سالِ نو کا دوسرا سورج طلوع ہو چکا ہے۔نمائشی معافیوں اور معذرتوں پر مبنی جذبات سال بھر سوئے رہتے ہیں مگر جونہی سال کے چند دن باقی رہ جاتے ہیں تو ستائشِ باہمی اور منافقت سے بھرے سوشل میڈیا پر کیسے کیسے نمائشی مناظر دیکھنے کو پھر ملتے ہیں۔کوئی شاعرانہ معافی طلب کرتا نظر آتا ہے تو کوئی یہ پوسٹ لگا کر معافی طلب کرتا نظر آتا ہے کہ اگر کسی کو میری ذات سے کوئی تکلیف پہنچی یا زبان سے دل آزاری ہوئی تو میں معذرت خواہ ہوں۔ایسی معافیاں صرف ریٹنگ اور سوشل میڈیا پر متحرک رہنے کے لیے لگائی جاتی ہیں۔نہ کوئی معافی مانگنا چاہتا ہے نہ کسی میں اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ وہ روٹھے ہوئے عزیزوں اور دوست احباب کو منانے کے لیے اپنی ذات کی نفی کو تیار ہو۔معافیوں اور معذرتوں کی ستائشِ باہمی کا مظاہرہ بھی انہی احباب اور عزیزوں سے کیا جاتا ہے جو پہلے سے راضی اور رابطے میں ہوتے ہیں جبکہ ناراض رشتہ داروں اور دوست احباب سے رابطہ کرنااَنا کی توہین سمجھا جاتا ہے۔اپنی اپنی اناؤں اور خطاؤں میں گم سبھی نفسا نفسی اور دنیا کے دھندوں اور جھمیلوں میں اس قدر مگن ہیں کہ پروا ہی نہیں کہ ان کی زبان یا عمل سے کس کو کیا نقصان اور تکلیف پہنچی ہے۔
اسی طرح وزارتوں اور محکموں کی طرف سے ہر سال کے اختتام پر نامعلوم کارکردگی اوران اہداف پر مبنی اعداد وشمار کا گورکھ دھندا جاری ہے جو کبھی حاصل ہی نہیں ہوئے۔ہر محکمہ نقارہ بجاتا نظر آتا ہے کہ اس نے اس سال وہ کردکھایا جو گزشتہ برسوں میں کبھی نہ ہوا تھا۔ یہ دعوے اور بڑھکیں سرکاری محکموں کی پرانی روایت ہے حالانکہ کارکردگی کی تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی‘ وہ تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہوکر سامنے آجاتی ہے۔یہ کیسی کارکردگی ہے جو سار ا سال کہیں سوئی پڑی رہتی ہے اور سال کے آخری دنوں میں جاگ اٹھتی ہے۔ کارکردگی دکھانے کے لیے کاغذوں کے پلندوں کے ڈھیر لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی اوراس کارکردگی کے نام پر کالے کیے جانے والے صفحے بھی سرکاری فائلوں میں دبے احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ گمراہ کن اعداد وشمار پر مبنی ان کاغذوں کے ڈھیر بھی بخوبی جانتے ہیں کہ شاباش اور توصیفی کلمات اس ستائش کا حق نہیں رکھتے۔ جن اہداف سے مشروط ساری مراعات‘پروٹوکول‘ تام جھام اور ریل پیل سالہاسال سے جاری ہے وہ تو کبھی ہو ہی نہ سکاتو پھر یہ تام جھام اور شاباش کس کھاتے میں؟
جہاں سیاست تجارت اور تجارت سیاست بن جائے وہاں سیاسی و انتظامی اشرافیہ کے ساتھ کاروباری اور صنعتکار طبقہ اگر شامل نہ کیا جائے تو ٹرائیکا مکمل نہیں ہوتا جس میں سبھی ایک دوسرے کے معاون اور سہولت کار بن کر ایک دوسرے کی ضرورتوں کے بینی فشری ہیں۔پون صدی میں سال بدلے‘حکمران بدلے لیکن خاندان اور طرزِ حکمرانی نہیں بدلا۔ سیر پر سوا سیر‘ نہلے پہ دہلااور پہلے سے کہیں زیادہ تباہی اور بربادی کا باعث بننے والے حکمران اپنی ناکامی اور نالائقی اپنے سے پچھلے حکمران پر ڈالتا ہے تو کبھی نازک حالات کا عذر تلاش کرتے ہوئے یہ ڈھکوسلا کرتا نظر آتا ہے کہ اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ برسراقتدار آنے کے بعد اسے ایسے نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بدسے بد تر حالات سے جڑے یہ ماہ و سال یونہی آتے جاتے رہیں گے اور عوام حکمرانوں کی من مانی کی طرزِ حکمرانی کی سزا بھگتتے رہیں گے۔ مسائل و مصائب میں گھرے یہ عوام کے شب وروز ہوں یا ماہ و سال‘ اسی طرح ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے اور دہائیاں دیتے گزرتے رہیں گے۔ ان 75 برس میں عوام لٹتے پٹتے کہاں آن پہنچے ہیں کہ اب تو ان کے پاس لٹانے کو بھی کچھ نہیں بچا۔ پائو صدی پوری ہونے سے قبل ہی آدھا ملک گنوانے والے ہوش کے ناخن لینا تو درکنار تاریخ اورعوامل سے سبق سیکھنے کو بھی تیار نہیں۔ زمینی حقائق اور اسباب سے آنکھیں چرانے والے قوم سے کبھی آنکھ مچولی کھیلتے نظر آتے ہیں تو کبھی چور سپاہی۔
کرتوتوں اور اعمالِ بد کے نتیجہ میں رونما ہونے والے سانحات کو جہاں حادثات ثابت کردیا جاتا ہووہاں صدمات اور المیے قوم کا مقدر کیوں نہ بنیں۔ غیرتِ قومی اور عزتِ نفس ثانوی ہوجائے تو آئین اور ضابطوں سمیت سماجی و اخلاقی قدریں لیرولیر کیوں نہ ہوں؟ جہاں اچھی خبر کی آس میں زندگیاں بیت جائیں‘کئی نسلیں قبروں میں جا سوئیں‘آئے روز بری اور منحوس خبریں اعصاب اور نفسیات کو ریزہ ریزہ کرڈالیں‘حکمرانوں کے فیصلے اور مصاحبین جہاں پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق بن جائیں وہاں کیسی گورننس اور کہاں کا میرٹ۔جھوٹے وعدوں اور جھانسوں سے لے کر کبھی روٹی کپڑا مکان‘ کبھی قرض اُتارو ملک سنوارو‘ تو کبھی سب سے پہلے پاکستان اور کبھی تبدیلی کے سونامی جیسے سنہری خواب دکھا کر عوام کو کب نہیں لوٹا گیا؟ کتنے ہی حکمران بدلے‘ کتنی ہی رُتیں بدلیں لیکن نہیں بدلے تو بے کس اور لاچار عوام کے نصیب نہیں بدلے۔ دورِ حکومت کسی کا بھی ہوعوام کے مسائل اور مصائب جوں کے توں ہیں۔لوٹنے اور کھانے والوں نے عوام کو دکھائے گئے خواب لوٹنے کے علاوہ اس طرح کھایاہے کہ ملکی معیشت کا پیندا ہی چاٹ کھایا۔بغیر پیندے کی اس معیشت میں اب نام نہاداقدامات اور جعلی اصلاحات کے سمندر بھی ڈال دیں تو ایک قطرہ بھی ٹھہرنے والا نہیں۔
گوتم بدھ نے کہا تھا کہ یہ دنیا دکھوں کا گھر ہے۔گوتم بدھ توخلقِ خدا کے دکھوں پر اس قدر دکھی ہوا کہ ترکِ دنیا میں عافیت سمجھی۔شان و شوکت اور ٹھاٹ باٹ کو ٹھوکر مارنے والا یہ شہزادہ مخلوق کے مسائل اور مصائب برداشت نہ کرپایاتو براہ راست دکھوں کے عذاب جھیلنے والی مخلوق پر کیا قیامت ٹوٹتی ہوگی؟اس تناظر میں اکثر یوں لگتا ہے کہ ہمارے سماج سیوک نیتا مملکتِ خداداد میں بسنے والوں کے دکھ اور تکلیف کا احساس کرنے کی بجائے زمانے بھر کے دکھوں کو گھسیٹ کرعوام پر مسلط کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔75سال ضائع ہونے کا ماتم کریں یا آنے والے سالوں میں خوفناک چیلنجز کا؟خارجی محاذ کی بات کریں یا اندرونی انتشار کی؟سیاسی عدم استحکام کا رونا روئیں یا معاشی بدحالی کا؟نفرت اور بغض کے کلچر کی دہائی دیں یا جابجا شخصی عناد کی؟ ماضی کا بین کریں یا مستقبل سے پناہ مانگیں؟کہاں جاکر سر پھوڑیں کہاں سر میں خاک اڑائیں؟انتظامی ڈھانچے کو مفلوج کرنے والے پورے نظام کو اپاہج بنا چکے ہیں۔اب ملک و قوم کو مزید کیادکھانا باقی ہے؟وطنِ عزیز کی اکثریت کی زندگانی اقلیت کی طرزِ حکمرانی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ بس یہی ہے خلاصہ اس مملکت کے باسیوں کی زندگانی کا۔
ہمارے پرکھوں کو کیا خبر تھی!
کہ ان کی نسلیں اداس ہوں گی
ادھیڑ عمری میں مرنے والوں کو کیا پتا تھا!
کہ ان کے لوگوں کی زندگی میں‘
جوان عمری ناپید ہوگی
سمے کو بہنے سے کام ہوگا
بڑھاپا محوِ کلام ہوگا
ہر ایک چہرے میں راز ہوگا
حواسِ خمسہ کی بدحواسی‘
بس ایک وحشت کا ساز ہوگا
زمیں کے اندر آرام گاہوں میں‘
سونے والے مصوروں کو کہاں خبر تھی!
کے بعد ان کے تمام منظر‘ سبھی تصور
ادھورے ہوں گے
دعائیں عمروں کی دینے والوں کو کیا خبر تھی
دراز عمری عذاب ہوگی...