقب میں دوبارہ نکل پڑا۔ اس خالی ہاتھ بوڑھے نے ایک دوست سے 83ڈالر ادھار لیے‘ پریشر ککر اور گیارہ مصالحے اٹھا کر اپنی ریسیپی کی فرنچائز بیچنے نکل کھڑا ہوا‘ جسے ہارلینڈ خفیہ ریسیپی قرار دیتا تھا ۔اُس کا دعویٰ تھا کہ پوری دنیا میں اس سے بہتر فرائیڈ چکن کی کوئی ریسپی نہیں۔ یہاں بھی اس نے دردر کی ٹھوکریں کھائیں اور ایک ہزار نو ریسٹورنٹس نے اسے یکسر مسترد کر دیا مگر اس بوڑھے نے پھر بھی ہار نہیں مانی ‘بالآخر1952ء میں پیٹر ہارمن نے اپنے ریسٹورنٹ کے مینیو میں ہارلینڈ کی ریسپی کینٹکی فرائیڈ چکن کے نام سے شامل کر لی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب قسمت اور دولت کی دیویاں اس پہ اچانک مہرباں ہوئیں ۔ہارلینڈ کی زندگی کا سنہرا دور شروع ہوا‘ جب نوے فیصد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اب ان کے آرام کا وقت ہے ۔لیکن اسی وقت ہارلینڈ کی زندگی کا سب سے کامیاب اور خوبصورت دور شروع ہوا اور یوں1955 میں اُس نے اپنی کمپنی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔وہ ہارلینڈسینڈرزجسے کل تک لوگ باہر کا راستہ دکھایا کرتے تھے ‘اس کے آفس کے باہر قطار در قطار فرنچائیز کے حصول کیلئے لوگ کھڑے ہوتے۔ ہارلینڈ کی فرائیڈ چکن ریسپی امریکہ سے نکل کر کینیڈا اور پھر برطانیہ سے ہوتی ہوئی پوری دنیا میں پھیل گئی۔ پوری دنیا ہارلینڈ سینڈ رز کی صلاحیتوں کا لوہا مان چکی تھی۔ 1964ء میں ہارلینڈ نے دو ملین ڈالرز کے عوض اپنی کمپنی بیچ دی اور چالیس ہزار سالانہ تنخواہ پر کمپنی کا برینڈ ایمبیسڈر کے طور پر تا حیات کام کرتا رہا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسے دنیا کی دوسری مقبول ترین شخصیت قرار دیا گیا۔ 16دسمبر 1980ء کو یہ نا قابلِ شکست انسان پُرسکون چہرے کے ساتھ دنیا کو ہمیشہ کیلئے الوداع کہہ گیا‘ مگر اس کی زندگی میں ہی اس کی فرائیڈ چکن کمپنی کے 48 ممالک میں پانچ ہزار فرنچائیز ریسٹورنٹس موجود تھے۔
چمکتی آنکھوں اور غیر متزلزل حوصلے والا یہ بوڑھا کرنل ہارلینڈسینڈرز بے مثال عزم و ہمت کا استعارہ بن کر ہمیں جُہدِمسلسل اورعمل ِپیہم کا درس دیتا نظر آتا ہے۔ اگر آپ کبھی زندگی میں ناکامیوں ‘ مایوسیوں‘ پریشانیوں اور مسائل کی بند گلی میں پھنس جائیں تو شکستِ آرزو تسلیم کرنے کی بجائے خود کو ایک اور موقع ضرور دیں۔ہو سکتا ہے وہی لمحہ آپ کی قسمت بدل ڈالے ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں