جمہوریت کے حسن کے کیسے کیسے جلوے آشکار ہو رہے ہیں۔ چہروں کی تبدیلی کے ساتھ وہی حالاتِ پریشاں‘ وہی عذر‘ وہی ڈھکوسلے۔ یوں لگتا ہے کہ مملکتِ خداداد پر شوقِ حکمرانی کے جوہر دکھانے والوں کے ادوار ایک دوسرے کا ایکشن ری پلے ہیں۔ چھ مرتبہ وزارتِ اعلیٰ اور چوتھی بار وزارتِ عظمیٰ انجوائے کرنے والا خاندان بھی اگر یہ عذر اختیار کرے کہ حلف اٹھاتے وقت معیشت کی تباہی کا اندازہ نہیں تھا تو عوام سر پیٹیں یا بال نوچیں؟ وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر عوام کو ہوش دلانے کی کوشش کی ہے لیکن عوام پر وہ بیہوشی طاری ہے جو مسلسل اوقات یاد دلانے اور بد سے بدترین حالات سے دوچارکرنے کے باوجود ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ اسی طرح عمران خان برسر اقتدار آنے سے پہلے عوام کو تواتر سے بتاتے رہے ہیں کہ معاشی ماہرین کی ٹیم مصروفِ عمل ہے۔ اقتدار ملتے ہی اقتصادی اصلاحات اور معاشی اقدامات کی بدولت عام آدمی کے دن بدل جائیں گے‘ امن کا دور دورہ ہوگا‘ قانون کی حکمرانی اور سماجی انصاف طرزِ حکمرانی ہوگا‘ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن برسر اقتدار آنے کے بعد عمران خان نے سابقہ ادوار کی بدترین طرزِ حکمرانی کے سبھی ریکارڈ توڑ ڈالے۔ ان کا بھی وہی عذر تھا‘ وہی ڈھکوسلا تھا کہ اقتدار سنبھالتے وقت انہیں صورتحال کی خرابی کا اندازہ نہیں تھا۔ شوقِ اقتدار کے مارے اقتدار سے بھی چمٹے رہتے ہیں اور اپنی ناکامیوں اور نالائقیوں کے باوجود گمراہ کن اعداد و شمار کے ساتھ الفاظ کا گورکھ دھندا بھی جاری رکھتے ہیں۔
دیوالیہ پن کے خطرات سے دوچار ملک کو اور کہاں پہنچانا ہے؟سچ پوچھیں تو عوام تو کب کے دیوالیہ ہو چکے۔ ان کی ضروریات آمدن کے آگے دیو ہیکل پہاڑ دکھائی دیتی ہیں۔ روزمرہ معاملات اور مسائل کے آگے عوام بونے ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ان کے طرزِ حکمرانی کے مارے عوام کا رنگ کہیں پیلا اور کہیں نیلا دکھائی دیتا ہے۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہو چلا ہے تو کہیں قیمتوں کا بھڑکتا الاؤ عوام کو بھسم کرنے کے درپے ہے۔ چیخ و پکار اور افراتفری کا عالم یہ ہے کہ دو وقت کی روٹی خواب بنتی چلی جارہی ہے۔ ڈالر کو لگی آگ نے روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کو اپنے شعلوں کی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کوئی علاج کے لیے مارا مارا پھر رہا ہے تو کوئی سود پر قرضہ لینے پر مجبور ہے۔ کوئی عزتِ نفس پر سمجھوتا کررہا ہے تو کوئی خودی بیچ رہا ہے۔ یہ کیسا طرزِ حکمرانی ہے۔ نہ ہسپتالوں میں شفا ہے‘ نہ تھانوں میں داد رسی‘ نہ جان و مال محفوظ۔ بجلی اور گیس کے بل دیکھ کر عوام بلبلا اُٹھتے ہیں۔ بچوں کی معیاری تعلیم نہ پوری ہونے والی حسرت بنی رہے۔ اصلاحات عوام کے چولھے گرم کرنے کے قابل نہ ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ چار سو حشر کا سماں ہے۔ نمائشی اور جعلی گورننس پر قائم یہ نظام بس پھٹنے کو ہے۔ ایٹمی طاقت بنانے کا کریڈٹ لینے والے حکمران کبھی پلٹ کر تو دیکھیں کہ 26برس پہلے بھی حکمرانی انہی کی تھی۔ آٹے کا بحران بھی اسی طرح شدید تھا۔ سرکاری نرخوں پر آٹا خریدنے والوں کی قطاریں صبح و شام لگا کرتی تھیں۔ اکثریت نامراد اور خالی ہاتھ لوٹا کرتی تھی اور پھر بھی فرماتے ہیں کہ عوام پریشان نہ ہوں‘ مشکلات سے نکالیں گے۔ آفرین ہے۔ حضورِ والا ! آپ کچھ اور تو عوام کو دے نہیں سکتے تو کم از کم پریشان ہونے کا حق تو نہ چھینیں۔ انہیں رونے اور سر پیٹنے کی اجازت تو دیں کہ آپ انہیں اس سے بڑھ کر اورکچھ دے بھی نہیں سکتے۔ پیراسیٹامول جیسی بنیادی دوا جس ملک میں ناپید ہو وہاں جان بچانے والی ادویات سمیت علاج معالجہ کی دیگر سہولیات کا کیا حال ہوگا۔ یوں لگتا ہے کہ عوام کو مسلسل مرگِ نو کا سامنا ہے۔ دور کوئی بھی ہو‘ حکمرانی کسی کی بھی ہو‘ مرنا اور لٹنا عوام ہی کامقدر ٹھہرتا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں کوئی ایسا نظر نہیں آتا کہ انگلی اٹھا کر جس کی شہادت دی جا سکے کہ اس نے حکمرانی کا حق ادا کیا‘ عوام کے چولہے گرم اور دو وقت کی روٹی یقینی بنائی ہو۔ حالت یہ ہے کہ پاؤں ڈھکتے ہیں تو سر ننگا ہو جاتا ہے۔ سر ڈھانپتے ہیں تو پاؤں ننگے نظر آتے ہیں۔ شریف برادران ہوں یا چودھری برادران‘ بھٹواور زرداری ہوں یا مشرف یا عمران خان۔ درآمدی وزرائے اعظم معین قریشی اور شوکت عزیزسے لے کر آج تک‘ سبھی کی حکمرانی عوام بھگتتے چلے آرہے ہیں۔ کون‘ کیسے‘ کہاں سے اور کیا مقصد لے کر آیا۔ سبھی بھید بھاؤ کھل چکے ہیں۔ ایسے میں کون سا میرٹ اور کیسی گورننس؟ سب اپنی اپنی باریوں پر آتے جاتے رہیں گے اور عوام ہر دور میں دربدر اور ٹھکرائے جاتے رہیں گے۔ نہ جانے کیوں ہر دور میں ووٹ کی سیاہی عوام کے منہ کی کالک کیوں بن جاتی ہے؟
یہ سیاہ بختی اور تاریکی سالہا سال سے عوام کا مقدر کیوں بنتے چلے جا رہے ہیں؟ سبھی حقیقتیں آشکار اور چہرے بے نقاب ہونے کے باوجود یہ سیاسی رہنما کیسے اترائے پھرتے ہیں۔ جزا اور سزا کو بے معنی کرنے والوں نے صادق و امین کے معانی کب نہیں الٹائے؟ جمہوریت کے حُسن نے عوام کا مستقبل گہنانے کے علاوہ بربادیوں اور بدحالیوں کی کیسی کیسی داستان رقم کر ڈالی ہے۔ جس کے اثراتِ بد نجانے کتنی نسلیں بھگتیں گی۔ یہ سبھی اپوزیشن میں ہوں تو ان کے پاس جادو کی چھڑی ہوتی ہے کہ بس کسی طرح اقتدار میں آجائیں تو ان کی اقتصادی اصلاحات ہوں یامعاشی اقدامات‘ سبھی ملک و قوم کے دن پھیر ڈالیں گے۔ ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ ہوگا لیکن اقتدار میں آتے ہی انہیں پتا چلتا ہے کہ معیشت تباہ اور ملک دیوالیہ ہونے جارہا ہے وہ تو خیر ہوئی کہ یہ برسراقتدار آگئے۔ اب یہی نجات دہندہ بن کر ملک کو سبھی بحرانوں سے نکال کردودھ کی نہریں بھی نکالیں گے۔ پون صدی بیت چکی لیکن یہ باریاں اور آنیاں جانیاں جاری ہیں۔ عوام کی حالتِ زار ہو یا حالات کا رونادھونا‘ دونوں ہی ماتم بنتے چلے جارہے ہیں۔
ہنرمندانِ ریاست و سیاست اس تماشے کو کب تک دہرائیں گے اور کتنے تجربات ابھی باقی ہیں؟ کوڑھ کی کاشت کب تک جاری رہے گی؟ ماضی کی فصل کاٹنے والی نسلوں کے مستقبل کب تک برباد ہوتے رہیں گے۔ ماضی کے سبھی انتخابات کے نتائج کے بعد اب کون سا نتیجہ باقی ہے؟ کیا انتخابات در پیش چیلنجز کا حل ثابت ہو سکیں گے؟ انتخابی نتائج پر جانبداری اور دھاندلی کے الزامات نہیں لگیں گے؟ جیتنے والے جمہوریت کی فتح کا جشن اور ہارنے والے سڑکوں پر واویلا نہیں کریں گے؟ سیاسی منظر نامہ مزید متشدد نہیں ہوگا۔ اختلافِ رائے عناد اور بغض سے ہوتا ہوا ذاتی دشمنیوں میں تبدیل نہیں ہوگا۔ لانگ مارچ اور دھرنوں کی روایت کا خاتمہ ہوجائے گا؟ غیر مؤثر اور بے معانی پارلیمنٹ کو کھویا ہوا مقام واپس مل سکے گا؟ بہار بھلے نہ آئے‘ کیا خزاں واپس چلی جائے گی؟انتخابی نتائج پر نئے الیکشن کا مطالبہ ہوگا تو ایسے انتخابات کس کام کے؟ ان سیاستدانوں کا منشور فقط اقتدار ہے۔ انہیں ملک و قوم کے مسائل سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی کوئی سروکار۔ بوئے سلطانی کے ماروں نے خواص کا ضمیر اور عوام کی مت ہی مار ڈالی ہے۔ یہ جمہوریت کا حسن ہے یا جمہوریت کا کوئی انتقام ہے؟ اگر حسن ہے تو عوام اس کے جلووں کی مزید تاب لانے کے قابل نہیں رہے اور اگر کوئی انتقام ہے تو کم از کم عوام کو وہ جرم ہی بتا دیا جائے کہ جس کی پاداش میں یہ نا ختم ہونے والا انتقام نسل در نسل لیا جارہا ہے۔ انتخابات کا مطالبہ کرنے والے جمہوری چیمپینز بھی ان سوالات کے آگے لاجواب اور کونے جھانکتے نظر آتے ہیں۔