"AAC" (space) message & send to 7575

سیاست‘ ریاست یا عوام؟

تازہ خبر آئی ہے کہ پاور ڈویژن افسران کو مفت بجلی سہولت واپس لے لی گئی ہے۔ گریڈ17 سے 22 کے افسران کی مفت بجلی بند ہونے سے نو ارب سے زائدکی بچت ہو سکتی ہے۔ یہ نو ارب روپے بچ بھی جائیں تو عوام بچتے نظر نہیں آتے کیونکہ صرف پاور ڈویژن ہی نہیں نجانے کون کونسی ڈویژنز اور طبقات ایسی مراعات انجوائے کر رہے ہیں جو عوام کو ان ہلاکت خیز حالات سے دوچار کر کے ہی پوری ہوتی چلی آرہی ہیں۔ ملک کی اکثریت اس اقلیت کے بھاری بل بھی برابر ادا کر رہی ہے جو شاید کبھی بل دیکھتے بھی نہ ہوں۔ عوام تو خیر کسی کھاتے میں نہیں ہیں‘ ان مفت بَروں کو تو خوفِ خدا بھی نہیں رہااور چلے ہیں ریاست اور سیاست بچانے۔ خاطر جمع رکھیں! ریاست اور سیاست عوام سے مشروط ہے۔ اگر عوام ہی نہ بچے تو یہ کیا بچا پائیں گے؟
نلکے خشک اور سوغات کی طرح میسر بجلی کے باوجود ناقابلِ فہم‘ بھاری بل بھرتے بھرتے عوام کی ہمت اور برداشت ختم ہو چکی ہے۔ گھر گھرماتم کا سماں ہے۔ سڑکوں اور گلی محلوں میں جابجا احتجاج کرنے والے صارفین بولائے پھر رہے ہیں۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے دفاتر پر حملے اور عملے سے ہاتھاپائی کے مناظر دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ اب یہ کمپنیاں ایسے نہیں چلیں گی۔ بجلی کی اصل قیمت کے ساتھ جو بلا جواز ٹیکسز عوام بھرتے چلے آئے ہیں‘ اب ان پر اتنے سوالات کھڑے ہوچکے ہیں کہ جتنے صارف اتنے ہی سوالات۔ ادھر گھر میں بجلی کا بل آیا‘ اُدھر گھر میں بحث تکرار اور بَک بَک شروع‘ بالخصوص یہ حالاتِ پریشاں جوائنٹ فیملی سسٹم کے لیے اتنے شدید خطرات کا باعث ہیں کہ بیشتر گھروں میں سگے بھائیوں کے درمیان تو کہیں مالک اور کرایہ دار کے درمیان زیادہ بجلی استعمال کرنے کے الزامات کے ساتھ گالم گلوچ اور ہاتھاپائی کے واقعات معمول بنتے چلے جا رہے ہیں۔
وہ میٹر جس کی قیمت صارفین ادا کرتے ہیں اسی میٹر کا کرایہ بل میں انہی سے وصول کرنا بھتہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اس پر ستم یہ کہ بل کی عدم ادائیگی پر میٹر اُتارنا بھی کھلی غنڈہ گردی ہے۔ جس میٹر کا مالک ہی صارف ہے‘ اسے کوئی محکمہ کیسے اُتار سکتا ہے؟ بل ادا نہ کرنے پر محکمہ زیادہ سے زیادہ سپلائی منقطع کر سکتا ہے۔ ایسی بدمعاشی کے کئی روپ بہروپ نجانے کیسے کیسے ناموں سے برابر جاری ہیں۔ ٹی وی ٹیکس سمیت نجانے کیسے کیسے مضحکہ خیز بھتے عوام سے وصول کیے جا رہے ہیں۔ پاور کمپنیوں کے ساتھ کک بیکس اور مراعات میں لتھڑے ہوئے کڑے معاہدے ہوں یا آئی ایم ایف سے عہد و پیماں‘ سبھی کا بوجھ ناتواں صارف کے کندھوں پر ہی ہے۔ صارفین اب یہ بوجھ اٹھاتے اٹھاتے ہلکان اور ڈھیر ہو چکے ہیں۔ اب ان کے اندر مزید بوجھ اٹھانے اور وہ ادائیگیاں کرنے کی سکت باقی نہیں جن کا ان سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے۔ گویا: ؎وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔ اب مزید قرض اُتارنے سے قاصر عوام کا کھلا پیغام ہے کہ قرض بھی وہی اُتارے جو ان بھاری قرضہ جات کا بینیفشری اور دستاویز پر دستخط کا ذمہ دار ہے۔ پاور کمپنیوں سے بجلی کی جبری خریداری کے معاہدے کرنے والوں نے اپنی دنیا سنوارنے کے لیے عوام کی زندگیاں اجیرن کر ڈالی ہیں۔ اپنی نسلیں اور مستقبل محفوظ کرنے والوں نے عوام کو رول کے رکھ دیا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں کہرام بپا ہے۔ جہاں جہاں تک بجلی کی تاریں اور کھمبے جاتے ہیں‘ بددعاؤں اور چیخ و پکار کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ یہ کہاں کی سیاست ہے اور یہ کیسی ریاست ہے؟ نہ سیاستدان عوام کے بن سکے‘ نہ ریاست ان کے دکھوں اور پریشاں حالی کا مداوا کرسکی۔
آئی ایم ایف سے معاملات طے پانے اور قرضے کی قسط موصول ہونے پر ایسے خوشخبریاں اور مبارکبادیں دی جا رہی تھیں گویا کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا۔ خیر! ملکی خزانہ بھی ان کا اپنا ہی خزانہ ہوتا ہے۔ مالی ذخائر بھلے محصولات سے ہوں یا بیرونی قرضوں سے‘ ہاتھ کی صفائی کی روایت کو دوام بخشنے والوں نے ہر دور میں حصہ بقدر جثہ برابر وصول کیا ہے۔اسی طرح مفادِ عامہ کے نام پر لیے جانے والے سبھی بھاری قرضے مائنس عوام اَللّے تَللّوں میں اُڑائے جاتے رہے ہیں۔ بجلی کے بل ہوں یا پانی اور سوئی گیس کے‘ ناقابلِ برداشت مہنگائی ہو یا شہری سہولیات کا قحط‘ ان سبھی عذابوں کا بس ایک ہی حل ہے کہ عوام کو بنیادی ضروریات سے محروم کر کے جنہیں ٹھاٹھ باٹھ اور موج مستیاں فراہم کی جا رہی ہیں ان سبھی کا ناطقہ بند کیا جائے۔ جب تک ان کے محلات اور وسیع و عریض فارم ہاؤسز جگماتے رہیں گے‘ اس ملک کے اندھیرے دور نہیں ہوں گے۔ جب تک ان کے بچے لوٹ مار کے مال پر بیرون ممالک ڈالروں میں ڈگریاں حاصل کرتے رہیں گے‘ تب تک قوم کے معصوم ننھے منے ہاتھوں میں کتابوں کے بجائے اوزار پکڑتے یا چوراہوں پر بھیک مانگتے رہیں گے۔
اشرافیہ کی غیر معمولی مراعات‘ پرکشش اور ہوشربا تنخواہوں سمیت سبھی تام جھام کو ان کی اہلیت اور کارکردگی سے مشروط کر دیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے حامل ملکی وسائل پر اس طرح ہاتھ صاف کر جاتے ہیں کہ عوام کے حصے میں صرف مضحکہ خیز عذر اورصبر کی تلقین کے علاوہ اچھے دنوں کے نہ ختم ہونے والے جھانسے‘ دعوے اور وعدے ہی آتے ہیں۔ اس تناظر میں کسی حالیہ کالم میں آئی ایم ایف کو ایک نسخہ نما تجویز پیش کر چکا ہوں کہ: ''قرضے کی واپسی کے معاہدے حکومتی عہدوں کے ساتھ نہیں‘ حکومتی شخصیات کے ساتھ کرنا شروع کر دیں یعنی جس کے دستخط وہی ذمہ دار‘ تو ملک و قوم کے حالات بدلنے کے علاوہ ریکوری رسک بھی زیرو ہو سکتا ہے‘‘۔
کالم اپنی سمت میں رواں دواں تھا کہ ایک پولیس افسر نے کالم کے دھارے کے ساتھ ساتھ وہ رائے بھی بدل ڈالی جو پولیس کے بارے میں عمومی طور پر قائم اور پولیس کی اپنی ہی کوششوں سے دائم ہے۔ لیہ کے نواحی علاقے کروڑ لعل عیسن کے مفلوک حال کنبے کے سربراہ نے بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھ کر پولیس ایمرجنسی 15پر کال کر ڈالی۔ اس انوکھی کال پر ڈی پی او اسد الرحمن ٹیم کے ہمراہ راشن و دیگر سامان لے کر نہ صرف اس مفلوک الحال آدمی کے گھر پہنچ گئے بلکہ راشن بینک کا بھی قیام کر ڈالا۔ڈی پی او کی طرف سے یہ اعلانِ عام بھی کیا گیا کہ اس ناقابلِ برداشت مہنگائی اور گرانی کے دور میں بچوں کو بہلانے اور جھوٹی تسلیاں دینے کے بجائے حسبِ ضرورت راشن اور دیگر سامان حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک ڈی آئی جی عہدے کے افسراور ان کی بیگم سو سے زائد یتیم اور بے سہارا بچوں کی رہائش اور تعلیم و تربیت کی ڈیوٹی ماں باپ بن کر نبھا رہے ہیں‘ جسے دیکھنے کے بعد ہی یقین آتا ہے کہ عین وہی معیاری سہولتیں ان بچوں کو حاصل ہیں جو ایک آسودہ حال گھرانے میں دستیاب ہوتی ہیں۔یہ طرزِ عمل مملکتِ خدادا کا وہ دوسرا رُخ ہے جسے جابجا ماتم اور پریشان حالی نے اوجھل کر رکھا ہے۔ حصہ ڈالنے والے تو اپنا حصہ ڈال رہے ہیں لیکن گڑھے اور کھائیاں اتنی گہری ہیں کہ انہیں بھرنے کے لیے‘ یہ آٹے میں نمک برابر افراد ناکافی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں