باپ کا قرض

آج کل سوشل میڈیا پر دو وِڈیو کلپس وائرل ہیں۔ پہلے کلپ میں ایک بدنصیب بیٹا اپنے حقیقی بوڑھے باریش باپ سے گستاخانہ اور اخلاق باختہ گفتگو کرتے سنائی دیتا ہے، اچانک معاملہ گفتگو سے بڑھ جاتا ہے اور وہ دست درازی تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کی بدکلامی اور گالم گلوچ سے لبریز حملوں میں بار بار زمین اور جائیداد کا ذکر واضح ہے جسے یقینا وہ وقت سے پہلے اور اپنے حصے سے زیادہ ہتھیانا چاہتا ہے۔ وہ بضد ہے کہ وہ ہر صورت اپنے باپ سے اپنی مرضی منوا کر رہے گا۔ جیسے ہی وہ اپنے بوڑھے باپ پر حملہ آور ہوتا ہے تو ایک عورت فوراً اس کے سامنے چٹان بن کر کھڑی ہو جاتی ہے جو اس گستاخ کی بہن اور اس کم نصیب بزرگ کی بیٹی معلوم ہوتی ہے۔ یہاں ایک بیٹی اپنے ظالم بھائی کے ظلم و ستم سے اپنے باپ کو بچاتی نظر آتی ہے اور وہ واضح فرق مزید نمایاں ہو جاتا ہے جو ایک بیٹے اور بیٹی میں خالقِ دو جہاں نے ودیعت کر رکھا ہے۔ سیانوں کا کہنا ہے کہ بیٹے اپنے ہی باپ کے پہلے ''شریک‘‘ ہوتے ہیں اور ان کی نظر ہمیشہ بطور وارث باپ کی زمین، جائیداد، بینک بیلنس اور دیگر مادی اشیا اور وسائل پر ٹکی رہتی ہے جبکہ بیٹی کی اپنے باپ سے محبت بے لوث اور اخلاص پر مبنی ہوتی ہے اور عمومی طور پر وہ تادمِ حیات اپنے والدین کی خدمت، فرمانبرداری اور محبت کو اپنے لیے باعثِ سعادت و افتخار سمجھتی ہے۔ دوسری طرف حالات اور معاشرتی قدروں کا المیہ دیکھیں کہ آج بھی اکثریت میں بیٹی کی پیدائش پر باقاعدہ سوگ کا سماں برپا ہو جاتا ہے اور بیٹی پیدا کرنے والی ماں کو طعنے سنانے کے ساتھ ساتھ باعثِ نحوست بھی گردانا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے جبکہ بیٹے کی ولادت پر خوب جشن منایا جاتا ہے۔ اولادِ نرینہ کی خواہش اور اس کی تکمیل کے لیے لوگ کیا کچھ نہیں کر گزرتے۔ مساجد میں دعائوں سے پیروں، فقیروں کی صدائوں تک‘ ہر جگہ بیٹے کی پیدائش کا ذکر نمایاں ہوتا ہے۔ بیٹے کی حسرت کی آڑ میں عقدِ ثانی کی راہ تک ہموار کر لی جاتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے کلیدی کردار اس شوہرِ نامدار کی ماں اور بہنوں کا ہوتا ہے جو عورت ہونے کے باوجود اولادِ نرینہ کی خواہش میں ایک نئی بہو یا بھابھی کی تلاش شروع کر دیتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے چند بڑے منافقانہ رویوں اور کھلے تضادات میں سے یہ ایک بہت بڑا اور سنگین نوعیت کا تضاد ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم یہاں تک کیسے پہنچے ؟ ہمارے نوجوانوں میں گستاخانہ رویے اور اخلاق سے عاری گفتگو کے محرکات اور اسباب کیا ہیں۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا اور بولا جا چکا ہے۔ دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ مال و زر کی حرص و ہوس بھی ہماری زندگی کا سب سے بڑا سچ اور سب سے بڑی معاشرتی حقیقت بن چکی ہے۔ اس سارے قضیے میں ہمارے تعلیمی نظام کا کردار مرکزی حیثیت کا ہے جہاں محض زیادہ سے زیادہ نمبر لینے کی دوڑ لگ چکی ہے، گریڈز اور سی جی پی اے کی اس ریس میں اخلاقیات، انسانی شخصیت کی تشکیل اور ذاتی کردار کی تعمیر و اصلاح پر کوئی توجہ ہے اور نہ ہی وہ ہماری تعلیمی ترجیحات میں کہیں شامل ہیں۔ کسی بھی ادارے یا جماعت کا رزلٹ آنے پر والدین ایک دوسرے سے بچوں کے حاصل کردہ مارکس، گریڈز اور جی پی اے ہی کا پوچھتے نظر آتے ہیں۔ نوٹس، رَٹا بازی، ٹیوشن، اکیڈمی اور گائیڈز‘ سب کے سب نمبروں کی دوڑ میں سبقت لے جانے کے لیے کوشاں ہیں۔ بچوں کو صرف اور صرف زیادہ نمبر چاہئیں اور یہی تعلیمی اداروں کی عظمت کا معیار بنا دیا گیا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو ایک کامیاب پروفیشنل تو بنانا چاہتے ہیں مگر انہیں ایک اچھا اور مفید انسان بنانا ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔
دوسری وِڈیو جو آج کل خوب وائرل ہے وہ ہے جاپان کے ایک سکول کے کلاس روم میں دکھائی جانے والی ایسی وڈیو‘ جس میں میں لوگوں کو مشکل ترین کام کرتے دکھایا گیا ہے کہ کس طرح وہ اپنی جان جو کھوں میں ڈال کر اپنے بچوں کیلئے سامانِ رزق اکٹھا کرتے ہیں اور اپنے اہل و عیال کی معاشی آسودگی کو یقینی بناتے ہیں۔ اس وِڈیو کو دیکھنے کے دوران کلاس میں موجود سب بچے اور بچیاں زار و قطار رونا شروع کر دیتے ہیں۔ ان محنت کشوں، مزدوروں، فیکٹری ورکرز، خراب موسم کے باوجود پتھر کوٹتے، مشکلات سے لڑتے اور اپنا خون پسینہ ایک کرتے اُن عظیم لوگوں میں وہ بچے اپنے اپنے والد کو تلاش کرنے لگتے ہیں لہٰذا ان کی آنکھوں سے برسات شروع ہو جاتا ہے۔ یہ وڈیو کلپ دراصل بچوں میں اُن کے والد کا مقام او ر احترام اجاگر کرنے کے لیے تیار کیا گیا اور یہ جاپان کے نظامِ تعلیم کا خاصہ ہے، جس میں اخلاقیات کا فروغ اور کردار کی تعمیر و تشکیل کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ وہاں امتحانات، پوزیشنز، گریڈز، مارکس اور دوسروں سے محض زیادہ نمبر لینے ہی کو معیارِ تعلیم کی واحد اکائی نہیں بنایا گیا۔ یہی بچے بڑے ہو کر اپنے پختہ کردار کی بدولت نہ صرف مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صلاحیتوں کو دیانتداری سے بروئے کار لا کر ایک کامیاب پروفیشنل کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں بلکہ اعلیٰ اخلاقی قدروں کے امین بن کر اپنے ملک و قوم کا وقار اقوامِ عالم میں مزید بلند کرتے ہیں۔ اس کا ایک عملی مظاہرہ جاپان کی فٹبال ٹیم اور جاپانی تماشائیوں نے قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ میں بھی کیا تھا۔
مذکورہ دو وِڈیو کلپس دو مختلف معاشروں کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔ کہنے کو پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے مگر ہمارے رویوں، ہمارے کردار اور ہماری ترجیحات میں اسلام اور اسلامی تعلیمات کہیں نظر نہیں آتیں۔ آج بھی ہم اگر اپنے نظامِ تعلیم کی اساس میں اسلامی اقدار اور نبی آخر الزماںﷺ کے اسوۂ کامل کو مرکزی مقام دیں تو ہماری نوجوان نسل اخلاق کے اعلیٰ معیار قائم کر سکتی ہے جس میں والدین سے حسنِ سلوک اور ان کے احترام کو فوقیت حاصل ہے۔ مستند روایات میں مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ میرے والد نے میرا سب مال لے لیا ہے۔ نبی کریمﷺ نے اس کے والد کو بلایا، اسی دوران جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کی کہ جب اس کا والد آئے تو اُس سے پوچھیں کہ وہ کلمات کیا ہیں جو اس نے دل میں کہے اور اُس کے کانوں نے بھی ان کو نہیں سنا۔ جب وہ نوجوان اپنے والد کو لے کر آیا تو نبی کریمﷺ نے پوچھا: آپ کا بیٹا آپ کی شکایت کرتا ہے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کا مال چھین لیں؟ والد نے عرض کی کہ اس سے پوچھیں کہ میں اس کی پھوپھی، خالہ یا اپنے نفس کے سوا کہیں خرچ کرتا ہوں؟ پس حقیقت معلوم ہو گئی، اس کے بعد آپﷺ نے اس کے والد سے دریافت فرمایا کہ وہ کلمات کیا ہیں جو تم نے اپنے دل میں کہے اور تمہارے کانوں نے بھی نہیں سنا؟ اس شخص نے کہا کہ میں نے چند اشعار دل میں پڑھے تھے (مفہوم) ''میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور جوان ہونے کے بعد تمہاری ہر ذمہ داری اٹھائی، تمہارا سب کچھ میری کمائی سے تھا۔ جب کسی رات تمہیں کوئی بیماری پیش آگئی تو میں نے رات نہ گزاری مگر سخت بیداری اور بیقراری کے عالم میں۔ ایسے جیسے بیماری تمہیں نہیں‘ مجھے لگی ہے جس کی وجہ سے تمام شب روتے ہوئے گزار دیتا۔ میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، اس کے باوجود کہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔ جب تو اِس عمر کو پہنچ گیا تو پھر تم نے میرا بدلہ سخت روئی اور سخت گوئی بنا لیا، گویا کہ تم ہی مجھ پر احسان و انعام کر رہے ہو۔ اگر تم سے میرا حق ادا نہیں ہو سکتا تو کم از کم اتنا ہی کر لیتے جیسا ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے۔ تو نے مجھے کم از کم پڑوسی کا حق ہی دیا ہوتا۔ میرے ہی مال میں مجھ سے بخل سے کام نہ لیا ہوتا‘‘۔ نبی کریمﷺ نے جب یہ اشعار سنے تو آنکھوں سے موتی گرنے لگے۔ پھر اس کے بیٹے سے فرمایا کہ تُو اور تیرا مال‘ سب تیرے باپ کا ہے۔ (معارف القرآن بحوالہ تفسیر قرطبی)
اگر ایسے ایمان افروز واقعات پر مبنی تعلیمات اور اسوۂ کامل کی اتباع کو یقینی بنانے کے لیے ہم اپنا نظامِ تعلیم اخلاقی اقدار اور اسلامی شعائر کی مضبوط بنیادوں پر تشکیل دیں تو ہماری نوجوان نسل نہ صرف اپنے والدین کا مکمل احترام کرے گی بلکہ اپنے باپ کی طرف سے دی گئی بے پناہ قربانیوں کا قرض ایک مقدس فریضہ سمجھ کر چکائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں