والدین پڑھے لکھے ہوں یا اَن پڑھ، معاشی طور پر مستحکم ہوں یا مالی تنگ دستی کا شکار ، شہروں میں آباد ہوں یا کسی دیہات میں رہنے والے، وہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنے بچوں کو زندگی کی بہترین سہولتیں فراہم کرنے کی خاطر اپنا تن، من ،دھن وار دیتے ہیں۔ اپنی جوانی کی تمام تر رعنائیاں، شباب رت کے گلاب لمحے اور اپنی ساری توانائیاں وہ اپنی اولاد کے نام کر دیتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور سب وسائل اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی نذر کرتے ہیں۔ باپ فکرِ معاش میں وقت سے پہلے بوڑھا ہو جاتا ہے۔ کارِ جہاں کے صبر آزما روز و شب اس کے عزمِ صمیم اور جذبۂ استقلال میں کوئی رخنہ نہیں ڈال پاتے اور نہ ہی اس کی اپنی اولاد کے لیے بے پناہ محبت میں کسی قسم کی کمی کا سبب بنتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کی خوشی کے لیے زمانے بھر کے دکھوں کو اپنے سینے سے لگا لیتا ہے اور شام کو دن بھر کی تھکاوٹ کے باوجود ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے گھر کے آنگن میں لوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح ماں امورِ خانہ داری کی انجام دہی میں دن رات ایک کیے رکھتی ہے۔ اپنی تھکاوٹ کی فکر اور آرام کا خیال کیے بغیر وہ رات کو سب سے آخر میں اپنے بستر پر آرام کے لیے لیٹتی ہے اور صبحِ کاذب کے وقت‘ سب سے پہلے اٹھ کر ایک نئے دن کا آغاز کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں باپ کے بے پناہ احسانات اور بے حساب قربانیوں کا بدلہ اولاد نہیں چکا سکتی اور نہ ہی ان کا قرض اتارا جا سکتا ہے۔
ہمارے والدِ گرامی محض اکیاون برس کی عمر میں حکمِ ربی پر لبیک کہتے ہوئے منوں مٹی تلے جا کر سو گئے تو ہماری والدہ اس وقت صرف پینتیس سال کی تھیں۔ ہم سات بھائی لڑکپن میں ہی یتیم ہو گئے۔ سب سے چھوٹے بھائی کی عمر اس وقت محض چھ ماہ تھی۔ ہماری والدہ نے ہمیں بہترین تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرنے اور اپنے مرحوم شوہر کے تمام خواب پورے کرنے کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں۔ انہوں نے ہمیں ماں کی خالص اور سچی محبت تو دی ہی ساتھ ہی ساتھ باپ کی شفقت بھی عطا کی۔انہوں نے حتی المقدور کوشش کی کہ وہ کسی لمحے میں بھی ہمیں اپنے والد کی کمی محسوس نہ ہونے دیں۔ وہ ہر وقت بارگاہِ الٰہی میں دستِ دعا بلند رکھتیں اور مسلسل عبادت میں مصروف نظر آتیں۔ انہیں روزہ ٔ رسولﷺ پر حاضری کا بے پناہ شوق تھا جس کا اظہار وہ کبھی کبھی میرے ساتھ فرمایا کرتی تھیں۔ لہٰذا میں نے زمانہ طالب علمی میں اپنے دل میں ایک آرزو آباد کر لی اور اپنی ذات سے ایک خفیہ وعدہ کر لیا کہ جیسے ہی ملازمت کے بعد معاشی آسودگی میسر ہوگی تو میں اپنی والدہ محترمہ کو حرمین شریفین عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے اپنے ساتھ لے کر جائوں گا اور شہرِ نبی میں حاضری اور بیت اللہ کی زیارت سے مشرف کرائوں گا۔ مگر حالات نے حیرت انگیز طور پر ایک ڈرامائی صورتِ حال اختیار کر لی۔
میں سول سروسز اکیڈمی اور محکمانہ ٹریننگ سے فراغت کے بعد لاہور میں چند ماہ تعینات رہنے کے بعد ڈیپوٹیشن پر پنجاب حکومت کے ماتحت آگیا اور میری خدمات ضلعی حکومت گجرات کے سپرد کر دی گئیں۔ اس کے فوراً بعد شادی کا مرحلہ آن پہنچا اور میں نے اپنی ذات سے کیا جانے والا وعدہ پورا کرنے کا مکمل ارادہ باندھ لیا ۔میں نے غیر اعلانیہ طور پر والدہ محترمہ کے ساتھ عمرہ کے لیے سفرِ حجاز کی تیاری شروع کر لی۔ مگر وقت کے پراسرار دامن میں اَن گنت پوشیدہ راز ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی لمحہ آپ کو سرپرائز دے سکتے ہیں۔
نومبر2004ء میں شادی کی جملہ رسومات سے فراغت کے فوراً بعد لاہور کے ایک معروف ڈاکٹر سے والدہ محترمہ کے تمام ٹیسٹ کروائے تا کہ اس کے بعد وہ میرے ساتھ گجرات شفٹ ہو جائیں جہاں سے ہم نے عمرہ کے لیے عازمِ سفر ہوناتھا۔ مگر والدہ کی ٹیسٹ رپورٹس آنے کے بعد دوست ڈاکٹر کی طرف سے کی جانے والی ٹیلی فون کال نے میرے سارے ارادوں پر پانی پھیر دیا۔ انہوں نے فوری طور پر مجھے اپنے کلینک پر پہنچنے کا کہا اور بتایا کہ امی جان کے گردے فیل ہو چکے تھے اور انہیں فوراً ڈائلیسز کی ضرورت ہے۔ حالات کی سنگینی بھانپتے ہوئے اس نے میرے جانے سے پہلے ہی شیخ زید ہسپتال کے ایک معروف ڈاکٹر سے والدہ محترمہ کے ممکنہ علاج معالجے اور ہسپتال میں داخلے کے لیے بات چیت کر لی تھی۔ بلا شبہ یہ خبر ہمارے سارے خاندان کے لیے ایک بہت بڑا ذہنی صدمہ تھی۔ اسی شام ہم والدہ کو لے کر شیخ زید ہسپتال پہنچے جہاں گردہ وارڈ میں وہ چند روز داخل رہیں۔ وہاں پہلے دو دنوں میں وہ دو مرتبہ ڈائیلسز کے تکلیف دہ عمل سے گزریں۔ اس کے بعد ہر ہفتے تواتر کے ساتھ دو مرتبہ اس عذاب سے گزرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔ کئی ڈاکٹرز سے مشاورت کی گئی اور طے کیا گیا کہ لاہور کے ایک ہسپتال سے کڈنی ٹرانسپلانٹ کرایا جائے۔ سرجن سے معاملات طے کرنے کے بعد وہاں والدہ کو ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا اور 2005ء کے وسط میں ٹرانسپلانٹ سرجری ہوئی۔ ہمیں آپریشن کی کامیابی کی خوشخبری سنائی گئی مگر محض چند دن ابتدائی بھاری مقدار میں دوائیوں کے سہارے چلنے والا نیا گردہ بھی بے بس دکھائی دیا۔ دراصل سرجن نے ٹشو ٹائپنگ اور کراس میچنگ میں غفلت سے کام لیا اور جلد بازی میں سرجری کر ڈالی تھی۔ چند روز بعد ہمیں بتادیا گیا کہ پیوند کیا گیا گردہ ریجکٹ ہو چکا تھا اور امی جان دوبارہ ڈائیلسز کے عذاب میں مبتلا ہو گئیں۔ مزید برآں پیوند شدہ گردے میں انفیکشن کا عمل تیزی سے بڑھنے لگا جسے آپریشن کے ذریعے نکالنا لازم تھا۔ چند ماہ کے انتظار کے بعد میو ہسپتال لاہور میں سرجری کے ذریعے اسے نکال باہر کیا گیا اور والدہ بے پناہ اذیتوں میں مبتلا رہیں۔ اب دوبارہ کڈنی ٹرانسپلانٹ کے لیے مشاورت شروع ہوئی تو تمام معروف سرجنز اس بات پر متفق نظر آئے کہ ایک مرتبہ گردہ ریجیکٹ ہونے کے بعد اگلی مرتبہ کامیابی کے امکانات دس بیس فیصد سے زیادہ نہ ہوتے ہیں۔ نیز اس سرجری کے لیے جسمانی طور پر مستحکم ہونا بھی لازم تھا۔
اس پریشان کن صورتحال کے باعث میں ایک عجیب ذہنی تنائو کا شکار ہو گیا۔ ایک طرف والدہ کی بگڑتی ہوئی صحت تھی تو دوسری طرف میرا اپنی ذات سے کیا گیا وہ خفیہ وعدہ تھا جس کا وفا ہونا بہر صورت لازم تھا۔ لہٰذا میں نے چند قریبی ڈاکٹرز سے والدہ محترمہ کے ساتھ سفرِ حجاز کے بابت مشورہ کیا تو سب نے مجھے سختی سے منع کر دیا کہ ان کی صحت اس سفر اور اس کیساتھ جڑی دیگر تکالیف کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ڈائیلسز کے باعث ان کے بلڈ پریشر اور شوگر کا اچانک اوپر نیچے ہو جانا معمول کی بات تھی؛ چنانچہ تمام ڈاکٹرز نے مجھے یہ رسک لینے سے روک دیا۔ مجھے اس بات کا پورا یقین تھا کہ بھائیوں کے ساتھ مشاورت بے سود ہے اور انہوں نے والدہ کی خرابیِٔ صحت کے باعث عمرہ کی ادائیگی والے میرے جذباتی فیصلے سے ہر گز اتفاق نہیں کرنا۔ ایسے پیچیدہ فیصلوں میں ہمیشہ سے سیف انور بھائی کو اعتماد میں لیا کرتا تھا مگر اس عمل میں مجھے ان کی تائید حاصل کرنا دشوار ہی نہیں‘ ناممکن دکھائی دیا۔ سب کی والدہ کے ساتھ عقیدت اور والہانہ محبت کا مجھے بخوبی اندازہ تھا۔ لہٰذا میں نے اپنا منصوبہ کلی طور پر خفیہ رکھنے پر ہی اکتفا کیا اور اسی میں حکمت کے نئے پہلو تلاش کرنا شروع کر دیے۔ (جاری)