آج سے چار دہائیاں قبل ہمارے گائوں کے پرائمری سکول میں پلے گروپ اور نرسری کے بجائے ''کچی پہلی‘‘ اور ''پکی پہلی‘‘ہوا کرتی تھیں۔ صبح سویرے کھاد کی بوری اور پلاسٹک شیٹ بستے میں ڈال کر سکول جایا کرتے تھے اور زمین پر موجود اپنی مخصوص جگہ پر قبضہ جمانا اولین ترجیح ہوتی تھی۔ فرنیچر کی عدم دستیابی کے سبب کھاد کی بوری اور اس کے نیچے بچھی ہوئی پلاسٹک شیٹ زمین کی ٹھنڈک سے بچائو کیلئے استعمال ہوتی تھی۔ زمین پر ہی اِملا لکھوائی جاتی تھی۔ ایک روز میں اپنی ''پکی پہلی‘‘ جماعت سے نکل کر اوّل کلاس کے پاس سے گزررہا تھا کہ ساری کلاس استادِ گرامی رانا غلام محمد مرحوم کی ہیبت کے آگے سہمی کھڑی تھی۔ وہ پوری جماعت کی اُردو اِملا کی غلطیوں پر سخت نالاں تھے۔ میں نے بڑے ادب سے انہیں پیشکش کی کہ میں اِملا کے وہ الفاظ لکھ کر دکھا سکتا ہوں۔ اُستادِ گرامی بہت حیران ہوئے اور مجھے زمین پر تین الفاظ لکھنے کا حکم دیا۔ میں نے فوراً 'نگہبان، مہربان اور حفاظت‘ لکھ کر ان سے داد و تحسین وصول کی جس پر انہوں نے مجھے پکی پہلی سے اوّل جماعت میں ترقی دے دی اور حکم صادر فرمایا کہ میں اپنا بستہ بوری لے کر اوّل جماعت میں شامل ہو جائوں۔ زمانۂ طالب علمی کے ابتدائی ایّام کی یہ پہلی 'بڑی‘ کامیابی مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ اس سے میرے حوصلے بلند ہوئے اور خود اعتمادی میں بھی اضافہ ہوا۔چونکہ والد محترم پروفیسر محمد انور خان کو اُردو اور فارسی کے مضامین پر دسترس کے سبب مرزا غالب اور علامہ اقبالؒ کے شعر و سخن پر کمال ملکہ حاصل تھا‘ سو علم و ادب سے گہری وابستگی مجھے ورثے میں ملی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب جماعت پنجم کی الوداعی پارٹی کا اہتمام کیا گیا تو چوتھی جماعت کی نمائندہ تقریر کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔ ابا جان نے مجھے ایک جاندار تقریر لکھ کر دی جس میں برمحل اشعار اور طلسماتی الفاظ نے ایک سماں باندھ دیا اور یوں لوگوں کے سامنے خود اعتمادی سے گفتگو کرنا میرے لیے کوئی مسئلہ نہ رہا۔
ہمارے گائوں سے مڈل سکول سات کلومیٹر کے فاصلے پہ واقع تھا، روزانہ چودہ کلومیٹر پیدل سفر کرنا معمول تھا۔ موسم کی شدت، گرمی سردی، بادوباراں اور آندھی و طوفان سے بے نیاز‘ سیف انور بھائی اور میں گائوں کے دیگر طلبہ کے ساتھ پگڈنڈیوں پر بھاگتے ہوئے سکول پہنچ جاتے۔ اس زمانے میں جمعہ کو عام تعطیل ہوتی تھی اور جمعرات کو آدھی چھٹی۔ اسمبلی کے فوری بعد بزمِ ادب کا پروگرام شروع ہو جاتا تھا جس میں تقریری مقابلہ، حُسنِ نعت و قرأت، بیت بازی ، اقبالیات اور دیگر ہم نصابی سرگرمیوں کے خوب مقابلے ہوتے تھے۔ سب سے دلچسپ مقابلہ بیت بازی کا ہوا کرتا تھا جس میں ''کچی پہلی ‘‘ اور ''پکی پہلی‘‘ والے ننھے منے طلبہ بھی حمد و نعت کے اشعار سنا کر اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے تھے۔ انہی بیت بازی کے مقابلوں میں سے ایک مقابلے میں مَیں پورے سکول میں اوّل آیا اور اس زمانے میں 70روپے سے زائد رقم کے انعامات جیتنے میں کامیاب ہوا۔ میرے مقابلہ جیتنے پر والد گرامی بہت خوش ہوئے۔ مجھے اپنے ابا جان سے بے پناہ محبت تھی اور وہ میری آئیڈیل شخصیت تھے۔ وہ ہمیشہ ہمارے لیے بڑے خواب دیکھتے اور ان خوابوں کی تعبیریں اور ان سے جڑی ہوئی کامیابیاں ہمارے ساتھ شیئر کرتے تھے مگر رب تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا جب ستمبر کی ایک شام انہیں دل کا جان لیوا دورہ پڑا اور وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے، یوں وہ اپنے خوابوں سمیٹ منوں مٹی تلے جا سوئے اور میں کم عمری میں اپنے والد کے سایۂ شفقت و الفت سے محروم ہو گیا مگر ان کے بلند پایہ خوابوں کو مشعلِ راہ بنا کر زندگی کے پُر پیچ راستوں کی خاک چھاننے لگا۔ سفر لمبا، صبر آزما اور انتہائی کٹھن تھا۔ ان خوابوں کی تعبیریں کہیں دور محض چشمِ تصور میں دکھائی دیتیں۔ کبھی ایک دُھندلی سی تصویر بنتی اور پھر فوراً آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی۔ مگر کارِ جہاں میں جہدِ مسلسل، عملِ پیہم اور صدقِ دل کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے کامیابی کی طرف سفر جاری رکھا اور یوں چنیوٹ کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولنے والا دیہاتی لڑکا اپنے مرحوم باپ کے بڑے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈتا سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے بالآخر ''بابو‘‘ بن گیا۔ مگر روایتی بابو ئوں کے برعکس میں نے دھرتی ماں سے اپنا گہرا تعلق ختم نہیں کیا۔ اپنی جڑوں کو کمزور نہیں ہونے دیا بلکہ ان سے نمو پائی۔ اپنے گائوں اور اس کے باسیوں سے تعلق کو مزید مضبوط بنایا اور کبھی بابو پن کو اپنے لوگوں سے وابستگی کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔ زمین سے اس گہرے اور مضبوط رشتے نے نہ صرف مجھے اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے بلکہ پورے انہماک اور بے مثال جذبے سے سرشار ہو کر ملک کیلئے کچھ بڑا اور منفرد کر دکھانے کی طاقت بخشی۔ یہی رشتہ میری تحریروں میں ارضِ پاک سے بے پناہ محبت اور غیر مشروط وفا کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔گزشتہ پچیس سال میں کارِ سرکار کی انجام دہی کے دوران تجربات اور مشاہدات نے جہاں میری تحریروں میں عملی زندگی کی سچائیوں کا احاطہ کیا‘ وہیں دوسری طرف میرے مربی پروفیسر رحمت علی المعروف بابا جی اور ان کے شاگردِ خاص جیدی میاں کے تند و تیز مگر فکر انگیز مکالموں نے مجھے ہمیشہ مشکل موضوعات کے ساتھ انصاف برتنے میں آسانی فراہم کی۔ یہی وجہ ہے کہ میری تحریروں میں کہیں عالمی و علاقائی امور کا منظر نامہ نظر آتا ہے تو کہیں سماجی کج رویوں کے نشانات۔ کہیں ٹیکس کلچر کی باتیں ہیں تو کہیں گہرے فکری مسائل پر باباجی کی مدلل گفتگو۔
یہ بھی سچ ہے کہ بصارت سے بصیرت تک کے سفر میں کئی ماہ و سال گزرتے ہیں۔ لوحِ خیال پر کئی امکان مچلتے ہیں، چشمِ تصور میں اَن گنت نقوش ابھرتے ہیں‘ مٹتے ہیں۔ بے شمار تحریروں کی کلیاں کھلتی اور مرجھا جاتی ہیں۔ جنہیں الفاظ کے چنائو اور خیال کے رچائو کی نعمت سے سرفراز کیا جاتا ہے۔ ان انعاماتِ خداوندی کا قرض ہمیشہ واجب الادا رہتا ہے۔ خوش نصیبوں کے کاسے میں کائنات سے کائنات تک کے سفر کی سہولت فراہم کردی جائے تو پھر اس کا حساب بھی لیا جاتا ہے کہ صاحب! تمہیں جو عطا کیا گیا اس میں سے تم نے کتنا بانٹا، کہاں خرچ کیا اور کیسے تقسیم کیا۔ ہر قدم ایک امتحان اور ہر لحظہ ایک آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ جنہیں الفاظ کی تاثیر اور خیالات کی تصویر کے سبب مسندِ توقیر ملی ہو، انہیں نہ صرف اپنے الفاظ کی حرمت کا تحفظ یقینی بنایا پڑتا ہے بلکہ فکری طہارت کا بھی اہتمام کرنا پڑتا ہے تا کہ اپنے قاری تک اس عطائے خداوندی کی امانت کو پوری دیانت داری سے پہنچایا جا سکے۔ یہی خیال میرے درِ دل پر بھی مستقل دستک دیے جاتا ہے کہ اگر مجھے پنجاب کے ایک پسماندہ علاقے سے اٹھا کر ملکی سطح کے بڑے وفاقی ادارے میں اہم عہدے سے نوازا گیا ہے تو یقینا یہ عطائے ربِ کریم بے سبب نہیں۔ کچھ بڑامقصد ہے، کوئی عظیم منصوبہ بندی ہے جس کی تکمیل کیلئے میرے ٹوٹے ہوئے الفاظ قومی میڈیا کی زینت بنتے ہیں اور جن میں موجود میرے افکار اگر قارئین و ناظرین کیلئے کوئی امید کا پہلو چھوڑ جاتے ہیں تو یہ میری خوش قسمتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے مشاہدات و تجربات کو فکر و استدلال کی ہلکی آنچ پہ رکھ کر قومی و بین الاقوامی معیشت و معاشرت کا عمیق جائزہ لے کر ناممکنات کی کوکھ سے امکانات پیدا کرنے کی تدبیریں کشید کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ فکر و فن کی یہی ریاضت میرا سرمایۂ حیات بھی ہے اور اس دیہاتی بابو کی بے ساختگی، سادگی اور فطری حسن کی ضامن بھی۔
میری یہ تحریریں اپنی دھرتی ماں کی مٹی کی خوشبو میں رچی بسی ہیں اور عملی زندگی کی بھٹی میں تپ کر صفحۂ قرطاس پر الفاظ کی چادر اوڑھ کر منتقل ہوئی ہیں۔ یہ الفاظ خیالات بن کر میرے ذہن میں رہتے تو خام تھے مگر میں نے خام کو کام میں لانے کیلئے یہ امانت پوری دیانت سے آپ کے سپرد کر دی ہے اور اب میں ایسے مطمئن ہوں جیسے کوئی قرض چکا کر راحتِ قلبی سے سرشار ہوتا ہے۔ ناشر حضرات نے کمال پیشہ ورانہ مہارت اور پوری دلجمعی سے میری تحریروں کو ایک دیدہ زیب کتاب کا جامہ پہنایا ہے اور اس خوبصورت پہناوے میں ''دیہاتی بابو ‘‘اشاعت کے تمام مراحل طے کر کے آپ کے ذوقِ مطالعہ اور ذاتی توجہ کی منتظر ہے۔ جملہ قارئینِ کرام اور کرم فرمائوں کی بے پناہ محبتوں کا بہت شکریہ!