خسارے کا سودا

ظاہری امراض کی طرح باطنی امراض کی بھی کچھ علامات ہوتی ہیں۔ باطن کی بیماریوں میں سے ایک بیماری‘ جو انتہائی مہلک اور انسانی زندگی کے لیے زہرِ قاتل کا درجہ رکھتی ہے‘ تکبر اور غرور ہے۔ تکبر کی ظاہری علامات میں رعب، دبدبہ، رعونت اور خود پسندی ہیں جن کی کسی بھی مہذب معاشرے میں قبولیت نہیں۔ ہم سب عزت و احترام، برابری اور مساوات کے متلاشی رہتے ہیں۔ انسانیت ایک عالمگیر مذہب ہے اور انسانیت کی تعظیم اور تکریم سب پر لازم ہے۔ کسی کا بھی رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر دوسروں کو کمتر سمجھنااور نیچا دکھانا نا پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ متکبر لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ بہت خاص ہیں، عام لوگوں پر لازم ہے کہ ان کے خاص مقام، عہدے اور مرتبے کی وجہ سے ان کی خدمت کریں، ان کے جاہ وجلال کی قدر کریں، انہیں الگ اور منفرد حیثیت حاصل رہے۔ یہ اپنے تئیں یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کے مرتبے اور عہدے کے سبب انہیں خصوصی عزت اور احترام دیا جانا چاہئے۔ جب یہ کسی محفل میں جائیں تو حاضرینِ محفل تعظیم سے کھڑے ہو جائیں۔
متکبر شخص کی تعریف امام غزالیؒ یوں فرماتے ہیں ''تکبر یہی ہے کہ دوسروں کو کمتر اور حقیر جانو، ان کی تحقیر و تذلیل کرو، ان سے دوری اختیار کر کے ان کیساتھ ان کے برتنوں میں کھانا پینا برا سمجھو بلکہ اپنے برتن انہیں استعمال نہ کرنے دو، راستہ چلتے ہوئے لوگ تمہارے پیچھے نہایت ادب سے چلیں، مجلسوں میں اونچی جگہ دی جائے، اگر کوئی اور اونچی جگہ بیٹھا ہو تو تمہیں نہایت ناگوار گزرے، تمہیں کوئی نصیحت کرے تو نفس پر سخت چوٹ لگے، ناک منہ چڑھائو، تلخ اور طعن آمیز جواب دو اور نصیحت کرنے والوں کی تذلیل کرو، خود نصیحت کرنے لگو تو سخت مزاجی سے کرو، غلطی کرنے والے کو ٹوکنے لگو تو درشتی کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کرو، طالب علموں پر نرمی نہ کرو‘‘۔ایک تکبر یہ ہے کہ مال و دولت، اولاد، عقل و دانش اورحسن و جمال کی بنیاد پر خود کو اعلیٰ و ارفع اور دوسروں کو حقیر و ذلیل سمجھا جائے۔ ان چیزوں میں تکبر کرنا تو انتہا کی حماقت ہے کیونکہ ان چیزوں کا حقیقی مالک تو اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ چھن جانے والی نعمتیں اور اشیا ہماری دسترس میں‘ ہمارے تصرف میں ضرور ہیں مگر ان پر اختیارِ حقیقی تو اللہ تعالیٰ کا ہے۔ ایک طبقہ متکبرین کا ایسا بھی ہے جو علم و ادب، فکر و دانش، حکمت اور دانائی کی خود پسندی میں مبتلا ہے۔ یہ بات حیرت زدہ کرتی ہے۔ مال و دولت تو نظر آتے ہیں مگر علم و عمل اور بزرگی و بڑائی کے اسباب تو نظر ہی نہیں آتے۔ یہ محض رب العالمین کی منشا اور اس کا فضل ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا بزرگ بھی اپنے اعمال کو خدا کے ہاں قابلِ قبول نہیں کہہ سکتا، نہ کسی کے پاس قبولیت کی کوئی سند ہے بلکہ جس کی جتنی معرفت ہو گی‘ وہ اتنا ہی اپنے عمل کو حقیر سمجھے گا اور اس کے ساتھ عجز و تواضع کا اظہار کرے گا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں ''تکبر بہت خطر ناک بیماری ہے۔ جس انسان میں یہ پیدا ہو جاتا ہے اس کی روحانی موت واقع ہو جاتی ہے‘‘۔ یقینا یہ بیماری قتل سے بڑھ کر ہے کیونکہ متکبر شیطان کا بھائی ہوتا ہے۔ متکبر شخص کو اللہ سے رجوع اور توبہ کی توفیق بہت کم ملتی ہے کیونکہ تکبر وہ پہلا گناہ ہے جو شیطان نے کیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اسے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو اس نے انکار کر دیا اور جب اللہ تعالیٰ نے اس کو تنبیہ فرمائی تو اس نے توبہ کی اور نہ اسے ندامت ہوئی بلکہ وہ اپنے تکبر پر اصرار کرنے لگا؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے جنت سے نکالنے کا حکم دیا۔ یوں روزِ قیامت تک وہ اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق ٹھہرا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا ''اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ سجدہ کرو آدم کو تو ان تمام نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے انکار کر دیا اور اس نے بڑا بننا چاہا اور وہ کافروں میں ہو گیا‘‘۔ (سورۃ البقرہ: 34)
سورۃ الحجر میں ارشادِ ربانی ہے ''اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ابلیس تجھے کیا ہو گیا ہے کہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں ہوا؟ ابلیس نے کہا: میں سجدہ نہیں کروں گا ایسے بشر کو جس کو تونے پیدا کیا سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی مٹی سے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پھر تو یہاں سے نکل جا، یقینا تو مردود ہے اور تجھ پر لعنت ہے قیامت کے دن تک‘‘۔ (مفہوم آیات:32 تا 35)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ''وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا‘‘۔ (کنز العمال) متکبر شخص جب تکبر کرے گا تو وہ اپنا چہرہ موڑ کر دوسروں کو حقیر و ذلیل سمجھ کر ان سے اعراض کرے گا۔ ایسے لوگوں کے لیے قرآنِ مجید کی ایک انتہائی اہم آیت مبارکہ ہے ''اور تُو اپنا رخسار لوگوں سے مت پھیر‘‘۔(سورہ لقمان:18)
متکبر اپنی چال سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ زمین پر اکڑ کر چلتا ہے‘ گویا زمین کو دبا رہا ہو۔ وہ لوگوں کے دلوں میں خوف، رعب اور دبدبہ بٹھانے کے لیے محافظوں اور خادموں کو اپنے ساتھ رکھے گا۔ ایسے کینہ پرور نادانوں کے لیے قرآنِ پاک میں حکمِ ربانی ہے ''زمین پر اکڑ تا ہوا مت چل‘ اس لیے کہ تو زمین کو ہر گز پھاڑ نہیں سکتا اور نہ ہی لمبا ہو کر پہاڑوں (کی چوٹی) کو پہنچ سکتا ہے‘‘ (بنی اسرائیل: 37)۔ سنن ابودائود میں روایت ہے کہ ''جو شخص اپنے احترام میں لوگوں کے کھڑا ہونے کو پسند کرے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے‘‘۔ غرور اور تکبر رب تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی کو زیب نہیں دیتا۔ اللہ عز و جل نے کبریائی کو اپنی چادر قرار دیا ہے۔ اللہ ہی اکبر ہے اور اس کا ذکر ہی اکبر ہے۔ انسان کتنا نادان ہے کہ تھوڑی سی دولت و شہرت، معمولی سا اختیار اور اقتدار ملنے پر اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگتا اور تکبر کرنے لگتا ہے۔ انسان کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کبریائی اللہ تعالیٰ ہی کی شان ہے۔ تکبر اورعظمت صرف اسی ایک ذات کو زیبا ہے جو تمام عیوب سے پاک ہے اور جو قادرِ مطلق ہے‘ باقی سب مخلوقات اس کی دست نگر اور محتاج ہیں۔
جن چیزوں کی وجہ سے انسان فخر اور بڑائی کرتا ہے‘ وہ سب عارضی اور کھو جانے والی ہیں۔ جب انسان کے دنیا سے کوچ کا وقت آتا ہے تو یہ چیزیں اس کے کسی کام نہیں آتیں۔ متکبر انسان خسارے کا سودا کرتا ہے۔ خود کو دنیا کی فانی زندگی کی عارضی خوشیوں اور خواہشوں میں ضائع کر دیتا ہے۔ فرعون کو شان و شوکت اور جاہ و حشمت موت سے بچا نہ سکی۔وہ جو خدائی کا دعویدار تھا‘ دریا برد ہوا اور اس کی لاش کو روزِ حشر تک نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ نمرود اور شداد جیسے لوگ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تو ان کے نشان تک مٹ گئے۔ قیصرِ روم کی شان و شوکت اور تکبر و برتری خاک ہو گئی۔ بڑے بڑے عہدوں پر متمکن رہنے والے معروف لوگ اپنی اولاد، مال اور جائیداد کے ہوتے ہوئے ہسپتال کے سرد و بے رحم بستر پر بے یار و مددگار پڑے دیکھے گئے۔ ان کے اپنے ہی ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ صحت نے ساتھ دیا نہ خاندانی نام اور مرتبہ کسی کام آیا۔ بے تحاشا دولت کسی متکبر کو موت کی سختی سے نہ بچا سکی۔
اخلاقی برائیوں میں سب سے بڑی برائی تکبر ہے۔ اس کی علامات کو خود میں تلاش کرنا اور صدقِ دل سے اپنا محاسبہ کرنا ضروری ہے۔ تکبر کا علاج تواضع اور عاجزی ہے۔ نبی آخر الزماںﷺ کا فرمان ہے ''قیامت کے دن متکبرین کو چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا۔ ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی۔ انہیں جہنم کے بولس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گی۔ انہیں جہنمیوں کی پیپ ''طینتہ النجال‘‘ پلائی جائے گی‘‘ (سنن ترمذی)
تمام انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ آدم مٹی سے بنے تھے۔ مٹی کی خصلت میں خاکساری ہے، تکبر اور غرور نہیں۔ یاد رکھیے کہ ہمیشہ جھکنے والوں نے رفعتیں پائی ہیں۔ عقل و شعور رکھنے والا کوئی بھی شخص تکبر کا مرتکب ہو کر جان بوجھ کر خسارے کا سودا نہیں کرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں