حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی اسی خوش گمانی کا شکار نظر آتے ہیں کہ آج نہیں تو کل مملکتِ خداداد میں بسنے والوں کے حالات بدل جائیں گے۔ حکمران تو ہمیشہ بینی فشری ہی رہے ہیں۔ ان کا اس خود فریبی کا شکار رہنا تو سمجھ میں آتا ہے۔ وہ طولِ اقتدار یا حصولِ اقتدار کے لیے نئے جھانسوں کے ساتھ آئے روز نت نئے جال عوام پر ڈالتے رہتے ہیں اور عوام ان کے ہر جال میں پھنسنے کو تیار بھی رہتے ہیں لیکن قانونِ فطرت کو مسلسل فراموش کرنے والے کس بھول میں ہیں کہ جس طرح ناقص بیج بو کر اچھی فصل نہیں حاصل کی جا سکتی اسی طرح 75سال کی بداعمالیوں اور بدعہدیوں کی قیمت چکائے بغیر ان تباہیوں اور بربادیوں کا خاتمہ کیسے ہو سکتا ہے‘ جن کی پرورش ہر دور میں کئی اضافوں کے ساتھ برابر جاری رہی ہے۔ نیتِ بد سے لے کر اعمالِ بد مملکتِ خداداد کی پون صدی اس طرح کھاتے چلے آئے ہیں کہ وطنِ عزیز کے پلے کچھ بچا ہی نہیں۔ حکمران تو ظاہری و پوشیدہ سبھی حقائق جانتے بوجھتے ان سے آنکھیں چراتے عوام کو گمراہ کرتے رہیں گے۔ اسی طرح اچھے دنوں کے سہانے خواب بیچتے رہیں گے۔ آسوں اور امیدوں کا گلا گھونٹتے رہیں گے۔ ان کی تو مجبوری ٹھہری کہ شوقِ اقتدار کے مارے یہ سبھی جتن اسی لیے کرتے ہیں کہ عوام ان پر اعتبار کرتے رہیں اور وہ عوام کے اعتبار کو اسی طرح تارتار کرتے رہیں۔ عوام نسل در نسل اپنا اعتبار تار تار ہونے کا تماشا خود تماشائی بنے دیکھ رہے ہیں۔
ماضی کے تمام ادوار سے لے کر لمحۂ موجود تک شوقِ حکمرانی پورے کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے سبھی دعوے بے بنیاد اور وعدے جھوٹے ہیں۔ ان کے انتخابی منشور دلفریب جھانسوں کے سوا کچھ نہیں۔ ان کی ترجیحات سے عوام کوسوں دور ہیں۔ اگر نہیں جانتے تو بس عوام ہی نہیں جانتے اور جو تھوڑا بہت جانتے ہیں وہ بھی اس دردناک حقیقت کو جانتے بوجھتے انجان بنے ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ حکمران اور عوام دونوں ہی کسی بھول اور غفلت کا شکار ہیں کہ ملک و قوم کو درپیش سنگین چیلنجز کا دشوار مرحلہ اتنی آسانی سے طے ہو جائے گا‘ ہرگز نہیں۔ زمینی خداؤں کی خدائی میں جزا اور سزا کے عمل کو الٹایا اور ٹالا جا سکتا ہے لیکن قدرت کے آگے ان زمینی خداؤں اور ان کے من پسند قانون اور ضابطوں کی حیثیت ہی کیا ہے۔ حکمرانوں کے انقلابی اقدامات اور اصلاحات کے بھاشن اگر اکٹھے کیے جائیں تو کئی کتابیں مرتب کی جا سکتی ہیں لیکن ان کی نیت اور ارادے زبان و بیان کی حرمت سے ناواقف جو ٹھہرے۔ ریفامز کے دعوے کرنے والے ہر دور میں ڈیفارمز کے ڈھیر لگاتے چلے گئے۔ ملک و قوم کی ترقی کے بجائے ذاتی کاروبار اور اثاثوں کو بڑھانے کا ایسا جنون سوار ہوا کہ ہاتھ کی صفائی کو نصب العین ہی بنا لیا۔ جوں جوں ان کا سرمایہ اور مال و دھن بڑھتا چلا گیا‘ قومی خزانہ گھٹتا چلا گیا۔ جن کا ماضی حال کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ کے علاوہ ملکی و غیر ملکی اثاثوں اور جائیدادوں سے متصادم ہے‘ وہ اس طرح نازاں اور شاداں ہیں کہ ان کے ہاتھ بھی صاف ہیں اور ملکی خزانہ بھی صاف۔
ملک و قوم پر حکمرانی کے مزے لوٹنے والے ہوں یا اس پر مسلط کیے جانے والے اقتصادی سقراط و بقراط‘ سبھی نے مل کر ملک کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ ہر خاص و عام کو یہ تشویش لاحق ہے کہ ہم دیوالیہ ہوسکتے ہیں۔ جس ملک کی اکثریت ہر دور میں دیوالیہ ہوتی چلی جائے‘ بنیادی اشیائے ضروریہ عوام کی قوتِ خرید سے مسلسل باہر ہوں‘ آمدن اخراجات کے مطابق نہ ہو۔ سمجھوتے اور مجبوریاں انا اور عزتِ نفس کے درپے ہوں۔ داد رسی کے بجائے دھتکار اور پھٹکار عوام کا مقدر ہو۔ عوام کی غریبی کی وجوہات جاننے کے بجائے ان کی آمدن کے ذرائع کی پوچھ گچھ سرکار کا طرزِ حکمرانی ہو۔ بازار ویران اور دکانیں گاہکوں کی راہ تکتی ہوں۔ عدم تحفظ کے مارے عوام امن و امان کے ذمہ داروں سے امان مانگتے ہوں۔ ڈگری اور تجربوں کے باوجود بیروزگاری کے نتیجے میں لوٹ مار اور چھینا جھپٹی عوام کا مقدر ہو۔ پالیسیاں اور ضابطے عوام دشمن ہوں۔ امیر امیر تر اور غریب غریب ترین ہوتا چلا جارہو۔ ایسے خطے میں بسنے والوں کے دیوالیہ ہونے میں اور کونسی کسر باقی ہے؟ جب عوام ہی دیوالیہ ہو چکے ہیں تو ایسے زمینی حقائق جھٹلانے والے حکمران ذہنی دیوالیہ پن کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک ملک کا دیوالیہ ہونا نہ تو کوئی بڑی بات ہے نہ تشویشناک۔ انہیں تو اپنے مال و اسباب اور ظاہری و پوشیدہ اثاثوں کی فکر کھائے جارہی ہے۔ انہیں کس طرح جھٹلانا اور بچانا ہے۔ کالے دھن پر نازاں اور اترائی اشرافیہ کا طرزِ سیاست اور طرزِ حکمرانی گواہ ہے کہ ان کا خون سفید ہو چکا ہے۔ انہیں ملک و قوم کی کوئی پروا ہے اور نہ کوئی سروکار۔
ہمارا دیرینہ حریف ہمسایہ بھارت آج بڑی عالمی اقتصادی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی حیران کن ترقی اور معاشی استحکام کسی آئینے سے ہرگز کم نہیں۔ آج بنگلہ دیش کے ٹکے کے آگے ہمارا روپیہ اپنی قدر کھو چکا ہے۔ بنگلہ دیش آج کس مقام پر ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اس تمہید کا اصل مقصد یہ ہے کہ اقوامِ عالم میں جتنی قوموں نے بھی غیر معمولی ترقی سے ممتاز مقام حاصل کیا ہے‘ ان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو سبھی نے اپنے اعمال کی قیمت چکانے کے علاوہ اسباب اور وجوہات سے نہ صرف سبق سیکھا بلکہ اپنی کمزوریوں کے آگے ہتھیار ڈالنے کے بجائے ایسے مشکل فیصلے بھی کیے کہ کمزوری ہی طاقت بنتی چلی گئی۔ چند دہائیوں کے اندر جاپان‘ چین اور کوریا سمیت بیشتر ممالک زمین سے آسمان پر ایسے جا پہنچے کہ ان کے بدترین حریف ممالک بھی مفاہمت اور اچھے تعلقات پر مجبور ہیں۔
اس تھیوری کو لے کر نجانے کب سے لکھ رہا ہوں کہ پون صدی کی تباہیوں‘ بربادیوں اور بداعمالیوں کا بوجھ سر پر اٹھائے کیونکر سنگین بحرانوں سے نکلا جا سکتا ہے۔ ماضی کی فصل کاٹے بغیر کس طرح حال اور مستقبل سنوارا جا سکتا ہے۔ نازک دور اور نازک موڑ کے عذر اور ڈھکوسلے اٹھائے پھرنے والے سبھی حکمران ملک کو اس مقام پر لے آئے ہیں کہ مملکتِ خدادادا سچ مچ نازک موڑ اور نازک دور سے دوچار ہو چکی ہے۔ ان کے جھوٹے بہانے پورا سچ بن کر ان کا منہ چڑا رہے ہیں۔ یہ حالات کی نزاکت کا احساس کرنے کے بجائے حالات کی سنگینی سے آنکھیں چراتے اور گمراہ کن بیانیے بیچنے سے آج بھی باز نہیں آ رہے۔ اقتدار کی دھینگا مشتی میں ایک دوسرے سے دست و گریباں سیاسی اشرافیہ کو خبر ہونی چاہیے کہ اقتدار کے لیے ملک کا ہونا ضروری ہے۔ گورننس اور میرٹ سے لے کر اقدامات اور اصلاحات سمیت ریاستی رِٹ جہاں غیر مؤثر ہوکر رہ جائے وہاں حکمرانی کیا خاک ہوگی؟ البتہ بچے کھچے ملکی وسائل اور قرض کی صورت میں تھوڑی بہت خزانے کی کھرچن موجود ہے جو اب مصاحبین اور وزیروں مشیروں کے اللے تللوں اور موج مستی کے لیے شاید ناکافی ہو۔ جن کو لت لگ چکی ہو‘ ان کے لیے تو کافی بھی ناکافی ہوتا ہے۔
چلتے چلتے انتہائی تلخ حقیقت اور خاصے کی بات بتاتا چلوں کہ 75 برسوں سے کوڑھ کاشت کرنے والے کس منہ سے کپاس اور گندم کی فصل کاٹنے کی تیاری کررہے ہیں؟ کوڑھ تو کوڑھ ہے خودفریبی کے لیے اسے گندم کہہ لیں یا خوش فہمی کا شکار ہوکر اسے کپاس کا نام دے لیں۔ ماضی کی فصل کاٹے بغیر ہریالی کے خواب دیکھنے والے یاد رکھیں کہ قانونِ فطرت کسی آرڈیننس اور قرارداد سے ہرگز نہیں بدلتا۔