وزیراعظم نے قوم کو آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کی خوشخبری دینے کے ساتھ ساتھ یہ باور بھی کروایا ہے کہ قرضے کا حصول کوئی آسان مرحلہ ہرگز نہ تھا۔ انتہائی کڑی شرائط ماننے کے بعد قرضے کا حصول ممکن ہوا ہے۔ ہمارے وزیراعظم عالمی مالیاتی ادارے کو رام کرنے کا معرکہ طے کرنے کا کریڈٹ لینے کے ساتھ ساتھ کشکول توڑنے کے عزم کا اعادہ بھی کر رہے ہیں۔ تعجب ہے! دونوں باتیں متضاد اس لیے بھی لگ رہی ہیں کہ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد موصوف کے برادرِ کلاں وزیراعظم نواز شریف نے کشکول توڑنے کے سرکاری اعلان کے علاوہ ملک بھر میں فارن کرنسی اکاؤنٹ منجمد کر کے قرض اُتارو ملک سنوارو تحریک بھی بڑے زور و شور سے شروع کی تھی۔ ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کی آڑ میں قوم کو اس طرح جذباتی اور قربانی پر آمادہ کیا کہ ہر خاص و عام نے قرض اُتارو ملک سنوارو تحریک میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا بلکہ ایٹمی طاقت بننے کی خوشی میں مالی معاونت کے انبار لگا ڈالے۔ امریکہ سمیت دیگر بیرونی دباؤ آنے پر عوام کا لہو گرماتے رہے اور کشکول توڑنے کا چورن بیچتے رہے۔ یہ معمہ آج بھی حل طلب ہے کہ قرض اُتارو ملک سنوارو تحریک سے وصول ہونے والی خطیر رقومات کہاں اور کیسے خرچ ہوئیں؟ ملک تو خیر نہیں سنوارا لیکن ان سبھی کے دن سنورتے چلے گئے۔ کشکول توڑنے والوں نے شاید ساری رقوم کشکول جوڑنے پر ہی لگا ڈالیں یا ایسا کشکول کہیں سے خرید لائے جو توڑے سے بھی نہ ٹوٹے اور عوام کے سامنے ٹوٹنے کی شعبدے بازی میں حکمرانوں کا برابر ساتھ دے۔ گویا کشکول بھی حکمرانوں کے اشاروں اور تماشوں کے تابع دکھائی دیتا ہے۔ جب چاہو توڑ لو اور جب چاہو جوڑ لو۔ کشکول نہ ہوگیا جامِ سفال ہو گیا: اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا۔
تعجب ہے! عالمی مالیاتی ادارے سے ملنے والے جس قرضے کی خوشخبری عوام کو برابر دی جا رہی ہے‘ عوام تو کبھی اس کے بینی فشری رہے ہی نہیں۔ مملکتِ خداداد کی عمرِ عزیز کا تقریباً نصف حصہ شوقِ حکمرانی پورے کرنے والے جو کشکول توڑنے کی باتیں کر رہے ہیں‘ اس کشکول کا سائز بتدریج بڑھانے کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے۔ چار مرتبہ وزارتِ عظمیٰ اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پر آٹھ مرتبہ وزارتِ اعلیٰ کے مزے لینے والے کس طرح بیرونی قرضوں کے استعمال اور ترجیحات پر تنقید کیے چلے جا رہے ہیں۔ آفرین ہے!
وزیراعظم یہ بھی فرماتے ہیں کہ انصاف سرکار نے صنعت کاروں میں تین ارب ڈالر بانٹ ڈالے‘ اگر یہ رقم تعلیم پر خرچ ہوتی تو آج ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑتا۔ حضورِ والا! بیرونی قرضے ہوں یا اندرونی محصولات ان سبھی کو بانٹ کر کھانے کی بدعت تو نجانے کب سے پروان چڑھتی چلی آ رہی ہے۔ عمران خان نے تو تقریباً ساڑھے تین سال شوقِ حکمرانی پورا کیا ہے۔ ہمارے ہاں تو سبھی حکمران حصہ بقدرِ جثہ عوام اور ریاست سے برابر وصول کرتے رہے ہیں۔ اگر عمران خان نے اپنے دورِ اقتدار میں اپنا حصہ وصول کربھی لیا تو ظرف اور حوصلے کا مظاہرہ کریں۔ خدارا آنکھ میں پڑے بال اور شہتیر میں کچھ فرق تو ملحوظِ خاطر رکھیں۔
قوم سے خطاب کے دوران وزیراعظم نے انتہائی انقلابی باتیں بھی کر ڈالی ہیں کہ انہیں ووٹ بینک کی نہیں بلکہ سٹیٹ بینک کی فکر ہے‘ اسی لیے انہوں نے اپنی سیاست نہیں ریاست بچائی ہے۔ وزیراعظم اس درجے ملک وقوم کے درد میں مبتلا ہیں اور انہیں اپنے ووٹ بینک کی فکر رہی ہے نہ سیاست کی‘ گویا وہ سبھی کچھ وار کر بھی ملک و قوم کا مستقبل اور استحکام مقدم رکھتے ہیں۔ اس تناظر میں نجانے مجھے خوش فہمی کیوں ہو چلی ہے کہ اگست میں اقتدار نگران سیٹ اَپ کے حوالے کر کے آئینی مدت میں انتخابات کروانے کے لیے بھی اسی جذبے سے سرگرم رہیں گے۔ خدا کرے میری یہ خوش فہمی محض خوش فہمی ہی نہ رہے اور عوام کی سماعتیں وزیراعظم کا یہ اعلان بھی سنیں کہ عام انتخابات آئینی مدت سے ایک دن بھی آگے نہیں جانے دیں گے‘ لیکن خوش فہمی تو خوش فہمی ہی ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر خواب کو تعبیر بھی میسر ہو۔ کچھ خواب بس خواب ہی رہتے ہیں۔ گویا: خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ ممکن ہے وزیراعظم ایساہی چاہتے ہوں۔ اپنی سیاست اور ووٹ بینک کو داؤ پہ لگا کر انتخابات کروانے کا رسک لے بھی لیں تو شاید ملک و قوم کا مفاد ایک بار پھر آڑے آجائے اور اس مفاد کو تقویت کا تڑکا لگانے کے لیے الیکشن کمیشن بھی میدان میں کود پڑے اور بروقت انتخابات کی خوش فہمی میری خوش فہمی ہی رہے۔
قارئین! بیرونی قرضوں پر سیاست بھگارنے والے سماج سیوک نیتاؤں کی ترجیحات کا رونا روئیں یا نیت اور ارادوں کا‘ ان کے دلوں کے بھید بھاؤ جاننے کے لیے ایک جائزہ پیش خدمت ہے: ''1988ء تک وطن عزیز پر بیرونی قرضوں کے بوجھ کا حجم 13ارب ڈالر تھا۔ جمہوریت کے علمبردار حکمرانوں نے 1999ء تک یعنی صرف دس سال کے دوران 26ارب ڈالر اضافے کے ساتھ ان قرضوں کا حجم 39 ارب ڈالر تک پہنچا ڈالا۔ قابلِ ذکر یہ بھی ہے کہ ان دس سالوں کے دوران بے نظیر بھٹو اور نواز شریف وزارتِ عظمیٰ کی دو دو باریاں لگا چکے تھے۔ اسی طرح 1999ء سے 2008ء پرویز مشرف کے عرصۂ اقتدار میں 39ارب ڈالر کا قرضہ 40.6ارب ڈالر تک ہی پہنچ سکا۔ بیرونی قرضوں پر مشرف کا یہ کنٹرول قابلِ تعریف ہے۔ جونہی 2008ء میں میثاقِ جمہوریت کے نام پر بننے والے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں نواز زرداری بھائی بھائی بن کر شہر ِاقتدار میں وارد ہوئے‘ 2008ء سے 2013ء تک زرداری نے اپنا سکّہ چلایا اور اگلے پانچ سال یعنی 2013ء سے 2018ء تک وطنِ عزیز پر نوازراج رہا۔ ان دس سالوں میں یعنی 2008ء سے 2018ء تک مجموعی طور پر بیرونی قرضوں کا حجم 40.6ارب ڈالر سے تقریباً 56ارب ڈالر کے اضافے کے ساتھ 96ارب ڈالر تک پہنچا ڈالا۔ اسی طرح انصاف سرکار نے تقریباً ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں 52ارب ڈالر قرضے کا اضافہ کیا۔ اب آئی ایم ایف کے مطابق پہلی قسط 1.2ارب ڈالر کی وصولی کے بعد سالِ رواں میں پاکستان پر بیرونی قرضہ 136ارب ڈالر ہونے جا رہا ہے‘‘۔
اس تناظر میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں مملکت ِخداداد کو کھربوں ڈالر کے قرضوں کے بوجھ تلے دبانے والے سبھی سماج سیوک نیتا نکھرتے اور ان کے دن تو دن بدن سنورتے ہی چلے گئے لیکن عوام کی فلاح و بہبود اور مفادِ عامہ کے نام پر حاصل کیے جانے والے بھاری قرضے مائنس عوام منصوبوں اور اَللّوں تَلّلوں پر ہی اُڑائے جاتے رہے۔ غیر ملکی قرضوں اور امداد کے حصول کے لیے چارٹر طیاروں میں سوٹڈ بوٹڈ حکمرانوں کی فوج ملک ملک کب نہیں پھری۔ اہلِ خانہ کے ساتھ بین الاقوامی مہنگے برانڈز کی شاپنگ اور مہنگے ترین قیام و طعام کا خرچے کا انحصار بھی متوقع قرضے پر ہی ہوتا تھا‘ یعنی قرضے کی قسط کے لیے بھی مزید قرضوں کے لیے بھاگے پھرتے تھے۔
قرضے ملنے کی خوشخبریاں عوام کو تب سنایا کریں جب عوام اس کے بینی فشری ہوں۔ چلتے چلتے آئی ایم ایف کے لیے ایک تجویز پیش خدمت ہے: قرضے کی واپسی کے معاہدے حکومتی عہدوں کے ساتھ نہیں‘ حکومتی شخصیات کے ساتھ کرنا شروع کر دیں یعنی جس کے دستخط وہی ذمہ دار‘ تو ملک و قوم کے حالات بدلنے کے علاوہ ریکوری رسک بھی زیرو ہو سکتا ہے۔