کیا جہانگیر ترین اور علیم خان کو ایک بار پھر استعمال کیا جا رہا ہے؟ یہ سوال ہر گزرتے دن کے ساتھ اہم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پہلے تحریک انصاف نے ان پر غیر معمولی بوجھ ڈالے رکھا۔ سیاسی جدوجہد سے لے کر طویل ترین دھرنوں کے بھاری اخراجات کے علاوہ دیگر پارٹی امور چلانے کے لیے کوئی قابلِ ذکر تیسرا نام نہیں لیا جا سکتا‘ بالخصوص حکومت سازی کے مرحلے میں جہانگیر ترین کی بھاگ دوڑ اور مالی قربانیاں ریکارڈ پر ہیں۔ یہ سوال تقویت اختیار کرتا چلا جارہا ہے کہ نئی پارٹی میں نئی برانڈنگ کے ساتھ قابلِ قبول چہرے لانے کے بجائے بدنامیوں‘ رسوائیوں اور ناکامیوں کے استعارے کیوں دھڑا دھڑ شامل کئے جا رہے ہیں۔ کیا یہ سبھی آئندہ انتخابات میں حلقوں میں جانے کے قابل ہیں؟ کیا ووٹر انہیں مینڈیٹ دینے کی غلطی دہرائے گا؟ تحریک انصاف میں انہوں نے کون سی توپ نہیں چلائی جو استحکام پارٹی میں چلانے آگئے ہیں۔ کس کس کا نام لوں‘ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پہ دہلا ہیں۔ اکثر قابلِ ذکر اور اہم چہروں کا تو طرزِ حکمرانی ہی کرپشن اور لوٹ مار رہا ہے۔
خیر! اپنے سوال پر ہی فوکس کرتے ہیں۔ آئندہ سیاسی منظرنامہ کیسا ہوگا؟ انتخابات (اگر ہوئے) تو پارٹی پوزیشن کیا ہوگی؟ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے باہمی تعلقات کا نیا رنگ کیا ہوگا؟ مفاہمت کی پینگیں بڑھانے والے ایک دوسرے سے الجھنے کے لیے کیسے کیسے جواز گھڑیں گے۔ آصف علی زرداری تختِ پنجاب کو پہلے ہی اپنی ترجیحات میں شامل کر چکے ہیں اور اس بار وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر انتخابی معرکہ مارنے کے لیے داؤ پیچ شروع کر چکے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اپنی وکٹ کو زرداری صاحب کی گگلیوں اور باؤنسر زسے بچاؤ کے لیے کیا حکمتِ عملی بناتی ہے‘ ان سبھی سوالوں سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس منظر نامے میں استحکام پارٹی کے اُمیدوار کہاں کھڑے ہوں گے؟
سیاسی موسمیات کے ریڈار سے ملنے والے اشارے ایک نئی تھیوری کا پیغام بھی دے رہے ہیں کہ جو جدوجہد دوپارٹی نظام توڑنے کے لیے کی گئی تھی وہی جدوجہد اب شاید اس نظام کو بحال کرنے کے لیے کی جارہی ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں کہ تحریک انصاف چھوڑنے والے سبھی چہروں کو ایک نئی پارٹی میں اکٹھا کر کے ڈمپ بھی کیا جاسکتا ہے کیونکہ موجودہ حالات میں ان کے پاس نہ کوئی نیا بیانیہ ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ایجنڈا کہ جس کی بنیاد پر وہ حلقوں میں جاکر عوام کا سامنا کر سکیں۔ 2018ء کے انتخابات میں وہ نئے پاکستان کے نام کا ووٹ لے کر اسمبلیوں میں گئے تھے اب چونکہ وہ پرانے پاکستان میں واپس آچکے ہیں اور پرانے پاکستان کے نام پر ووٹ مانگنے والے پہلے ہی اگلی قطاروں میں موجود ہیں۔ اس تناظر میں استحکام پارٹی کے امیدواروں کو اس مشکل صورتحال کا سامنا بھی رہے گا کہ عوام کے کس کس سوال کا جواب دیں؟ چونکہ گزشتہ عام انتخابات میں تو امیدواروں سے ہاتھا پائی کے واقعات بھی ریکارڈ پر ہیں۔ نومئی سے پہلے جو خود کو ناقابلِ تسخیر اور اگلی اسمبلیوں میں دیکھ رہے تھے وہ آج کونے جھانکتے پھر رہے ہیں۔ ان سبھی کو ایک نئی پارٹی میں ڈمپ کر کے کہیں دوبارہ دو پارٹی نظام کو محفوظ راستہ تو نہیں دیا جارہا کیونکہ ان سبھی پر تو نومئی کے المناک واقعات میں بالواسطہ اور بلاواسطہ ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ ایسے الزامات کی پنڈ اٹھائے یہ انتخابی معرکہ کیونکر سر کر پائیں گے۔ دوسری طرف قانون انہیں الیکشن لڑنے کے لیے محفوظ راستہ کہاں سے فراہم کرے گا۔ آرمی چیف پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ملک و قوم کی سالمیت پر حملہ کرنے والوں کو بھولیں گے نہ معاف کریں گے۔ ملک بھر میں بلالحاظ و تمیز قانون حرکت میں آچکا ہے۔ وہ شجر ممنوعہ بھی جڑ سے اکھاڑ ڈالے ہیں جن پر ہاتھ ڈالنے کا تصور بھی محال تھا۔ ان حالات میں نئی پارٹی ان سبھی کے لیے کہاں تک محفوظ پناہ گاہ ہو سکتی ہے؟ جب تک ان پر نومئی کے الزامات کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھے گا‘ انہیں آئندہ انتخابی دنگل میں اترنے کی اجازت کیونکر مل پائے گی۔ کلین چٹ مل نہیں سکتی‘ ان سبھی کے للکارے اور آڈیو وڈیوز ان کو آئینہ بھی دکھاتی رہیں گی۔ ایسے میں آئندہ الیکشن میں ریسٹ کرنا ہی بہتر آپشن ہو سکتا ہے اور اگر یہ سبھی ریسٹ پر رہے تو مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کو وہی موافق حالات میسر آجائیں گے جس میں وہ اقتدار اور وسائل کا بٹوارہ باآسانی کر سکیں گے۔ اس تھیوری میں اگر جان پڑ گئی تو یہ عقدہ بھی کھل کر رہے گا کہ ان سبھی نے عمران خان اور تحریک انصاف سے علیحدگی اختیا رکرنے والوں نے استحکام پارٹی میں شمولیت کیوں کی تھی۔ ایسے میں استحکام پارٹی کے مستقبل اور کردار پر بھی کئی سوالات کھڑے ہو سکتے ہیں کہ عوام میں غیر مقبول اور نومئی جیسے افسوسناک واقعات کے سنگین الزامات میں دھنسے سبھی چہرے ہنسی خوشی اپنی چھتر چھایہ میں کیوں لے لیے۔ کسی بھی پارٹی کے چہرے ہی اس کا کردار طے کرتے ہیں‘ جو کردار پر ڈھیروں سوالیہ نشان پہلے ہی لیے ہوئے ہوں ان کی شمولیت پر نازاں اور شاداں کیوں؟
آفرین ہے! جہانگیر ترین اور علیم خان کے خلاف سازشوں میں پیش پیش اور عمران خان کے کانوں میں زہر گھولنے والے استحکام پارٹی میں فوٹو سیشن کرواتے پھرتے ہیں۔ یہ مکاری ہے‘ اداکاری ہے یا عیاری‘ کیا ہے؟ میزبان استحکام پارٹی میں آنے والوں کا کھلے بازوؤں سے استقبال کر رہے ہیں اور آنے والے بتیسیاں نکالتے چلے آرہے ہیں‘ شاید یہی ہماری جمہوریت ہے اور یہی اس کا حسن ہے کہ کل کے دشمن آج کے دوست‘ آج کے دشمن کل کے دوست۔ اہداف کے حصول کے لیے مجبوریوں کے سودے ہوں یا ضرورتوں کی دلالی سب برابر جائز ہے۔ گویا :
اَکھ دا چانن مر جاوے تے
نیلا‘ پیلا‘ لال برابر
ایک دوسرے کی مخالف کا ووٹ لینے والے جب بغلگیر ہو جائیں تو عوام کے لیے سبھی ایک جیسے ہی ہیں۔ گویا ایک ہی سکے کے دو رُخ۔ البتہ عوام کو آئندہ انتخابات میں اس سیاسی سرکس سے سبق ضرور سیکھنا چاہیے کہ ان سبھی کا کوئی منشور ہے نہ کوئی نظریہ‘ انہیں عوام کا کوئی احساس ہے نہ خیال‘ یہ سبھی اپنی اپنی ضرورتوں اور مجبوریوں میں اس طرح بندھے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کو چھوڑنا بھی چاہیں تو ضرورتیں اور مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں اور اسی کی آڑ میں یہ سب ایک ہو جاتے ہیں۔
اسمبلیوں میں ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنے والے ہوں یا ٹاک شوز میں بیٹھ کر لتے لینے والے‘ ان کے ایجنڈے دھندے اور مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے اختلافات بھی نمائشی اور ان کی دشمنیاں بھی ظاہری‘ سیاست کے سٹیج پر ان سبھی کا اپنا اپنا سکرپٹ اور اپنا اپنا کردار ہے۔ عوام تماشائیوں کی طرح کبھی ان کے جلسوں کی رونق بڑھانے کے لیے پہنچ جاتے ہیں تو کبھی ان کے استقبال کے لیے قطار در قطار کھڑے رہتے ہیں‘ تو کبھی ان کے درشن کے لیے بے چین اور بے قرار رہتے ہیں۔ اپنے لیڈروں اور رہنماؤں کی شعبدے بازیوں اور قلابازیوں پر تالیاں بجاتے بجاتے عوام کے تو ہاتھ بھی لہولہان ہو چکے ہیں۔ خون رستے ہاتھوں سے یہ کب تک تالیاں بجاتے رہیں گے۔کاش تالیاں بجانے والوں کو خبر ہو کہ ان حالات میں تالیاں نہیں سینہ کوبی بنتی ہے۔