دنیا میں کتنا غم ہے‘ اس کا اندازہ دوسروں کا غم دیکھنے کے بعد ہی ہوتا ہے لیکن اپنے دکھوں کے خول سے باہر نکل کر دوسروں پر ٹوٹنے والی مصیبتوں اور عذابوں کے احساس کی توفیق بھی رب کی عطا سے مشروط ہے۔ اکثر یہ سوچ کڑے سوالات کو جنم دیتی ہے کہ گوتم بدھ پر آخر کون سی اُفتاد آن پڑی تھی کہ دنیا کو دکھوں کا گھر قرار دے کر شان وشوکت‘ عیش و آرام اور محل چھوڑ چھاڑ کر ترکِ دنیا کرگیا۔ دوسروں کے دکھوں پر دُکھی اور بے چین رہنے والوں کو میں گوتم بدھ کا پیروکار ہی کہتا ہوں۔ ایک ایسا ہی پیروکار پولیس کی وہ نوکری چھوڑ چھاڑ کر سات سمندر پار جابسا جس کے لیے لوگ منت ترلوں کے علاوہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے اور مالی تعاون تک کرنے کو تیار رہتے ہیں۔
ٹریفک وارڈن کا ماڈل جب متعارف کروایا گیا تو اس وقت کے کرتا دھرتا اور حکمرانوں پر بھرتیوں سے لمبا مال بنانے کے الزامات کی بازگشت بھی تادیر سنائی دیتی رہی۔ خیر بات ہو رہی تھی اس شخص کی جس کے پاس محل تھا‘ نہ شان و شوکت اور نہ ہی وہ کوئی شہزادہ تھا۔ وہ بیچارہ تو ٹریفک وارڈن بھرتی ہوکر غمِ روزگار سے آزاد ہونے کے علاوہ محنت اور دیانت کے بوتے پر محکمانہ ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتا تھا لیکن سسٹم کی بدعتوں نے اس کے دن کا چین اور رات کی نیند ہی چھین لی۔ گھر سے ڈیوٹی پر جانے والا یہ ٹریفک وارڈن دل پر پچھتاوے اور احساسِ ظلم کا بوجھ لیے گھر لوٹتا۔ ایک دن کسی ملنے والے کے توسط سے میرے پاس چلا آیا تو میں سمجھا کہ کسی اچھی پوسٹنگ کی سفارش کروانے آیا ہے۔ شانوں پر دو سٹار لگائے بیٹھا ہوا وہ شخص مجھے روایتی اور دنیا دار اس لیے لگا کہ آئے روز ایسے ضرورت مند پوسٹنگ ٹرانسفر کے لیے کسی نہ کسی وسیلے سے آ پہنچتے ہیں لیکن انہیں جلد ہی احساس ہو جاتا ہے کہ چائے کافی کی خاطر تواضع کے سوا انہیں کچھ حاصل اس لیے نہیں ہونے والا کہ پُرکشش ٹرانسفرپوسٹنگ کے لیے تو میری زبان ہی ساتھ نہیں دیتی۔ میں اعلیٰ افسران سے تعلق اور قربت کی قیمت تبادلوں کی صورت میں وصول کرنے کو انتہائی معیوب سمجھتا ہوں۔
ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ پُر امید آنے والے کی امید توڑنے سے پہلے ٹھنڈے گرم کا تو پوچھ لوں لیکن اس نے تو مجھے اندازوں کی دنیا سے نکال اس طرح جھنجھوڑ ڈالا کہ میرے نہ صرف ہوش ٹھکانے آگئے بلکہ میں اپنی سوچ پر شرمسار بھی ہوا۔ اس کے الفاظ آج بھی میری سماعتوں پر سوار ہیں۔ انتہائی درد مندی سے بولا کہ میری فیلڈ ڈیوٹی سے جان چھڑوا دیں‘ مجھے رات کو نیند نہیں آتی‘ ان موٹر سائیکل سواروں اور خستہ حال رکشہ ڈرائیوروں لوگوں کی شکلیں سامنے آجاتی ہیں جن کے چالان سکور پورا کرنے کے لیے مجبوراً کرنا پڑتے ہیں۔ اکثر پرانی موٹر سائیکلوں پر بیوی کے ساتھ کئی بچوں کو لادے جارہے ہوتے ہیں انہیں روک کر چالان کا جواز گھڑنا اور ان کی منت سماجت کے باوجود ان کے ہاتھ میں چالان تھما دینے کے جواب میں ان کے چہرے پر لکھی بددعائیں بھی باآسانی پڑھ لیتا ہوں۔ کئی بار کوشش کی کہ کوئی ڈیسک ڈیوٹی مل جائے لیکن ایسی کوششیں چند دن سے ذیادہ کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔ فیلڈ میں اگر چالانوں کا کوٹہ پورا نہ کریں تو شوکاز نوٹس اور ڈانٹ ڈپٹ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
طے شدہ تعداد میں چالان نہ کرنے والوں کو سزاؤں اور دیگر محکمانہ عتاب کا بھی سامنا رہتا ہے۔ مسلسل اعصابی تناؤ اور دباؤ کے باعث میری ریڑھ کی ہڈی میں شدید درد رہنے لگا ہے لیکن افسران کا اصرار ہے کہ فیلڈ ڈیوٹی کے علاوہ مطلوبہ چالان بھی کرنا پڑیں گے۔ سروس ضبط کرنے سے لے کر دیگر میجر سزائیں ان وارڈنز کا مقدر بن چکی ہیں جن میں انسانیت اور احترامِ آدمیت کی کچھ رمق باقی ہے۔ تنخواہیں حلال کرنے کیلئے عوام کو ناحق ذبح کرنا پڑتا ہے۔ حسبِ توفیق اس کی مدد اور آسانیوں کی کوشش کرتا رہا لیکن اس ڈریکولائی سسٹم سے کب تک اور کس کس کو بچایا جا سکتا ہے۔
اچھی بھلی نوکری اور شانوں پر سجے سجائے سٹارز چھوڑ چھاڑ کر اس کو دیارِ غیر میں ہی پناہ ملی۔ افسران کے لیے سڑک پر چلتے عوام تو بس کمائی‘ مراعات اور تنخواہوں کے تسلسل کا ذریعہ ہیں۔ پٹرول کی ناقابلِ برداشت قیمتوں اور مہنگائی کے مارے عوام کو چالانوں کے ٹیکے‘ اُف خدایا۔ دیہاڑ ی پر رکشہ چلانے والے محنت کشوں کی اکثر دن بھر کی کمائی تو ان چالانوں میں ہی چلی جاتی ہے۔ ان کے گھر میں چولہا جلے نہ جلے‘ بچے بھوکے رہیں یا گھر میں مریض دوائی دارو سے محروم رہیں‘ سرکار اور اس کے بابوؤں کی بلا سے۔ سرکاری بابوؤں کی انڈر ایج اولادیں ہوں یا لگژری گاڑیوں میں رئیس زادے‘ سبھی سڑکوں پر گاڑیاں دوڑاتے اور ٹریفک قوانین کی دھول اڑاتے پھرتے ہیں لیکن کس کی مجال کہ ان کا کوئی چالان کر سکے۔ تھانوں میں گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بھی ماڑوں کی ہی بند ہوتی ہیں۔ شہری سے ہزار‘ دو ہزار لینے والے کانسٹبل کو پکڑنے کیلئے تو اعلیٰ حکام تھانے جا پہنچے تھے لیکن سڑکوں پر روزانہ لاکھوں جبری چالان کس کھاتے میں؟ چالانوں کا کوٹہ کیا صرف ماڑے شہریوں پر ہی لاگو ہے؟
تازہ خبر گرم ہے کہ غلط پارکنگ پر پانچ ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ کوئی انہیں بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا‘ حضورِ والا اول تو شہروں میں عوامی مقامات پر پارکنگ کا مناسب انتظام ہی موجود نہیں ہے دوسرا عوام بھوک ننگ کا شکار ہیں‘ ان حالات میں اتنے بھاری جرمانے قطعی درست اقدام معلوم نہیں ہوتے کہ جرمانے کی یہ حد کسی کتاب اور شیڈول میں درج نہیں۔ حد سے زیادہ جرمانے کی وصولی غیرقانونی ہے۔ بڑے بڑے پلازوں اور دیگر عوامی مقامات پر پارکنگ ایریا کو یقینی بنانا سرکار کا کام ہے۔ مل ملا کر غیر قانونی تعمیرات کروانے والوں نے پرائیویٹ ہسپتالوں سے لے کر ریستورانوں اور شاپنگ مالز سمیت دیگر کاروباری مراکز بنوا تو دیے ہیں لیکن کوئی تو ان سے پوچھے کہ پارکنگ کے لیے کیا عوام جگہ گھر سے لے کر آئیں گے؟ وہیکلز کے ٹوکن اور دیگر ٹیکسز عوام دے رہے ہیں تو پارکنگ کی سہولت عوام کو کیوں میسر نہیں؟
جب گورننس کے کنویں میں بدنیتی اور بوئے سلطانی کا کتا گر جائے تو سوشل میڈیا پر اعلیٰ افسران کی نمائشی گورننس اور آنیوں جانیوں سے عوام کے دکھوں کا مدوا نہیں ہو سکتا۔ افسران کو جب مشہوری کا چسکا پڑ جائے‘ امن و امان سمیت عوام کو جان و مال کے لالے ہی پڑ جاتے ہیں۔ ان ریفارمز کا نتیجہ ڈیفارمز کے ڈھیر کی صورت ہی نکلتا ہے۔ جہاں روٹی اور بِلوں کے لالے پڑے ہوں وہاں روز روز چالان کے لیے اضافی مالی صدمہ کون کب تک اٹھا سکتا ہے۔ اعلیٰ حکام کی کچھ توجہ نمائشی کاموں سے ہٹ کر اس طرف بھی ہو جائے ‘جو اصل کام ہیں۔ صوبائی دارالحکومت میں راتوں کو جاگنے اور فیلڈ سٹاف کو جگائے رکھنا کوئی گورننس ہے نہ ہی کرائم کنٹرول کرنے کا کوئی فارمولا۔ سستی شہرت اور خود پسندی کی لت میں مبتلا افسران ان بھاشنوں کا چند فیصد بھی سچ کر دکھائیں تو حالات کی تبدیلی اور بہتری کا امکان پیدا ہو سکتا ہے جو صبح و شام میٹنگز اور سوشل میڈیا پر دیتے ہیں۔ ڈاکو راج اور دھن راج کا گٹھ جوڑ لا اینڈ آرڈر کے لیے روز نیا چیلنج بن رہا ہے۔ عوام دن کے اجالوں میں بھی لٹ رہے ہیں ان کی کہیں داد رسی ہے نہ شنوائی۔ ناحق مارے جانے والوں کی روحیں زمینی قانون سے مایوس ہوکر آسمانوں پر انصاف کے لیے بھٹک رہی ہیں۔ ایک وارڈن کو نیند نہیں آتی تو اعلیٰ افسران کس طرح ان حالات میں سوئے چلے جا رہے ہیں۔