پچھلے ہفتے کالم ''ہائوس وائف‘‘ کی جہاں خواتین کی اکثریت کی طرف سے پذیرائی ہوئی‘ وہاں ورکنگ ویمن کی جانب سے شکایات کے انبار بھی موصول ہوئے۔ بھیجے گئے پیغامات میں انہوں نے اپنے مسائل اور خدمات کو اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیاتھا۔ انہوں نے اپنے مخصوص حالات، مجبوریوں اور ملکی تعمیر و ترقی میں اپنے کردار کے حوالے سے کالم کی فرمائش کی۔ میں اس ضمن میں ابھی سوچ بچار کر رہا تھا کہ اتنے میں میرے دو خاص مہمان‘ پروفیسر رحمت علی صاحب المعروف ''بابا جی‘‘ اپنے چہیتے چیلے جیدی میاں کے ساتھ آن پہنچے۔ بابا جی شعبۂ تاریخ کے نامور استاد رہے ہیں اور اس کے علاوہ فلسفہ، تصوف اور مذہب پر پُرمغز گفتگو کرنے پر ملکہ رکھتے ہیں جبکہ جیدی میاں اُن کے ہوشیار شاگردوں میں سے ہیں اور برطانیہ سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد مختلف لا کالجز میں لیکچر دیتے ہیں۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ جب بھی میں کسی مشکل موضوع کی گتھلیاں سلجھانے بیٹھتا ہوں عین اسی وقت بابا جی جلوہ افروز ہو جاتے ہیں اور میری مشکل آسان کر دیتے ہیں۔ کرسی پر براجمان ہوتے ہی جیدی میاں خود کو آزادیٔ نسواں کا علمبردار ثابت کرنے پر تُل گیا اور مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ اللہ بھلا کرے باباجی کا جنہوں نے اس طوفان کو اپنے استدلال اور منطقی دلائل سے سنبھالا دیا۔
باباجی کی گفتگو کا خاص پہلو اُن کی تاریخی حوالوں پر مکمل دسترس ہے۔ حقوقِ نسواں کے تاریخی تناظر پر روشنی ڈالتے ہوئے باباجی گویا ہوئے ''جب سترہویں صدی میں برطانیہ میں صنعتی انقلاب شروع ہوا تو جہاں ایک طرف برطانیہ کا قومی خزانہ دھڑا دھڑ بھرنا شروع ہوا وہیں دوسری طرف مصیبت یہ آن پڑی کہ وسائل زیادہ ہو گئے اور ان کو بروئے کار لا کر ملک کو آگے لے جانے والے لوگ کم رہ گئے۔ برطانیہ کے پاس اتنے ٹھیکے تھے کہ انہیں پورا کرنے کے لیے مزدور کم پڑ گئے۔ اس ضمن میں عورتوں سے کام لینے کا فیصلہ کیا گیا مگر عورتوں کو گھر سے باہر لانا آسان نہ تھا اور تقریباً تمام مذاہب اس چیز کو نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے لہٰذا سب سے پہلے ایک آزاد خیال عورت ''میری والسٹون کرافٹ‘‘ کو اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ وہ عورت کی آزادی پر بات کر کے اُسے گھر سے باہر نکل کر کام کرنے پر قائل کرے۔ اِس ضمن میں 1796ء میں ایک کتاب ''اے ونڈیکیشن آف دی رائٹس آف ویمن‘‘سامنے آئی، جس نے عورت کی سوچ کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ اس کتاب کو عالمی سطح پر بیحد پذیرائی ملی اور اس کے بعد عورتوں نے گھر سے نکلنا شروع کر دیا مگرایک حیران کن اور انتہائی اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب کی مصنفہ کے انتقال کے بعد اس کی آپ بیتی ''میموریز آف دی آتھر آف ونڈیکیشن آف دی رائٹس آف ویمن‘‘ اس کے شوہر ولیم گوڈون کی مدد سے منظر عام پر آئی۔ اس خود نوشت کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ آزاد خیال مصنفہ اپنی آزاد خیالی کی وجہ سے پوری زندگی مختلف اخلاقی اور سماجی مسائل کا شکار رہی، یہاں تک کہ اس نے بارہا خود کشی کی کوشش بھی کی‘‘۔
''تو بابا جی !آپ کا کیا خیال ہے کہ نصف آبادی کو گھر بٹھا کر ملک کی تعمیر و ترقی کا سفر روک دیا جائے؟‘‘جیدی میاں نے مزید تیر کمان سے نکالتے ہوئے تند و تیز سوالات کے انبار لگا دیے۔ ''عورت اپنی صلاحیتوں کا گلا گھونٹ کر خود کو ضائع کر لے؟ اسے جینے کا، خوش ہونے کا کوئی حق نہیں؟ وہ دن رات بچوں اور شوہر کیلئے وقف کر دے لیکن زندگی کو اپنی مرضی سے نہ گزارے ؟ کیا وہ انسان نہیں؟ عورت میں وہ سب صلاحیتیں موجود ہیں جن کی بنا پر وہ دنیا تسخیر کر سکتی ہے‘‘۔ بابا جی کے چہرے پر پھیلی حکمت کی جھلک مزید واضح ہوئی اور وہ اپنے مخصوص انداز میں گویا ہوئے۔ ''دیکھ پتر جیدی! مرد اور عورت فطرت کی گاڑی کے دو پہیے ہیں جو اس قدر لازم اور ضروری ہیں کہ ایک نہ ہو تو کہانی ادھوری رہ جاتی ہے، یہ دونوںلازم و ملزوم ہیں لیکن ذمہ داریاں الگ الگ ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ عورت نوکری کرتی کیوں ہے؟ درحقیقت معاشرے میں خواتین کے چار طبقے ہیں۔ پہلا طبقہ گھریلو خواتین پر مشتمل ہے جس کی خصوصیات (پچھلے کالم میں) بیان ہو چکیں، جن سے میں متفق بھی ہوں۔ دوسرا طبقہ ان خواتین پر مشتمل ہے جن کے مالی حالات اس قدر غیر مستحکم ہیں کہ انہیں اپنے خاوند کا معاشی بوجھ خود اٹھانا پڑتا ہے اور عورتوں کا سب سے مظلوم طبقہ یہی ہے جن پر امورِ خانہ داری کے ساتھ ساتھ رزق کمانے کی ذمہ داری بھی عائد ہو جاتی ہے۔ یہ خواتین گھر کے کاموں، کھانا پکانے، بچوں کی بہترین پرورش سے لے کر اخراجات تک سب بوجھ خود اٹھاتی ہیں اور یوں زندگی کا پہیہ چلانے کی جہد ِمسلسل میں مصروفِ عمل رہتی ہیں۔ تیسرا طبقہ ان خواتین کا ہے جو بے پناہ صلاحیتوں کی مالک اور اعلیٰ تخلیقی ذہن کی حامل ہوتی ہیں جن کے لیے انگریزی میں ''بلیو سٹاکنگ‘‘کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہ خواتین سمجھتی ہیں کہ وہ معاشرے کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کر سکتی ہیں اور دنیا کو ایک نئی سوچ دے سکتی ہیں۔ یہ خواتین پُروقار شعبے کا چنائو کر کے گھر یلو ذمہ داریوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتی ہیں اور اگر کبھی گھر اور کام میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا پڑے تو یہ گھر کو ترجیح دیتی ہیں۔ چوتھا اور آخری طبقہ ان خواتین کا ہے جو نہ تو ذہین ہوتی ہیں اور نہ ہی گھریلو ذہن رکھتی ہیں ؛وہ بس آزادی چاہتی ہیں۔ ان کا مذہب سے لگائو ہوتا ہے نہ معاشرتی رسم و رواج سے کوئی سروکار، انہیں بس آزادی چاہئے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتیں کہ وہ کس سے آزاد ہونا چاہتی ہیں۔ نہایت قلیل تعداد پر مشتمل خواتین کا یہ طبقہ رشتوں کو بوجھ اور بچوں کو پائوں کی بیڑیاں سمجھتا ہے‘‘۔ ''بابا جی پلیز!‘‘اب جیدی میاں کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا، وہ چیخ اٹھا۔ ''بابا جی! آپ اس قدر اینٹی ویمن ہیں مجھے اندازہ نہیں تھا۔ آپ نے خواتین کے جس چوتھے طبقے کی بات کی ہے وہ طبقہ ہی اصل زندگی جی رہا ہے، ایسی زندگی جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ یہ مرد ہو تا کون ہے عورت کو یہ بتانے والا کہ وہ کیا پہنے اورکیا نہ پہنے، کس سے ملے اورکسے نظر انداز کرے، گھر میں بیٹھے یا نوکری کرے۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ لوگ عورت کو انسان سمجھتے ہی نہیں، آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے اور اُف تک نہ کہے۔ اگر عورت ان فرسودہ روایات سے فرار چاہے اور اپنی خوشی سے جینا چاہے تو وہ باغی اور آوارہ کہلاتی ہے۔ یہ سراسر انسانیت کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے‘‘۔
اس سے پہلے کہ اس ساری بحث میں میں اپنا حصہ ڈالتا، بابا جی پھر گویا ہوئے۔ ''بہت خوب !تیری ساری باتیں دل کو لگتی ہیں پر تو جو عالم فاضل بن کے ملکی اور غیر ملکی یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتا پھرتا ہے، اگر آج سے 40 سال پہلے ایک عورت تجھے اپنی آغوش ِ محبت میں نہ چھپاتی، دن رات ایک کر کے تیری تربیت نہ کرتی تو کیا ہوتا؟، وہ عورت جس کی سانسوں سے وظیفوں کی اٹھنے والی خوشبو سیدھا تیرے دل تک جاتی اور تو سرشار ہو جاتا۔ وہ عورت جو گھنٹوں تیرا سر گود سے اس لیے نہ نکالتی کہ کہیں تیری نیند خراب نہ ہو۔ جو تجھے توے سے گرما گرم روٹی اتار کر دیتی تا کہ تیرا جسم طاقت پکڑے اور تو ترقی کے سفر پر گامزن رہے۔ وہ عورت جو تیرے چھوٹے چھوٹے مسائل کو بے حد سنجیدہ لیتی اور ان کے حل کے لیے اپنی جان لڑا دیتی۔ اگر تیری ماں بھی آزادی کا نعرہ لگا کر ہر ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کا اعلان کردیتی تو آج تمہاری یہ جاندار شخصیت کبھی سامنے نہ آتی۔ جیدی بیٹا! عورت اللہ کی رحمت ہے، اللہ نے اسے باعثِ سکون و راحت بنایا ہے۔ یہ نسلوں کو سنوارنے کیلئے پیدا کی گئی ہے اوراسی لیے اِسے مسندِ توقیر عطا کی گئی ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ مغرب کے نام نہاد تہذیب یافتہ معاشرے میں دو تہائی عورتیں شدید ذہنی اور نفسیاتی دبائو کا شکار ہیں، ان کی جوانی تو کسی نہ کسی طرح بسر ہو ہی جاتی ہے مگر بڑھاپا سوہانِ روح بن جاتا ہے۔ یاد رکھیں!اللہ نے جس عورت کے پائوں کے نیچے ہمارے لیے جنت رکھ دی ہے ہم اسے کمائی کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں جبکہ اللہ نے نان و نفقہ کی ذمہ داریاں صرف مرد پر عائد کی ہیں‘‘۔گفتگو میں مختصر سا وقفہ آگیا اور مکمل خاموشی چھا گئی۔ ''جپہ صاحب کافی پلائیں!‘‘جیدی میاں نے ہشاش لہجے میں کہا جو وہ اکثر بات بدلنے کے لیے استعمال کرتا ہے، میں نے سب سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔